اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کا ماضی کی طرف سفر||رسول بخش رئیس

ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریکِ انصاف بھی سیاسی خوف کا شکار ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں مسلم لیگ نون جیت گئی یا دوسرے لفظوں میں اس کا پلڑا بھاری رہا تو اس کے اثرات دو سال بعد ہونے والے قومی انتخابات پر بھی پڑیں گے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سی فرد‘ خاندان اور سیاسی جماعت کے پاس اگر پنجاب میں اکثریت ہے تو اس کا زور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وفاق میں نہ صرف حکومت قائم ہوتی ہے بلکہ دیگر صوبوں تک بھی سیاسی اثر و رسوخ کا سایہ پھیل جاتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اگر ایک جماعت کے پاس صرف وفاق اور ایک دو چھوٹے صوبوں پر غلبہ تھا تو اس کا پنجاب پر قبضہ جمانے کو جی ترستا تھا۔ نہ جانے کیا کیا حربے استعمال کئے کہ وہاں شریفوں کا تختہ الٹا جائے۔ تحریکِ انصاف نے بھی روایتی سیاسی اکھاڑے کے دائو پیچ آزما کر پنجاب میں حکومت بنائی۔ اپنی اکثریت نہیں‘ انحصار گجرات کے چودھریوں‘ آزاد اراکین اور پُرانے کھلاڑیوں پہ ہے۔ گزشتہ انتخابات میں منتخب ہونے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین تقریباً نصف نصف تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ میں تقسیم ہیں یا یوں کہئے کہ پلڑا برابر ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ضمنی انتخابات ادھر ادھر ہوئے ہیں‘ کبھی تحریکِ انصاف تو کبھی نون لیگ جیتی۔ عموماً حکومتی جماعت کو انتظامی اور دیگر وسائل پر اختیارات کی وجہ سے سبقت ملتی رہی ہے۔ جوڑ توڑ‘ سیاسی رشوتیں‘ سہانے خواب اور آئندہ کچھ دینے کے وعدے اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر حکومتی پارٹی وہیں کھڑی نظر آئے‘ جہاں تب تھی جب انتخابات ہوئے تھے یا اس سے بھی پہلے عوامی مقبولیت کا گراف نیچے کی طرف مائل ہو تو سمجھیں گڑ بڑ کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی راز کی باتیں نہیں‘ نہ ہی اس کے لئے آپ کو ماہرِ سیاسیات ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ روزمرہ سیاسی زندگی کے عام معاملات ہیں‘ جنہیں آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ اگلی بات کہنے کے لیے یہ جملے تمہیداً لکھ دیئے ہیں۔
ہمارے سیاسی حکمرانوں کے بھی عجیب تضادات ہیں۔ صبح شام جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں‘ مگر اقتدار میں آ جائیں تو جمہوری اقدار‘ روایات اور اس کے ارتقائی تقاضے یکسر فراموش کر دیئے جاتے ہیں۔ کسی کو یاد ہے کہ کون سی جمہوری حکومت ہماری تاریخ میں رہی‘ جس نے مقامی حکومتوں کے انتخابات خوش دلی سے‘ وقت پر اور باقاعدگی سے کرائے ہوں؟ اگر ایک دو مرتبہ ہوئے بھی ہیں تو فقط عدالت عظمیٰ کے حکم اور اصرار پر۔ میری نظر میں اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ صوبائی اسمبلیوں‘ پارلیمان کی رکنیت اور بالا سیاست میں خوش رہتا ہے۔ اس طبقے نے طاقت کو وہاں مرکوز کر رکھا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے بہت سے اختیارات اور مالی وسائل وفاق سے صوبوں کی طرف منتقل کر دیئے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غالباً بے جا نہ گا کہ وفاق مالی لحاظ سے نسبتاً کمزور اور صوبے زیادہ مال دار ہیں۔ اس ترمیم کے نتیجے میں چار نئے اختیاراتی مراکز کا اضافہ ہوا۔ پہلے صرف اسلام آباد تھا۔ اب کھربوں روپوں‘ آمدن‘ اخراجات‘ بیرونی قرضوں کے معاملات صوبائی حکومتیں طے کر رہی ہیں۔ سب کو حصہ برابر نہیں تو بہت کچھ مل رہا ہے‘ سب خوش و خرم‘ آسودہ سیاسی کاروبار کر رہے ہیں۔ بڑے وڈیروں کا راج ہو تو وہ ضلع کی سطح پر یا اس سے بھی نیچے تحصیل اور یونین کونسل کو وسائل اور اختیارات کیوں منتقل کریں گے؟ اصل معاملہ ”ترقیاتی‘‘ کاموں اور فنڈز کا حصول ہے‘ جو اراکینِ اسمبلی نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔ اگر انتخابی سیاست نظریاتی نہ ہو‘ اور سیاسی جماعتوں کی زمینی مقبولیت گہری نہ ہو تو انحصار وڈیروں پہ ہو گا‘ جنہیں انگریزی زبان میں آپ الیکٹ ایبلز کہتے ہیں۔ ہمارے پارلیمانی نظام کی ضرورت ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو ایوان میں اکثریت حاصل ہو۔ ماضی کی سب حکومتوں کا انحصار وڈیروں پہ رہا ہے‘ اس لیے ان کے ہاتھوں وہ یرغمال بن جاتی رہیں۔ وہ کہتے ہیں‘ ووٹ ہمارے‘ عوام ہمارے ساتھ‘ تھانہ کچہری کی خواری ہم بھگتائیں اور حکومت کے وسائل اور اختیارات صرف آپ استعمال کریں‘ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ سیاسی وفاداریوں کی ایک قیمت ہوتی ہے‘ جو ادا کرنا پڑتی ہے‘ اور یہ وفاداریاں پکی اس لیے نہیں ہو پاتیں کہ حکمرانوں کے مقدر ”مشرقی یا مغربی ہوائوں‘‘ کی وجہ سے بدل جائیں تو ہوا کے رخ کے ساتھ وہ بھی بدل جاتے ہیں۔ شہری اور مقامی حکومتیں انہیں وارہ نہیں کھاتیں۔ تبدیلی سرکار نے بھی وہی کیا جو ان کے پیشروئوں نے کیا تھا۔
دوسری بات سیاسی ساکھ اور بھرم کی ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریکِ انصاف بھی سیاسی خوف کا شکار ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں مسلم لیگ نون جیت گئی یا دوسرے لفظوں میں اس کا پلڑا بھاری رہا تو اس کے اثرات دو سال بعد ہونے والے قومی انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ اگر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائیں گے بھی تو زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے اور سیاسی زمین کو مزید ہموار کرنے کے بعد با دلِ نخواستہ۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جب تحریکِ انصاف نے اقتدار سنبھالا تو پنجاب میں مقامی حکومتیں قائم تھیں‘ اگلے ہی سال ایک قانون اسمبلی میں لا کر انہیں تحلیل کر دیا گیا۔ ہر ضلع میں انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں نے ایسی لوٹ مچائی کہ دو ماہ میں مقامی حکومتوں کے منجمد فنڈز ”ترقی‘‘ میں اُڑا دیئے۔ میرے آبائی ضلع راجن پور میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اور صحتِ عامہ کے شعبے کے سربراہ نے کروڑوں سرکاری خزانے سے نکلوائے اور ایک ماہ میں سب ”ترقی‘‘ کر ڈالی۔ یہی کچھ پنجاب کے ہر ضلع میں ہوا۔ سوائے ان کے جن کے ضمیر زندہ تھے‘ سب کی چاندی ہوئی اور اس کے فیوض و برکات سیاسیوں سے لے کر پنجاب کے بڑے گھر تک بھی پہنچے۔
جو کچھ مشاہدے میں ہے اور جو کہانیاں واقفانِ حال بتا رہے ہیں ان کے مطابق پنجاب میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بد انتظامی اور رشوت ستانی کی انتہا ہو چکی ہے۔ انصاف اور قانون نہیں‘ پیسہ ہمیشہ کی طرح راستہ بنا رہا ہے۔ آج کل پنجاب جن کے ہاتھوں میں ہے‘ وہی خان صاحب کی کشتی ڈبوئیں گے۔ کپتان صاحب کیا بے خبر ہیں کہ پنجاب میں کیا ہو رہا ہے؟ ہر ہر غلط کام کا کھرا ایوانِ وزیر اعلیٰ کی طرف جاتا ہے۔ کروڑوں‘ اربوں کی خورد برد کرنے کے جن پر الزامات ہیں‘ انہیں اہم ذمہ داریاں دی گئیں۔ یہ کیسی وفاقی حکومت ہے اور عمران خان صاحبکیسے وزیر اعظم ہیں کہ ”سب ٹھیک ہو رہا ہے‘‘ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ شاید اگلے انتخابات میں ذاتی پاکیزگی کے دعوے نہ کام آ سکیں۔ اگر ان کے نامزد کردہ‘ اور لگائے گئے وزیر اعلیٰ اور بہت سے وزرا وہی سب کچھ کر رہے ہیں‘ جو ماضی کی سیاسی جماعتیں کرتی رہی ہیں‘ تو ذمہ داری عوام کی نظروں میں انہی کی ہو گی۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کل ہو جائیں تو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے زیادہ کامیاب امیدوار ”آزاد‘‘ امیدوار ہوں گے۔
چھائونیوں کے شہریوں نے پنجاب میں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو تقریباً برابر برابر ووٹ دیئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعت کی یہ کارکردگی سب سے بڑے صوبے میں خان صاحب کے لیے آگے چل کر مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری کا رونا اپنی جگہ‘ اور کافی مسائل مانتے ہیں کہ پہلے سے چلے آ رہے ہیں مگر جو توقعات تھیں کہ کرپشن کا خاتمہ ہو گا‘ حکومتی کارکردگی بہتر ہو گی‘ ترقی کی رفتار بڑھے گی اور عمران خان صاحب مشکل فیصلے کر سکیں گے‘ ایسا نظر نہیں آ رہا۔ پڑھا لکھا نوجوان طبقہ انہیں ایوانِ اقتدار تک لے آیا ہے‘ اور ظاہر ہے عوام کی اکثریت بھی‘ لیکن وہ سب آہستہ آہستہ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ آج تک کسی معتبر کالم نگار یا مبصر کو بزدار حکومت‘ پنجاب کے وزرا کی فوج یا اس کی نوکر شاہی‘ جس کے سربراہ بار بار تبدیل ہو رہے ہیں‘ کے بارے میں کوئی مثبت بات لکھتے یا بولتے نہ پڑھا اور نہ سنا۔ سنا ہے کہ خان صاحب ضد کے پکے ہیں‘ مگر سیاست اور حکومت میں عملیت پسندی‘ معاملات پر گہری نظر اور کارکردگی کام آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: