مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھلے لوگ شراب پی کر گاڑی نہیں چلاتے||مبشرعلی زیدی

اتنا کہہ کر ڈاکٹر صاحب خاموش ہوگئے اور اپنی کتاب کا وہ صفحہ غور سے دیکھنے لگے جس پر انھوں نے علامہ کا نام لکھ کر دستخط کیے تھے۔ میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوا کہ علامہ صاحب کے بارے میں بدگمانی کی۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا شراب پینے والوں کو سلامت رکھے، ان کی وجہ سے اوبر ڈرائیوروں کا بھلا ہوجاتا ہے۔
بھلا یوں ہوتا ہے کہ بھلے لوگ شراب پی کر گاڑی نہیں چلاتے۔ چنانچہ ویک اینڈ کی رات کلب جائیں یا پب، یا کسی دوست کے گھر پر پارٹی ہو تو اوبر سے آتے جاتے ہیں۔
دوسرے بڑے شہروں کی طرح واشنگٹن میں بھی پارکنگ بڑا مسئلہ ہے۔ کھانے کے لیے ریسٹورنٹ جانا ہو یا دل بہلانے کے لیے کلب، اوبر ہی بلائی جاتی ہے۔
شرابیں ہزاروں طرح کی ہوتی ہیں۔ ہر شراب ہر ایک کو ہضم نہیں ہوتی۔ لوگ دوستوں کی محفل میں نئی شرابیں چکھتے رہتے ہیں۔ ان کا الٹا نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ یہ الٹا نتیجہ الٹی کی صورت میں نکلتا ہے۔
مجھے یہ بات یوں معلوم ہے کہ جمعہ اور ہفتے کی رات کوئی نہ کوئی سواری بھیں۔۔ایں۔۔ ایں۔۔ کر بیٹھتی ہے۔
میں کلب یا شراب خانے سے نکلنے والی سواری سے پوچھ لیتا ہوں، طبیعت ٹھیک ہے؟ بیگ تو نہیں چاہیے۔ پانی دوں؟
سواری سمجھ دار ہو تو طبیعت بگڑتے ہی گاڑی رکوالیتی ہے۔ سڑک کنارے بیٹھ کر معدہ صاف کرلیتی ہے۔
لیکن ایسا بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ گاڑی کے اندر بھرررر کردیا۔
لڑکے کبھی ایسا نہیں کرتے۔ ہمیشہ میری گاڑی لڑکیوں نے خراب کی ہے۔
گاڑی خراب ہونے کا مطلب، اس دن مزید سواریاں نہیں اٹھائی جاسکتیں۔ اگلی صبح گاڑی کی سروس بھی کروانی پڑتی ہے۔ اس لیے اوبر کی پالیسی سخت ہے۔ گاڑی میں قے کرنے والے کو ڈیڑھ سو ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ادھر ڈرائیور نے شکایت کی، ادھر پیسے اکاؤنٹ میں پہنچ گئے۔
بیشتر کلب ڈانس کرنے اور جی بہلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کے ذہن میں جس قسم کے نائٹ کلب کا خیال آتا ہے، انھیں اڈلٹ کلب کہا جاتا ہے۔ وہ کم ہیں۔ لوگ ادھر بھی جاتے ہیں۔ لیکن وہاں جانے کی شرائط سخت ہیں۔ ہوش میں رہنا سب سے اہم شرط ہے، ورنہ باؤنسر یعنی کلب کے پہلوان ملازم اٹھا کر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔
پاکستان میں ذہنی پستی کا یہ عالم ہے کہ گھر سے نکلنے والی لڑکی کو بریانی کی پلیٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ رات کو تنہا نکلنا تو ہرگز مناسب نہیں۔ اور لڑکی کیا، کوئی بھی شخص سڑک پر کھڑے ہوکر مہنگے فون پر بات نہیں کرسکتا کیونکہ چھینے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
یہاں آدھی رات کو مختصر لباس والی لڑکی نئے ماڈل کے آئی فون پر بات کرتی نظر آتی ہے تو کوئی آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھتا۔
کچھ لوگ اسے بھوکے اور پیٹ بھرے معاشرے کا فرق کہتے ہیں۔ میں اسے تربیت کا فرق سمجھتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: