اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ میں آنے وا لے عفریت کا قصہ||عباس سیال

اماں جی! فی الحال رمضان د امہینہ ھ، ہر کوئی مصروف ودے تے تیکوں مکیش ڈسایا ھ کہ اُتھاں بلاں آئی ودی ھ تے یکے دیرے وال آپ ڈرے ودن، پہلے بلاں پکڑی ونجے تاں وت کُجھ کریندے ہیں۔۔

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 1987-88کا ذکر ہے کہ جب ہمارے عہد کی نسل آٹھویں، نویں جماعتوں میں زیرِتعلیم تھی۔ اُن دنوں کمپیوٹر تو دور کی بات کیلکو لیٹر بھی طالبعلموں کی دسترس سے
یہ ستمبر2006ء کے موسم گرما کاذکر ہے جب ڈیرہ میں شوہر حضرات اپنی بیویوں سمیت مچھروں سے لڑتے جھگڑتے، دستی پنکھا ہاتھ میں لے کر جھلتے، واپڈا کو کوستے،اپنی بدقسمتی اور بد نصیبی کا رونا روتے نیند کی وادی میں اتر نے لگتے تو آدھی رات کے پچھلے پہر کوئی عفریت نما چھلاوا شہر کے کسی گلی کوچے سے نکل کر گھروں میں گھس جایاکرتا اور اہل خانہ کو خوف زدہ کیا کرتاتھا۔
اُس وقت کے ایک خبری کے مطابق:”یہ کوئی چڑیل ہے جس کے پاس شہر بھر کی اُن تمام (وات پاڑی) زبان دراز عورتوں کی ڈیٹا بیس موجود ہے جو اپنے شوہروں کو گاہے بگاہے بَچھاتی (لگائی بجھائی)اور سسرال والوں کو ستاتی رہتی ہیں“۔ ایک انجانے خوف کی وجہ سے عور تیں گرمی کی پروا کیے بغیر حبس زدہ کمروں میں سو نے لگیں جبکہ دن بھر کے تھکے ہارے مرد ہاتھوں میں ڈنڈہ لیے جاگ کر راتیں گزارنے لگے،مگراتنی سخت سیکیورٹی کے باوجود دہشت کی علامت بنی چھلاوا نما بلاں کو کہیں نہ کہیں تواتر سے دیکھا جانے لگا۔زیادہ تر یہ اندرون شہر مثلاً محلہ جوگیانوالہ کڑی علیزئی، چمن چوک اور چوک سیٹھ اشرف کے اردگرد نظر آنے لگی،بہت سی عورتوں اور بچوں نے اسے گھروں میں گھس کر عورتوں پر حملہ آور ہوتے بھی دیکھا۔چوک سیٹھ اشرف کی ایک متاثرہ خاتون نے صبح سویرے اٹھ کر محلے کی عورتوں کو کچھ اس قسم کا دلچسپ واقعہ سنایا:”میں رات کُوں سُتی پئی ہام کہ اَوتری نِبھئی بلاں میݙےسِراندُوں پاسے آ کھڑی تھئی،تے ول کُجھ دیر بعد میݙےچُونڈے پٹݨ لگ گئی،میݙےشور مچاون نال رمضان دا پیو سُجاگ تھی گِیا،تے اُوں بلاں کُوں ھَکلا،تاں نِبھئی بلاں میݙےسِرُوں لتھی تے دھروک مار کے کندھ تے چڑھ کے اغیب تھی گئی،میں ول کݙاں پِرا وِچ نہ سمساں“۔ اسی قسم کے دوسرے واقعے میں اندرون شہر کے ایک مظلو م شوہر نے کچھ اس طرح کا چشم دید واقعہ سنایا:”رات کو سوتے ہوئے تقریباً دو بجے کے قریب کسی کھٹکے سے اچانک میری آنکھ کھلی تودیکھا کہ کوئی سات آٹھ فٹ جسامت کی کالی سیاہ اور خوفناک چہر ے والی مخلوق میری بیوی کے پہلو میں کھڑی ہے، اس خوفناک چڑیل نے آناً فاناً میری بیوی کا گلا دبانا اور بال نوچنا شروع کر دیئے، مگر میری دھمکی کی آوازسنتے ہی وہ گھبرا کرپلک جھپکتے دیوار پھلانگ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی“۔اس قسم کے واقعات سن کر محلے کے مولوی حضرات نے فوراً فتویٰ ٹھوک دیا:”بھائیو بس قیامت آیا چاہتی ہے سو ہمیں اپنے اپنے گناہوں کی اجتماعی معافی مانگ لینی چاہیے“۔ بلا ں کے خوف سے شہر بھر کی مساجد بھر گئیں اور عورتیں دل و جان کی بجائے فقط اپنی جان کی سلامتی کے عوض اپنے شوہروں کی خدمت کرنے لگیں تاکہ وہ اُس چڑیل کی گُڈ بُک میں آ جائیں۔
ماہ ِرمضان کے آخری عشرے اور عید الفطر کی آمد سے چند روز پہلے بلاں نے یک طرفہ سیز فائرکا اعلان کر تے ہوئے شہر کی دیوارں پر خوفناک پیغام لکھا ”خوش نہ تھیوؤ،میں عید دے بعد ول آندی پئی ہاں“۔ بلاں کی وال چاکنگ اورالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی بھرپور کوریج نے اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا، مگر اسے بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کا سہر ہ ہماری ویب سائٹ”اپناڈیرہ ڈاٹ کام“ (Apnadera.com) کے سر جاتاہے۔ہماری ویب سائٹ پر عفریت کے حوالے سے ایک خصوصی ڈسکشن فورم ترتیب دیا گیا جہاں ویب سائٹ کے مقامی نمائندے وقتاً فوقتاً بلاں کے بارے میں بریکنگ نیوز دیتے رہتے اورموصول ہونے والی تازہ ترین خبروں کی روشنی میں ڈیرہ سے وصی شاہ، اقبال کروڑی، دوبئی سے عظمت خاکوانی،ابراہیم لاشاری، محمد رمضان، اسلام آباد اور آسٹریلیا سمیت دہلی سے ہمارے خصوصی سرائیکی دوست مکیش اسیجا ..سب اپنے ماہرانہ تبصرے جاری کرتے رہتے۔ کوئی اسے شعبدہ باز، کوئی جن بھوت،عفریت، کوئی سائنس فکشن،کوئی نظری سراب، کوئی ایجنسی کا کارندہ، کوئی مارشل آرٹ کا ماہر، سپرنگوں والی بلاں, کوئی ہتھوڑا گروپ کا دوسرا جنم تو کوئی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی شمار کرنے لگتا۔کچھ پڑھے لکھے ڈیرے والوں کے مطابق یہ کوئی جن،بھوت،چڑیل یا جادوگرنی نہیں بلکہ خفیہ کا کوئی تربیت یافتہ بندہ ہو سکتا ہے، بہرحال جتنے کمپیوٹرز اتنے کی بورڈ۔ شہر بھر کی عورتوں کے ساتھ بلاں کے نا زیبا اور غیر انسانی سلوک کے تناظر میں ہم سب ویب سائٹ کے ڈسکشن فورم میں پہلے دن ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عفریت جو کوئی بھی ہے کرتوتوں سے شادی شدہ ہے اور جنس کے لحاظ سے نر لگتاہے۔ستمبرکا پورامہینہ ویب سائٹ کی سب سے ہاٹ نیوز ”ڈیرہ میں نظر آنے والی بلا ں اور اس کی کارستانیاں“ چھائی رہی۔ جب پولیس اس عفریت نما چھلاوے کو پکڑنے میں ناکام ہو گئی تو عوام کا منہ بند رکھنے کے لیے انہوں نے ڈیرہ کے روڈ ماسٹر, جیمز بانڈ 007, اور ٹرمنیٹر تُھو اختر طوفان مرحوم عرف ”اختر دا گریٹ“ کو حوالات میں بند کر دیا۔ اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد میرا سڈنی سے ڈیرہ جانے کا اتفاق ہو اتو میں اختر طوفان سے خصوصی طور پر ملا، چونکہ وہ میرا ہائی سکول کے زمانے کا کلاس فیلو اور دوست رہا تھا،اسی لیے اس نے کھل کر سارا ماجرا من و عن سنا یا۔بقول اخترکے: ”میں سارے دن کی مٹر گشت اور روڈ ماسٹری کے بعد اپنی سائیکل اسٹینڈ پر کھڑی کیے،اپنا آفیشیل اور پروفیشنل ڈریس ”وِگ،عینک اور مونچھیں“ اتارے تھکا ہارا گھر کے صحن میں چارپائی پر لیٹے خراٹے لے رہا تھا کہ ان ظالم ݙاتریوں (پولیس)نے میرے گھر کی عقبی دیوار پھلانگ کر میرے اوپر میلی بدبودار چادر ڈال دی۔چادرسے نکلنے والی گوبر کی قدرتی کلوروفارم بو نے مجھے ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیا، پھر ان ظالموں نے مجھے ٹنگا ٹوری اٹھایا اور پولیس کی ڈاٹسن میں پٹخ دیا، پولیس نے مجھے اتنی مہلت بھی نہ دی کہ میں اپنی طوفانی اشیاء(وِگ،عینک،سائیکل)ساتھ لے جاتا۔ تھانے پہنچتے ہی سب سے پہلے ایک سپاہی کسی ٹیلر ماسٹر کی دوکان سے اٹھایا ہوا فیتہ ہاتھوں میں پکڑے میری قد کاٹھ،گردن اور دوسرے جسمانی اعضاء ماپنے لگا۔ میں دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا کہ شاید مجھے پولیس میں بھرتی کیا جا رہا ہے، لیکن میری خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب ایک سپاہی نے چہکتے ہوئے
تھانیدار کو بتایا: ”سر جی قد کاٹھ،حرکات وسکنات اور کرتوتوں کے حساب تو مجھے اختر ہی چھلاوا نما بلاں لگتی ہے“۔میں نے سنتری سے کہا: ”یارخدا کا خوف کر و، میری ماں رات نو بجے کے بعد مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتی، بھلا اتنی رات گئے میں کسی اور کے گھر کیسے گھسوں گا؟“۔میں نے تھانیدار سے التجائی انداز میں پوچھا: بادشاہو مجھے کس جرم میں پکڑا گیا ہے ؟ وہ الٹا مجھے گھورتے ہوئے بولا:”تم نے جو نظریاتی نعرے کی تختی ”مجھے لڑکیوں سے سخت نفرت ہے“ اپنی سائیکل پر لگا رکھی ہے وہی تمہیں تفتیش کے دائرے میں لے آتی ہے کیونکہ بلاں کو بھی عورتوں سے شدید چڑ ہے۔خیرپولیس نے تفتیش کے طور پر ہمارے دوست اختر کو شناخت پریڈ کے بہانے بہت ستایا، اسے پہلے دن حوالات میں بند رکھا اور دوسرے دن علی الصبح دریا کنارے بنی چاند ماڑی پر چڑھا کر نیچے چھلانگ لگانے کا حکم دیا گیا تاکہ اختر کے پھرتیلے پن کا اندازہ لگایا جا سکے۔اس غیر انسانی سلوک پر اختر طوفانی انداز میں کُرلاتے ہوئے بولا:جناب مجھ غریب پر رحم کریں،چھلانگ لگانے سے آ پ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگرٹانگ ٹوٹنے کی صورت میں میری واحد بے بی سائیکل یتیم ہو جائے گی باقی مجھ سے کوئی سی بھی قسم اٹھا لیں،میں بلاں نہیں ہوں۔ اختر نے اپنی ناک پر انگلی رکھتے ہوئے اپنے دونوں نتھنوں کو سختی سے بھینچا اور دریا میں گرنے والے گندے نالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”مجھے قسم ہے دریا میں گرنے والے اس گندے نالے کی اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ مجھے سیاست دان یا کسی قریبی پولیس چوکی کا تھانیدار بنا دے، جناب میرا اُس عفریت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں،بلکہ اُس ذلیل نے تو میری شہرت کو بھی داغدار کیا ہے۔اتنی بڑی قسم اٹھانے پر پولیس بھی سوچنے پر مجبور ہو گئی دوسرااختر کی گرفتاری کے دوران بھی بلا ں نے اپنی نا زیبا اور مذموم حرکات جاری رکھی تھیں تب کہیں جا کر پولیس کااختر پر شک ختم ہوااور اسے باعزت بری کر دیا گیا۔اس واقعے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد پولیس نے بڑے ڈرامائی انداز میں بلاں کو پکڑ لیا اور پھر اُسی دن ہماری ویب سائٹ”اپنا ڈیرہ ڈاٹ کام“ پر بریکنگ نیوز آگئی: ”بھراؤ! ترسلی رکھو، بلا ں پکڑی گئی ھِیوے“۔
بلاں کے پکڑے جانے پر عورتوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس موقع پر ایک مظلوم شوہرنے کچھ اس قسم کا بیان دیا:”میرے لیے تو بلاں رحمت کا فرشتہ تھی، ستمبرکا پورا مہینہ میری بیوی نے نہ صرف سیر و شکر ہو کر کاٹا بلکہ میری ماں کی بھی دل کھول کر خدمت کی مگر افسوس کہ بلاں کے پکڑے جانے کی خبر سنتے ہی میری بیوی کے رویے نے یکسر پلٹا کھایا اور کسی سیاستدان کی طرح یو ٹرن لیتے ہوئے اس نے حسب عادت ا پنے دیرینہ مطالبے ”میڈا الگ گھر، الگ چُلہا(چولہا)، الگ رِدھا پکا, الگ جیب خرچ ہتھ تے رکھ۔۔.نیئں تاں وت تلی تے طلاق“ کی رٹ پھرسے لگانا شروع کر دی ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق سے پتہ چلا کہ:”وہ کوئی عفریت(بلاں وَلاں)نہیں تھی بلکہ علاقہ غیر سے آئے درجن کے قریب آدمیوں کا ایک گروہ تھا، جن کامقصد خواتین کو ڈرانا دھمکا نا، شہر بھر میں خوف و ہراس پھیلانا اورخوف و دہشت زدہ ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیدھے سادے ڈیرے والوں کو تعویز گنڈوں کے بہانے لوٹنا تھا۔ ایجنسیوں نے اس سے زیادہ کچھ نہ بتایا اور ہمیشہ کی طرح یہ دلچسپ کیس بھی سرد خانے کی زینت بنا دیا گیا۔
نوٹ: مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں دہلی میں ہمارے دوست مکیش اسیجہ نے مجھے ایک کام سونپا تھا کہ اگر ہو سکے تو ڈیرہ میں ان کے آبائی گھر کی تصاویر کھینچ کر انہیں بھجوائی جائیں، اُن کے والدین دیکھنا چاہتے ہیں۔۔ یہ مائیکروسافٹ میسنجر کا زمانہ تھا، ان کی والدہ آن لائن ہوئیں اور بولیں: بچڑا! میڈے چھوٹے بزار آلے گھر دا کُجھ پتہ لایا ہیوی؟؟؟
اماں جی! فی الحال رمضان د امہینہ ھ، ہر کوئی مصروف ودے تے تیکوں مکیش ڈسایا ھ کہ اُتھاں بلاں آئی ودی ھ تے یکے دیرے وال آپ ڈرے ودن، پہلے بلاں پکڑی ونجے تاں وت کُجھ کریندے ہیں۔۔ اچھا بچڑا کوئی چنتا دی گال کونیں، میں بھگوان کول دعا منگساں جو بلاں جلدی پکڑی ونجے“۔آمین۔۔ ہا ہا۔۔
ماخوز:”گُلی کملی کے دیس میں“

٭٭٭٭٭٭

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: