اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی!||شبیر حسین امام

درد اُور دردمندی کا فقدان ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایبٹ آباد کے ضلعی فیصلہ سازوں کو تجاوزات سے پیدا ہونے والے مسائل کی گہرائی‘ شدت اُور اِس کے جملہ پہلوؤں کے بارے میں خاطرخواہ آگاہی بھی نہیں

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایبٹ آباد کی ضلعی انتظامیہ نے تجاوزات کے خلاف جاری مہم کو معطل کرتے ہوئے تاجروں کو 3 دن کی مہلت دی ہے۔ ستائیس ستمبر (دوہزاراکیس) کے روز دی جانے والی اِس مہلت کا پس پردہ محرک ”سیاسی دباؤ“ ہے اُور افسوس کہ یہ حربہ اِس مرتبہ بھی ”کارگر“ ثابت ہوا ہے۔ تاجروں‘ دکانداروں‘ ہتھ ریڑھی بانوں اُور تہہ بازاری کرنے والوں کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ …. ”اُنہیں پیشگی اطلاع دیئے بغیر انسداد تجاوزات مہم شروع کی گئی۔“ تو کیا تاجروں نے تجاوزات قائم کرنے سے 3 دن پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کیا تھا اُور کیا تجاوزات قائم کرنے والوں نے اُن تمام شہری قواعد و قوانین کا اِحترام کیا‘ جن کا حوالہ دے کر رعایت حاصل کی گئی ہے؟ تعجب خیز ہے کہ ضلعی اِنتظامیہ نے قریب ایک ماہ سے جاری تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران ضبط کیا جانے والا سازوسامان بھی تاجروں کو واپس کر دیا ہے اُور ساتھ ہی اُن سے یہ اُمید بھی ہے کہ وہ ازخود 3 دن کے اندر باقی ماندہ تجاوزات ختم کر دیں گے۔ خودفریبی کی اِنتہا ہے کہ جب تاجروں کو تجاوزات کا باعث سازوسامان بھی واپس کر دیا گیا ہے تو اِس بات کا امکان ہی کیا رہ گیا ہے کہ اُن کا ضمیر جاگ اُٹھے گا اُور وہ اپنی مدد آپ کے تحت تجاوزات ختم کر دیں گے جبکہ واپس کیا گیا سازوسامان اپنے گھروں کے ڈرائینگ رومز میں سجائیں گے یا ایبٹ آباد میں ’تجاوزات کا عجائب گھر‘ بنا کر اُس میں نمائش کے لئے رکھا جائے گا؟

درد اُور دردمندی کا فقدان ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایبٹ آباد کے ضلعی فیصلہ سازوں کو تجاوزات سے پیدا ہونے والے مسائل کی گہرائی‘ شدت اُور اِس کے جملہ پہلوؤں کے بارے میں خاطرخواہ آگاہی بھی نہیں‘ جس کی ایک وجہ فیصلہ سازوں اُور عوام کے معمولات ِزندگی اُور طرز ِزندگی میں پایا جانے والا زمین آسمان کا فرق ہے! ہر سطح پر فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اِن تجاوزات کی وجہ سے عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مشکلات اُور ذلت کا مشاہدہ اُور محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ کس طرح تجاوزات کے باعث مرکزی بازاروں میں پیدل آمدورفت آسان نہیں رہی! تجاوزات باعث ِآزار ہیں‘ اِن کی وجہ سے زیادہ مشکلات خواتین‘ بزرگوں اُور طالب علموں کو رہتی ہیں‘ جن کے لئے سڑک کے وسط میں بھیڑ سے بچتے بچاتے گزرنا ممکن نہیں ہوتا اُور اِس بارے میں بارہا (بار بار) شکایات کے باوجود بھی (تجاوزات کی صورت پھیلی) لاقانونیت کے خلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کی جاتی‘ آخر یہ طرزِحکمرانی کہ جس نے مصلحت کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے کب تبدیل ہو گی؟ نیا دن کب طلوع ہوگا؟ تبدیلی کب آئے گی؟ ”نیا چار دن بھی پُرانا ہوا …. یہی سب ہوا تو نیا کیا ہوا (عبید حارث)۔“

ایبٹ آباد میں تجاوزات کے خلاف کاروائی یہاں آنے والے ’بدترین سیلاب‘ کے بعد شروع ہوئی جو 11 جولائی 2021ءکی شب ہوئی بارش کا نتیجہ تھا اُور خاص بات یہ تھی کہ اِس مرتبہ شہر کے صرف نشیبی ہی نہیں بلکہ بالائی علاقے بھی طغیانی کی زد میں آئے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ برساتی نالوں پر تجاوزات قائم ہیں‘ جس کی وجہ سے بارش کا پانی بہنے (flash) کی بجائے ایبٹ آباد کے گلی کوچوں میں گھر گھر سے ٹکراتا رہا اُور یہ سلسلہ کم سے کم دو دن تک اُن علاقوں میں بھی جاری رہا‘ جن کا شمار ایبٹ آباد کے مہنگے ترین (posh) حصوں میں ہوتا ہے جبکہ وہاں کے رہنے والے سیاسی طور پر اثر و رسوخ بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مذکورہ بارش اُور طوفان کی گونج قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سنی گئی اُور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے بھی بیان جاری ہوا حالانکہ اِس سے کئی گنا زیادہ بڑی اُور قدرتی آفات یا حادثے رونما ہونا ہزارہ ڈویژن میں موسموں کی تبدیلیوں کے ساتھ رونما ہونے والے معمولات کا حصہ ہوتی ہیں اُور یہاں کے رہنے والے ایسی سختیوں کے عادی ہو چکے ہیں لیکن یہ بات ہر کس و ناکس کے لئے ناقابل قبول تھی کہ بارش کا پانی کسی بلند مقام (ایبٹ آباد شہر) میں یوں دندناتا پھرے گا اُور سب بے بسی سے اُس کا تماشا دیکھیں گے۔ قانون ساز اسمبلیوں میں ایبٹ آباد کی تجاوزات سے متعلق گونج اُور اخباری بیانات سن کر یقین ہو چلا تھا کہ تجاوزات کے خلاف اب فیصلہ کن کاروائی ہوگی لیکن وہ ”وعدہ ہی کیا جو پورا ہو!“ ماہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں برساتی نالوں سے تجاوزات ختم کرنے کا سلسلہ ہلکی اُور بھاری مشینری کے علاو¿ہ خصوصی طور پر مدعو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی میں شروع ہوا‘ تصاویر اُور ویڈیوز بنائی گئیں تاکہ پشاور اُور اسلام آباد میں تشریف فرما فیصلہ سازوں کو یقین (اطمینان) دلایا جا سکے تاہم جس سیاسی دباؤ پر یہ مہم شروع کی گئی تھی اُسی کی مداخلت سے روک دی گئی اُور چند ایک مقامات پر نالوں کی گہرائی میں اضافے اُور نالوں میں پھینکے گئے کوڑا کرکٹ یا تعمیراتی ملبے کی صفائی سے زیادہ کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر ایبٹ آباد شہر سے گزرنے والے صرف 3 برساتی نالوں (جب پل‘ کالا پل‘ پائن ویو روڈ نالہ) کو آغاز سے اختتام تک تجاوزات سے پاک کر دیا جاتا تو آج صورتحال قطعی مختلف یعنی بہتر ہوتی اُور اِس سے ایبٹ آباد میں ٹریفک کے مسائل بھی کمی آتی کیونکہ برساتی نالوں کے ساتھ ذیلی شاہراہوں کو ہلکی ٹریفک کے لئے ترقی دینے سے مرکزی ’شاہراہ قراقرم‘ پر ٹریفک کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ 170 کلومیٹر دور پشاور میں بیٹھے ایبٹ آباد سے متعلق فیصلہ سازی کرنے والے اگر متوجہ ہوں تو برساتی نالوں پر تجاوزات کا مکمل خاتمہ ممکن ہے لیکن اِس کے لئے پہلے سے زیادہ ”پختہ ارادے“ کی ضرورت ہے‘ ایک ایسا ارادہ جس میں دباوجھیلنے (برداشت) کی صلاحیت ہو اُور جو اِس قدر عالی ظرف ہو کہ اِس میں ایبٹ آباد کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے۔

ایبٹ آباد میں تجاوزات کے خلاف جاری مہم کی معطلی (عملاً روکنے) میں تاجروں کے حوصلے بلند جبکہ ضلعی انتظامیہ اُور اہلکاروں کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ تاجر اپنی اِس کوشش میں کامیاب رہے کہ اِنہوں نے ضلعی انتظامیہ کے خلاف ’منظم محاذ آرائی‘ کے لئے سوشل میڈیا اُور ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا۔ ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اُور اسسٹنٹ کمشنرز) ناکام رہے کیونکہ اِن کا موقف درست ہونے کے باوجود بھی یہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ہرگز توقع نہیں تھی کہ ضلعی انتظامیہ یوں تجاوزات قائم کرنے والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے گی۔ تاجروں کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی کردار کشی کے علاؤہ اُنہیں تبادلہ کروانے کی دھمکیاں دی گئیں اُور یہ سبھی باتیں ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں۔ اصولاً ایبٹ آباد شہر سے منتخب ہونے والے اَراکین قومی و صوبائی اِسمبلیوں کو ’عوام کے ساتھ‘ کھڑا ہوتے ہوئے شہر کے اِجتماعی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔ اِیبٹ آباد ہزارہ ڈویژن اُور شمالی علاقہ جات کے سیاحتی مقامات کا ’گیٹ وے‘ بھی ہے یہاں کے بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار کے خلاف پہلے سے زیادہ مصمم اِرادے اُور زیادہ سخت گیر کاروائی ہونی چاہئے اُور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ’اِنسداد ِتجاوزات مہم‘ کسی بھی وجہ سے شروع کر ہی دی گئی تھی تو اِسے معطل کرنے کی بجائے بہرصورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا ضروری تھا جو موقع گنوا دیا گیا ہے وہ سنہرا تھا جس کے بعد عارضی و مستقل تجاوزات پہلے سے زیادہ پھیلنے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ”کر گئی دیوانگی ہم کو بَری ہر جرم سے …. چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی (جلیل مانک پوری)۔“

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: