نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری ریاست کے اہم ترین ادارے میں بدھ کے روز قابل توجہ تعیناتیوں اور تبادلوں کا اعلان ہوا ہے۔ان کی بابت سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی معلومات اور تجزیے پڑھتے ہوئے دریافت ہوا کہ میں کتنا لاعلم ہوں۔1975ء سے محض صحافت کے علاوہ کچھ اور نہ کرنے کا دعوے دار اہم ریاستی عہدوں پر فائز افراد کے بارے میں ککھ بھی نہیں جانتا ۔اپنی غفلت کے احساس کو کم کرنے کے لئے اگرچہ یہ سوچتے ہوئے دل کو تسلی دیتا رہا کہ جس ادارے کی بات ہورہی ہے وہاں کے فیصلے اپنی سرشت میں اجتماعی ہوتے ہیں۔افراد ان فیصلوں کا فقط چہرہ ہوتے ہیں اور وہ بدلتے رہتے ہیں۔
اپنی اوقات تک محدود ہوئے صحافی کے لئے اہم ترین خبر مگر یہ تھی کہ نیب چیئرمین کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کی راہ دریافت کرلی گئی ہے۔دورِ حاضر کے شریف الدین پیزادہ تصور ہوتے فروغ نسیم نے اس ضمن میں ایک آرڈیننس تیار کیا۔صدر پاکستان نے اس پر فوراََ دستخط کردئیے۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
جسٹس (ریٹائرڈ )جاوید اقبال سے زندگی میں فقط ایک بار ہاتھ ملایا ہے۔ ہم دونوں آج سے تقریباََ دس سال قبل اسلام آباد کی ایک رہائشی عمارت کی لفٹ میں موجود تھے۔انہوں نے مجھے پہچان لیا۔میں نے جی حضوری والا سلام کرتے ہوئے ان کی نگاہِ بندہ شناس کا اقرار کیا۔وطن عزیز کو کرپشن سے پاک کرنے کے نام پر بنائے ادارے کے وہ انتہائی بااختیارسربراہ ہیں۔وہ جس بھی مشتبہ شخص کی گرفتاری کا حکم دیں اسے کئی مہینوں تک ضمانت نصیب نہیں ہوتی۔ دنیا بھر کی کسی بھی ریاست کے ادارے کو گرفتار کئے افراد کے خلاف لگائے الزامات کے ثبوت عدالتوں کے روبرو پیش کرنا ہوتے ہیں۔احتساب بیورو کی زد میں آئے ملزموں کو لیکن ازخود اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوتی ہے۔
جنرل مشرف نے 1999ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ ادارہ بنایا تھا۔عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ مذکورہ ادارے کے ابتدائی کرتا دھرتا افراد میں سے ایک صاحب کے ساتھ میری دیرینہ اور بے تکلف دوستی تھی۔میں ان کے اختیار کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنے لئے معافی کا طلب گار رہتا۔ ان کے ادارے کی زد میں آئے چند افراد مجھے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر صاف ستھرے محسوس ہوتے تھے۔موصوف میری سادگی کا مذاق اڑاتے۔بعدازاں اگرچہ ان میں سے ایک یعنی خواجہ آصف کو نیب کے پہلے چیئرمین جنرل امجد نے ایک تحریری بیان کے ذریعے معذرت کا پیغام بھیجا۔ اس معذرت کے باوجود مگر خواجہ صاحب اب کی بار احتساب بیورو کے جیل خانے میں کئی ہفتے گزارنے کو مجبور ہوئے۔ بہت تگ ودو کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی۔
نیب کا ادارہ قائم ہوتے ہی جن سیاست دانوں کو پہلے مرحلے ہی میں گرفتار کرلیا گیا تھا ان میں سے چند جنرل مشرف ہی کی سرپرستی میں بنائی جمالی اور شوکت عزیز حکومتوں کی کابینہ کے رکن بھی رہے۔جنرل صاحب نے بھی بالآخر این آر او کا اعلان کرتے ہوئے داغدار ٹھہرائے سیاستدانوں سے مک مکا کی کوشش کی۔اس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان تشریف لائیں۔انہیں مگر دسمبر2007ء میں راولپنڈی کے لیاقت باغ کے قریب قتل کردیا گیا۔بعدازاں انتخاب ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں لوٹ آئی۔احتساب بیورو کے اہم ترین ملزمان آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی اس کی بدولت ہمارے صدر اور وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ہمیں یہ گماں بھی دلایا گیا کہ حقیقی جمہوریت اب بحال ہوگئی ہے۔اس گماں کو حقیقت کا روپ فراہم کرنے کے لئے آئین میں اٹھارویں ترمیم تیار ہونا شروع ہوگئی۔ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے مذکورہ ترمیم کا ہمارے آئین اور مختلف قوانین کا کئی مہینوںتک باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے ایک مسودہ تیار ہوا۔
اسے تیار کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کو میسر اختیارات پر سنجیدہ غور کی ہمارے سیاستدانوں نے ضروری ہی محسوس نہ کی۔آئین کی 62/63 والی شقیں بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ افتخار چودھری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے تو جنرل مشرف کا دیا این آر او کالعدم ٹھہرادیا۔ ازخود نوٹس لیتے ہوئے انہوں نے کرپشن کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز بھی کردیا۔یوسف رضا گیلانی کو چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا۔مسلم لیگ (نون) والے سپریم کورٹ کی ازخود اختیارات کی بدولت ہوئی سرگرمی سے بہت شاداں محسوس کرتے رہے۔یہ ہتھیار مگر بالآخر ان کے رہ نما کی تاحیات نااہلی کے لئے بھی استعمال ہوا۔
2018ء کے انتخاب کے بعد سپریم کورٹ شاذہی ازخوداختیار کو استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔فقط آصف سعید کھوسہ صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل اسے ایک اہم ریاستی عہدے میں توسیع پر سوال اٹھانے کے لئے استعمال کیا۔ حتمی فیصلہ لینے کی ’’حیف ہے اس قوم پر‘‘ کی گردان پڑھنے والے کھوسہ صاحب مگر جرأت نہ دکھاپائے۔ معاملہ پارلیمان کے سپرد کردیا۔جہاں نوکر کی تے نخرہ کی والی عاجزی کے ساتھ 12منٹ کی تاریخی عجلت سے مطلوبہ قانون پاس کردیا گیا۔
نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کرنے کی راہ پانامہ دستاویز نے بنائی تھی۔مجھ جیسے خوش فہم پاکستانیوں نے اس کے بعد امید باندھی کہ ان دستاویز میں منکشف ہوئے دیگر چار سوناموں کا بھی کڑا احتساب ہوگا۔ایسا مگر ہوا نہیں۔اسی باعث گزشتہ اتوار کی رات پینڈورالیکس کے نام پر جو دستاویز بینڈ باجہ بارات کے ساتھ منظر عام پر آئیں ان میں 700پاکستانیوں کے نام بھی آگئے ہیں ۔
معاشی لین دین کے معاملات سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی مجھ سادہ لوح کا اصرار ہے کہ اگر وطن عزیز میں بلااستثناء اور بے لاگ احتساب کا عمل واقعتا بروئے کار ہوتا تو جو 700نام آئے ہیں ان میں سے کم از کم ڈیڑھ سے دو سو افراد ان دنوں احتساب بیورو کی جیلوں میں بیٹھے رسیدیں دکھارہے ہوتے۔ایسا مگر ہوا نہیں۔ چیئرمین نیب کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کی اس کے باوجود راہ نکال لی گئی ہے۔یقینا جسٹس (ریٹائرڈ)جاوید اقبال میں کوئی ایسی خوبی ہوگی جو کالے موتیے کی زد میں آئی میری آنکھیں دیکھ نہیں پائی ہیں۔ان کے لئے مزید کامیابی اور کامرانی کی دُعا ہی مانگ سکتا ہوں۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر