اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول بھٹو! زمینی حقائق کا سچ بہت کڑوا ہے||حیدر جاوید سید

اس سوال کا ایک جواب وہ ہے جو گزشتہ 33برسوں سے محترمہ بینظیر بھٹو سے منسوب کرکے اہل صحافت و دانش اور سیاست پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو تین دن قبل جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ملتان میں اخبارات کے ایڈیٹرز، کالم نگاروں اور اہل دانش کے ساتھ مکالمے کی نشست سجائی تو ان سے سوال ہوا۔
انتخابی نظام کو الیکٹیبلز دینے والی پاکستان پیپلزپارٹی اج خود الیکٹیبلز کی تلاش میں کیوں ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری سیاست کا مقصد نظریاتی امیدواروں کو میدان میں اتارنا ہے یہ نظریاتی امیدوار انتخابی عمل میں الیکٹیبلز ثابت ہوں گے تاہم وہ پرانے دوست اور ساتھی جو مختلف حالات میں کسی وجہ سے پارٹی سے الگ ہوگئے واپس آنا چاہیں تو پیپلزپارٹی کے دروازے کھلے ہیں البتہ انہیں پارٹی کے فیصلوں کا احترام کرنا ہوگا‘‘
میری دانست میں بلاول بھٹو کے اس جواب پر جو بظاہر خوش آئند اور امید بھرا ہے تفصیلی مکالمے کی ضرورت ہے۔
1980ء کی دہائی کے وسط میں منعقد ہونے والے غیرجماعتی انتخابات نے سیاسی عمل کو چار عدد مارشل لاوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچایاہے ، سیاسی نظریات کی بنیاد پر منعقد ہونے والے 1977ء کے انتخابات تک سیاسی کارکنوں کی اہمیت تھی یہی سیاسی کارکن تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ ہزارو سیاسی کارکنوں کو ایک سال سے تین سال تک یا عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ خصوصی فوجی عدالتوں کے حکم پر لاتعداد سیاسی کارکنوں صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں کو کوڑے مارے گئے۔
درجنوں کو سزائے موت سنائی گئی، کچھ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، کچھ کی قسمت اچھی تھی وہ اپنی اپیلوں کی وجہ سے پھانسی سے بچے پھر 1988ء میں ہوئے طیارہ حادثہ کے باعث جنرل ضیاء کا گیارہ سالہ دور اقتدار تمام ہواتو کچھ عرصہ بعد انہیں رہائی ملی
اس انتخابی عمل کے نتیجے میں پیپلزپارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ پیپلزپارٹی کو واضح اکثریت لینے سے کس نے کیسے روکا یہ الگ داستان ہے۔ پی پی پی جیت تو گئی لیکن اس وقت کے قائم مقام صدر غلام اسحاق خان ، جنرل حمید گل اور کچھ دیگر ذمہ داران ریاست کی ترجیح یہ رہی کہ کسی طرح بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بننے سے روکا جائے۔
بہت ساری کوششیں ہوئیں یہاں تک جنرل حمید گل چل کر ایم کیو ایم کے نائن زیرو اور ولی باغ میں خان عبدالولی خان کے پاس گئے لیکن بات بن نہ پائی لیکن اس دباو کے نتیجے میں ریاست پیپلزپارٹی سے انتقال اقتدار کے لئے اپنی شرائط منوانے میں کامیاب رہی۔
پیپلزپارٹی نے غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کروانے کے ساتھ جنرل ر صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ اور وی اے جعفری کو مشیر خزانہ کے طور پر قبول کرنے کے ساتھ آٹھویں ترمیم کو نہ چھیڑنے کی یقین دہانی کروادی جس کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر قائم مقام صدر کی دعوت پر حکومت تشکیل دی اور محترمہ بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بن گئیں۔
پیپلزپارٹی نے حکومت سازی کے لئے شرائط کیوں قبول کیں؟
اس سوال کا ایک جواب وہ ہے جو گزشتہ 33برسوں سے محترمہ بینظیر بھٹو سے منسوب کرکے اہل صحافت و دانش اور سیاست پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ
’’میرے کارکن لمبی جدوجہد کی بدولت تھک چکے ہیں اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ جیسا بھی اقتدار ملتا ہے لے لیا جائے‘‘۔
اس سوال کا ایک اور جواب اس وقت کے معروضی حالات میں پوشیدہ ہے۔
معروضی حالات کیا تھے یہی کہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پہلے تو 90دن میں انتخابات کرواکے واپس بیرکوں میں جانے کا اعلان کیا بعد ازاں پہلے احتساب پھر انتخابات کی پھکی ’’سیون اپ‘‘ سے پھانک لی۔ اگلے مرحلہ پر انہوں نے قومی اتحاد کی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کی دعوت دی جو قبول و مقبول ہوئی یاد رہے این ڈی پی اور علامہ شاہ احمد نورانی کی جے یو پی حکومت میں شامل نہیں ہوئی تھیں، خاکسار تحریک کو اس قابل نہیں سمجھا گیا حالانکہ اشرف خان نے بھی سیاہ شیروانی سلوالی تھی۔
قومی اتحاد کی جماعتوں نے وزارتیں لے کر جمہوری سیاست سے دوسری بار غداری کی اور پھر اپنے کارکنوں کو فیض پہنچانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کوئی موقع نہ چھوڑا۔ اگلے مرحلہ پر غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات ہوئے۔
حکومت کی بدقسمتی یہ رہی کہ ان انتخابات میں پی پی پی کے ہم خیال عوام دوست کے لاحقے والے امیدوار بھاری تعداد میں جیت گئے اب جوڑتوڑ، ترغیب و دھونس جو جیسے قابو آیا ویسے قابو کیا گیا اور بے اثر بلدیاتی نظام معرض وجود میں آگیا۔ مختصراً یہ کہ مارشل لاء، پی این اے کی جماعتوں کا مفادات کے لئے فوجی حکومت میں شامل ہونا، غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات، صدارتی ریفرنڈم اور پھر غیرجماعتی انتخابات، ان سب کی وجہ سے ایک ایسی فضا بنی جس میں سیاسی کارکنوں کی جگہ بروکرز، ذات پات اور عقیدوں و برادری ازم کے نام پر ووٹ لینے والوں کی موجیں لگ گئیں۔ سیاسی کارکنوں کی جگہ نالی موری کے ٹھیکیدار آگئے۔
1985ء کے غیرجماعتی انتخابات نے سیاسی عمل میں برادریوں اور پیسے کی طاقت کو رواج دیا اب سیاسی کارکنوں کی وہی کھیپ باقی تھی جس نے مارشل لاء کے جبرو ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ 1988ء کے انتخابات میں ان الیکٹیبلز کی اہمیت دوچند ہوگئی جو پچھلے دس سال کے مارشل لائی نظام میں بلدیاتی اداروں، مجلس شوریٰ اور غیرجماعتی اسمبلیوں کے ذریعے سیاسی چہرے بن گئے تھے۔
الیکٹیبلز کی وجہ سے سیاسی کارکن کی ضرورت مزید کم ہوئی کیونکہ اس وقت 40یا 50لاکھ روپے لگاکر انتخابی اکھاڑے میں اترنے والا امیدوار انتخابی مہم کے لئے 500سو سے 700سو روپے روزانہ پر انتخابی مہم کے لئے لوگوں کی خدمات حاصل کرلیتا تھا۔ 1988ء سے 2018ء تک کے 8انتخابات میں الیکٹیبلز اور پیٹ (پیڈ) ورکروں کی اہمیت ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور سیاسی کارکنوں کا کلچر زوال پذیر ہوتا گیا۔
اب اگر بلاول بھٹو نظریاتی الیکٹبلز کی بات کرتے ہیں تو انہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نظریاتی کارکن وہ جتنے بھی جس جماعت کو دستیاب ہوں کیسے مہنگے ترین انتخابی عمل میں امیدوار بن سکتے ہیں؟
نظریاتی امیدوار انتخابی عمل کے اخراجات کہاں سے لائے گا۔ گزشتہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر 3سے 5کروڑ اور قومی اسمبلی کی نشست پر 6سے 9کروڑ روپے اخراجات آئے۔ نظریاتی کارکن جیسے تیسے کرکے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے فیس جمع کروالے گا، کاغذات نامزدگی کی فیس بھی کسی نہ کسی طریقے سے جمع ہوجائے گی لیکن بھاری بھرکم انتخابی اخراجات کہاں سے آئیں گے؟
ظاہر ہے کہ ان حالات میں اہمیت ان موسمی سیاسی مہاجروں یعنی الیکٹیبلز کی ہی مزید بڑھے گی جو انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھانے کا متحمل ہوسکتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نظریاتی الیکٹیبلز کی بات بظاہر بہت دلنشیں ہے مگر زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ نظریاتی الیکٹیبلز میدان میں اتارنے سے قبل پیپلزپارٹی یا کسی بھی جماعت کو پہلے سماج میں جمہوری رویے پروان چڑھانا ہوں گے۔ پارلیمان کے ذریعے انتخابی اصلاحات کروانا ہوں گی۔ بھاری بھرکم انتخابی اخراجات کی حوصلہ شکنی، قانون سازی اور جمہوری مزاحمت سے کرنا ہوگی۔
یہ سارے کام راتوں رات ممکن نہیں، 33برسوں کی محنت سے جمہوری سیاسی کلچر کی جگہ عجیب سی حُب الوطنی، جمہوریت دشمنی، سیاسی قلابازیوں اور جس انتخابی تجارت کو رواج دیا گیا ہے اسے رواج دینے اور منافع کھانے والے کیا مزاحمت نہیں کریں گے؟
بلاول بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
یہاں تو سیاسی جماعتیں ضلع اور شہر کی سطح پر صدر اور سیکرٹری کا عہدہ سفید پوش کارکن کو دینے پر تیار نہیں ہوتیں ایسے میں نظریاتی الیکٹیبلز کی باتیں خوش کن تو ہیں لیکن زمینی حقائق کا سچ بہت کڑوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: