اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسما عیل خان کو اینالاگ سے ڈیجیٹل عہد تک لے جانے والوں کی کہانیاں||عباس سیال

ورڈ، لوٹس، وینچُورا، کوبول، پاسکل، ڈاس سے شروع ہونے والی ٹیکنالوجی کا سفر اپنی دھن میں ترقی کے ارتقائی مراحل طے کرنے لگا تھا۔مونوکروم مانیٹر، ڈاٹ میٹرکس پرنٹر اورفلاپی ڈسکس کی جگہ کلر مانیٹر، ہارڈ ڈسک، لیزر پرنٹر نے لے لی تھی۔

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 1987-88کا ذکر ہے کہ جب ہمارے عہد کی نسل آٹھویں، نویں جماعتوں میں زیرِتعلیم تھی۔ اُن دنوں کمپیوٹر تو دور کی بات کیلکو لیٹر بھی طالبعلموں کی دسترس سے دور تھا۔ہم نے پہلا CASIO کیسؤ کیلکو لیٹر اپنے ہم جماعت ذاہد جمال ترین کے ہاتھوں میں دیکھا تھا جسے غالباً اس کا بڑا بھائی سعودیہ سے لایا تھا اور ہم سب دیہاتی کیلکولیٹر کو ”کالا سکوٹر“ بولتے تھے۔اس بات سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارا شہر ٹیکنالوجی کی دنیا میں پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کتنا پیچھے تھا جبکہ اُنہی دنوں امریکہ سے درآمد شدہ(آئی بی ایم اور ایپل کمپنیوں) کے پرسنل کمپیوٹر ز ملک کے بڑے بڑے شہروں میں متعارف ہوچکے تھے، جہاں کے نجی اداروں میں کمپیوٹر ٹریننگ کے کورسز شروع ہو چکے تھے۔
یہ وہی دور تھا جب ڈیرہ اسماعیل خان کے نوجوان خصوصاً عظمت کمال خاکوانی، سعیدا للہ مروت، افتخار قصوریہ، سیدنصرت زیدی، عامر سہیل سدوزئی(گگن) اور دیگر ہم خیال دوستوں نے دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی (کمپیوٹر سائنسز) میں علم حاصل کرنے کی ٹھانی،چنانچہ سب اپنا بوریا بسترسمیٹے راولپنڈی جا پہنچے جہاں پر ٹیکنیکل بورڈ لاہور سے الحاق شدہ انسٹیٹیوٹ سے COBOL کوبول اورBASIC بیسک لینگووجیز کا چھ ماہ کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے ساتھ ہی چند دوستوں نے جرمن زبان میں بول چال کا کورس بھی مکمل کیا اور پھر سب ڈیرہ لوٹ آئے۔
جس طرح کسی زمانے میں ڈاکٹر امان اللہ مرحوم کا ڈبل سائلنسر موٹر سائیکل مشہور ہوا کرتا تھا اُسی طرح عظمت خاکوانی اپنے ایم بی ہونڈا کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ڈپلومہ مکمل کرنے کے بعد یہ سب دوست دریا کنارے اکٹھے ہوتے اور کچھ اس قسم کی گفتگو کیا کرتے تھے:”کمپیوٹر میں ڈپلومہ تو ہم نے حاصل کر لیا ہے،اب اصل مسئلہ پریکٹس کا ہے مگر یہاں پر تو دور دور تک کمپیوٹر کا اتا پتہ نہیں ملتا، اب ہمیں آگے کیا کرنا چاہیے؟جو کچھ ہم سیکھ کر آئے ہیں اب اُس کی پریکٹس کیسے ہوگی؟ کمپیوٹر مشین خریدنا ہماری دسترس سے باہر ہے، اب کیا ہو گا؟“۔کسی دوست نے بتایا کہ ٹانک روڈ پردامان آئیل ملز میں کمپیوٹر آیا ہوا ہے وہاں جا کر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگروہاں پر صرف ایک کمپیوٹر دستیاب تھا، نصرت زیدی کو وہاں پر عارضی ملازمت مل گئی مگر باقی دوستوں کی بات نہ بن سکی۔ پتہ چلا کہ جنوبی سرکلر روڈ پر ٹی بی ہسپتال کے سامنے ڈیرہ لیبارٹری کے بالاخانے پر ڈاکٹر فطرت اللہ صاحب کا پرائیویٹ آئی سی آئی(انڈس کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ)ہے،مگر وہاں جا کر استقبالیہ سے پتہ چلاکہ ڈاکٹر صاحب صرف FORTRANفورٹران اورPASCAL پاسکل لینگوو جیز سکھاتے ہیں، انسٹیٹیوٹ میں کمپیو ٹر کی سہولت بھی سائنس کے طالبعلموں تک محدود ہے جبکہ وہاں پر کمپیوٹر کی پریکٹس صرف وہی کر سکتا ہے جس نے داخلہ لیا ہو۔یہ سنتے ہی نصرت زیدی اور عظمت کمال کو سخت مایوسی ہوئی اور انہوں نے اس کمی کو شدت سے محسوس کیا کہ ہمارے شہر میں ”ورڈ پروسیسینگ،ڈی بیس، ورڈ اسٹار سمیت دیگر کورسز کروانے کیلئے کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہیے کہ جہاں نوجوانوں کو بلا امتیاز داخلہ مل سکے اور کمپیوٹر کی ٹریننگ لے کراپنا مستقبل سنوار سکیں۔ عظمت نے اس خواب کی تکمیل کی خاطر 1989 ء میں اونے پونے اپنی آبائی اراضی بیچی اور کراچی کا رخت ِسفر باندھا، وہاں پر ایک سال کی مدت کے اندر(ڈیسک ٹاپ پبلشنگ، ورڈ پروسیسنگ، سپریڈ شیٹ، ڈی بیس، وینچُورا venture publisher اور دیگر سافٹ وئیر ز میں مہارت حاصل کرنے کے بعد تین چار کمپیوٹرز، ایک ڈاٹ میٹرکس پرنٹر، فلاپی ڈسکیں اور وائرس سافٹ ویئر کی کاپی لئے ڈیرہ واپس آپہنچے۔
سال: 1990، مقام:توپانوالہ، من ملن سویٹ شاپ کے سامنے السیف بلڈنگ میں ڈیرہ کے سب سے معروف و مقبول عوامی انسٹیٹیوٹ (PC Zone پی سی زون) کی بنیا دیں رکھی گئیں کہ جہاں پر بلا امتیازسائنس و آرٹ ہر طالبعلم کو خوش دلی سے ویلکم کیا گیا۔
پی سی زون کھلنے سے ایک سال پیشتر (1989) میں ڈاکٹر غلام محمد خان کی ذاتی کاوشوں سے گومل یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کا شعبہ کھل چکا تھا، جہاں پر ڈاکٹر فطرت اللہ، جمال عبدالنا صر اور ضیاء الدین صاحب کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے اولین لیکچرار مقرر ہوئے تھے، مگر کمپیوٹر کی یہ تعلیم بھی ماسٹر کلاس ڈگری کے طالبعلموں کیلئے مخصوص تھی۔
عظمت کمال ڈیرہ کے پہلے نوجوان تھے کہ جنہوں نے پی سی زون جیسا پلیٹ فارم مہیا کیا تھا کہ جس نے کمپیوٹر سائنس کے علم کو مخصوص طبقے اور مخصوص شعبے کے طلباء تک محدود رکھنے کی بجائے اسے ہر خاص و عام تک پہنچایا تھا۔پی سی زون کا موٹو تھا (ہم پڑھاتے نہیں سکھاتے ہیں)، اسی پیغام کے تحت جناب ظفر اقبال صاحب،پروفیسر شکیل صاحب، پروفیسر ضیاء الدین صاحب، ڈاکٹر شفیق, ڈاکٹر اللہ نواز(مرحوم)، پروفیسر بشیر صاحب، فضل محسود کنڈی، رحمت اللہ کنڈی صاحب اور ڈگری کالج میں شعبہ شماریات کے جناب عاشق صاحب نے اپنی خدمات پیش کرکے کمپیوٹرکی تعلیم کو عام نوجوان کی دسترس تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
پی سی زون کے فوراً بعد سعید اللہ مروت صاحب نے بھی السیف بلڈنگ میں کچھ دکانیں کرائے پر لے کر وہیں سے ڈیرہ کی تاریخ کے اولین ویکلی انگلش نیوز پیپر ”دا منٹ The Minute‘‘ کا اجراء کیا تھا،چونکہ عظمت خاکوانی نے کتابوں اور اخبارات کی پبلشنگ میں مددگار وِینچورا پبلشرز کو پہلی بار ڈیرہ میں متعارف کروایا تھا اور اسی سافٹ وئیر نے انگریزی اخبار کے خواب کو ممکن کر دکھایا تھا۔ اُن دنوں اردو کا سافٹ ویئر (شاہکار) انتہائی مہنگا تھا جبکہ مفت والے اردو سافٹ وئیرز(سرخاب، کاتب، اِن پیج وغیرہ) ابھی تک مارکیٹ میں متعارف نہیں ہو ئے تھے اسی لئے اردو کی کتابت بھکر کے کاتب حفیظ صاحب کے ہاتھوں سے ہواکر تی تھی۔
دا منٹ اخبار سعید اللہ مروت کا اپنا آئیڈیا تھا، عظمت خاکوانی نے اس ضمن میں اخبار کی کمپوزنگ، پیسٹنگ اور پبلشنگ کی حد میں وینچُورا پبلشرز کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے تکنیکی مدد فراہم کی تھی، ڈیرہ اسماعیل خان کے اولین انگریزی ہفت روزہ (The Minute) میں اکبر کنڈی صاحب، علی امین کے والد امین اللہ گنڈہ پور اور دیگر پڑھے لکھے افراد بھی لکھنے لگے تھے۔ تسلیم فیروز اُس اخبار کے ادارتی صفحے پر چار اشعار کا قطعہ لکھا کرتے تھے، بعد میں سعیداللہ مروت صاحب نے ”اپنا اخبار“ کے نام سے اردو اخبار بھی نکالا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے کتابت اور خطاطی کا عہد تمام ہونے لگا تھا، پورے کاپورا اخبار اُردو سافٹ ویئر(سرخاب، ان پیج) ایڈیٹرز سے سجنے لگا تھا، اُسی پر پیسٹنگ ہونے لگی اور پھر لیزر پرنٹرنے آتے ہی پرنٹنگ کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔پی سی زون سے ڈیرہ کے نوجوان کمپیوٹر کے شارٹ اورینٹیشن کورسز اور ڈپلومہ کی سندیں حاصل کرنے کے بعد ترکی کی ٹیکسر کمپنی میں ملازمتیں حاصل کرنے لگے تھے جبکہ ہمارے کچھ قریبی دوست وثیق احمدعلی زئی اور نثار حسین نے جاب کرنے
کے ساتھ ساتھ گومل مارکیٹ میں دکانیں کرائے پر لے کر مقامی اخبارات کیلئے کمپیو ٹرائزڈ کمپوزنگ کا کام شروع کر دیا تھا۔
کمپیوٹر کی تعلیم عام کرنے کے ساتھ ہی پی سی زون نے اپنے دوسرے پراجیکٹ(انگریزی بول چال میں مہارت) پر کچھ اس انداز میں کام کیا تھا کہ وقتی اور روایتی ڈگر (گرائمر)سے ہٹ کر انگریزی کو بول چال کے ذریعے کچھ ایسے عام کیا تھاکہ ڈیرہ کے سرکاری سکولوں سے نکلنے والا اردو میڈیم طبقہ انگریزی بولنے لگاتھا۔زبانیں سکھانے کا یہ آزمودہ اور عملی نسخہ عظمت خاکوانی کے ہاتھوں اُس وقت لگا تھا جب وہ اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگوجیز(NIML) میں جرمن زبان کا چھ ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس کر رہے تھے، چنانچہ انہوں نے اسی طریقہ کار کو ڈیرہ میں آکر اپنا یا تھا کہ (ہم گرائمر اور Tenses نہیں رٹواتے،انگریزی نہیں پڑھاتے بلکہ انگریزی کا خوف ختم کرکے دوستانہ ماحول میں اسپیکنگ پاور بڑھاتے ہیں)۔نوجوانوں کا جھاکا اُترنے کی دیر تھی کہ وہ نا صرف انگریزی بولنے لگے تھے بلکہ اسی اعتماد کے سہارے انہیں پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں جا کر نوکری تلاش کرنے میں بھی مدد ملی تھی اور کئی ایک بیرون ملک بھی جابسے تھے۔
الغرض پی سی زون کے مالک کا مقصد ڈیرہ کے نوجوانوں کو اعتماد اور بھروسہ دینا تھا اور انہیں کمپیوٹر سائنس کے بنیادی کا نسپٹ سمجھانا تھا، یہی کانسپٹ اُن کی پروفیشنلزندگیوں میں کامیابی کا سبب بنے تھے۔
ورڈ، لوٹس، وینچُورا، کوبول، پاسکل، ڈاس سے شروع ہونے والی ٹیکنالوجی کا سفر اپنی دھن میں ترقی کے ارتقائی مراحل طے کرنے لگا تھا۔مونوکروم مانیٹر، ڈاٹ میٹرکس پرنٹر اورفلاپی ڈسکس کی جگہ کلر مانیٹر، ہارڈ ڈسک، لیزر پرنٹر نے لے لی تھی۔ لوٹس کو ایکسل،ورڈ کو مائیکروسافٹ ورڈ، بیسک کو وژیول بیسک، وِینچُورا کی جگہ کورل ڈرا نے لے لی تھی۔ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئرٹیکنالوجی کی بدلتی دنیا کے زیرِ اثر(پی سی زون) جدیدیت کا علم تھامے سب کو ساتھ لئے آگے چلتا رہا تھا۔عظمت کمال کے چھوٹے سے خواب نے ہم جسے سینکڑوں غریبوں کی قسمت بھی بدل کر رکھ دی تھی کہ ایف ایس سی کے بعد نوجوانوں کا رجحان بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کی طرف راغب ہو چکا تھا اور یہی وہ عشرہ تھا جب نئی صدی کی شروعات سے قبل ہماری نسل ٹیکنالوجی کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ سوسائٹی میں اپنی
کنٹری بیوشن کو یقینی بنا چکی تھی۔
(جاری ہے)
عظمتوں کی داستان: ڈیرہ اسما عیل خان کو اینالاگ سے ڈیجیٹل عہد میں لانے والوں کی کہانیاں، اگلی قسط میں شامل ہے (ڈیرہ میں انٹرنیٹ کی اولین سہولت، اولین ویب سائٹ اپنا ڈیرہ ڈاٹ کام، اولین گورنمنٹ ویب سائٹ،پہلا کیبل چینل اور پہلے ایف ایم ریڈیو کی کہانی)۔۔

٭٭٭٭٭٭

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: