اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول، وسیب اور الیکٹیبلز||مظہراقبال کھوکھر

بلاول کے اس دورے کے دوران لیہ سٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے چوہدری اشفاق احمد نے بھی پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا جبکہ اس سے قبل مختلف شہروں میں غیر معروف سیاسی لوگوں نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ ہفتے وسیب کے مختلف شہر جئے بھٹو کے نعروں سے گونجتے رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے جنوبی پنجاب کے سات روزہ دورے کے دوران ملتان، ڈیرہ غازیخان، لودھراں، کہروڑ پکا، میلسی سمیت مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں جلسوں ریلیوں سے خطاب کیا اس دوران صحافیوں، دانشوروں سمیت مختلف سیاسی سماجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ بلاول کے وسیب کے دورے کا آخری جلسہ ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن میں تھا اس سے قبل ملتان سے براستہ ہیڈ محمد والا لیہ آتے ہوئے پٹھان ہوٹل، چوک سرور شہید، دھوری اڈہ، چوک اعظم اور فتح پور میں بلاول بھٹو کا شاندار استقبال کیا گیا جہاں مختلف مقامات پر بلاول نے استقبال کے لیے آنے والے جیالوں سے مختصر خطابات کیے ۔

کروڑ میں اس جلسے کا انعقاد معروف سیاسی سیہڑ خاندان کی طرف کیا گیا تھا جہاں سابق ایم این اے سردار بہادر خان سیہڑ نے باقاعدہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ سیہڑ خاندان کا پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے اسی خاندان کے بہرام خان سیہڑ کو محترمہ بینظیر بھٹو نے بینکنگ کورٹ کا جج مقرر کیا تھا جبکہ ان کے بھائی جہانگیر خان سیہڑ کو دو مرتبہ ایم این اے کا ٹکٹ دیا گیا۔ جبکہ یہ خاندان مشرف دور میں مشرف با اقتدار ہونے کے لیے ق لیگ کو پیارا ہو گیا تھا جبکہ 2013 کے انتخابات میں سردار شہاب الدین خان سیہڑ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور پانچ سال پنجاب میں صوبائی پارلیمانی لیڈر رہے تاہم 2018 کے انتخابات سے قبل ہواؤں رخ دیکھ کر پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہو گئے اب ایک بار پھر ان کا رجحان پیپلز پارٹی کی طرف ہو گیا۔

بلاول کے اس دورے کے دوران لیہ سٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے چوہدری اشفاق احمد نے بھی پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا جبکہ اس سے قبل مختلف شہروں میں غیر معروف سیاسی لوگوں نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ایسی صورتحال میں کیا بلاول بھٹو کا جنوبی پنجاب کا دورہ کامیاب رہا یا ناکام اور کیا دورے کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے یا نہیں؟

مگر اس سے بڑھ کر میرے لیے حیران کن پہلو یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالے چند الیکٹیبلز کی شمولیت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ گو کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بد قسمتی سے وطن عزیز کی سیاست الیکٹیبلز کے گرد گھومتی ہے اور الیکٹیبلز خاص اشاروں پر گھومتے ہیں۔ جنرل مشرف نے سپریم کورٹ سے ملنے والے تین سال کے بعد قومی انتخابات کا اعلان کیا تو راتوں رات جنم لینے والی مسلم لیگ ق کچھ ایسی مقبول ہوئی کہ اس کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا اور الیکٹیبلز اڑانیں بھر بھر کا ق لیگ میں شامل ہونے لگے اور جو کمی رہ گئی تھی وہ الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنا کر پوری کر لی گئی جس میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے 12 سے 15 ایم این ایز نے اپنی جماعت سے بغاوت کرتے ہوئے مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ ق کی حمایت کی۔

کچھ ایسی ہی صورتحال 2013 سے 2018 کے دوران پی ٹی آئی کی تھی ملک بھر سے تمام بڑی جماعتوں سے الیکٹیبلز تھوک کے حساب سے تحریک انصاف میں شامل ہوتے رہے جبکہ وسیب کے روایتی الیکٹیبلز بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے صوبہ محاذ کے نام سے گروپ بنا پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کر دی اور بعد ازاں باقاعدہ تحریک انصاف میں انضمام کر لیا۔ گو کہ کسی بھی جماعت کو چھوڑنا یا کسی بھی جماعت میں شامل ہونا ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے مگر مفادات کی خاطر پارٹیاں بدلنے اور اپنے ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے کسی بھی طور قابل اعتماد نہیں ہوسکتے۔

ایسی صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کی خوشی دیکھ کر حیرت تو بنتی ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی مدمقابل سیاسی جماعتوں کی نسبت ایک نظریاتی جماعت ہے جس کا ووٹر آج بھی بھٹو کے نام پر ووٹ دیتا ہے یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جو بڑے بڑے جاگیر دروں کے مقابلے میں کبھی مولا داد خان اور عبد الرحمان مانی جیسے مڈل کلاس اور سفید پوش لوگوں کو ٹکٹ دے کر نظریات کا بھرم رکھا کرتی تھی۔ اور پھر پیٹریاٹ، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف ہر جماعت میں جانے والے الیکٹیبلز پی پی پی کی کوکھ سے جنم لیتے تھے اور آج پی پی کے نظریاتی جیالے مفاد پرست الیکٹیبلز کی شمولیت پر سنبھالے نہیں سنبھل رہے نہیں معلوم نظریات دفن ہو گئے ہیں یا پھر مصلحت آڑے آ گئی ہے۔

بلاول کا دورہ اس حوالے سے تو خوش آئند ہے کہ انھوں نے جنوبی پنجاب کا دورہ کر کے پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر فعال کر دیا اور وسیب کے جیالوں میں ایک نئی روح پھونک دی لیکن اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اس دورے کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہے کہ وہ کوئی معرکہ مار لیں گے تو کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا جس کا اندازہ ضمنی انتخابات کے بعد حالیہ دنوں میں ہونے والے کنٹونمنٹ انتخابات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب سے ایک سیٹ بھی نہیں لے سکے اس کے باوجود اگر جنوبی کی قیادت یہ یقین دہانی کرا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کایا پلٹ دیں گے تو یہ سب سے بڑا دھوکہ ہو گا کیونکہ مقامی قیادت نے پارٹی کو ڈرائینگ رومز تک محدود کر دیا ہے جس کی وجہ سے قیادت اور کارکنوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کروڑ میں مقامی تنظیم کے بعض عہدیدار اور کارکن اندر جانے سے محروم رہے۔

جہاں تک وسیب کا تعلق ہے اس خطے نے ہمیشہ پیپلز پارٹی سے محبت کی ہے پی پی پی نے ہمیشہ سندھ کے بعد سب سے زیادہ سیٹیں جنوبی پنجاب سے حاصل کیں یہی وجہ ہے محترمہ بینظیر بھٹو سرائیکی وسیب کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتی تھیں مگر آج حالت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی یہاں سے الیکٹیبلز کی تلاش میں سرگرداں ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ماضی میں سرائیکی صوبے اور اس علاقے کے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرتی تو آج اسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے یہ سبق موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی کہ سورج جب غروب ہوتا ہے تو سب سے پہلے سایہ ساتھ چھوڑتا ہے اور اقتدار کا سورج غروب ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ ساتھ چھوڑتے ہیں جو سائے کی طرح ساتھ ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: