نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتے کابل ایئرپورٹ پر ہوئے خودکش حملے کے ’’حتمی منصوبہ ساز‘‘ کا سراغ لگالیا۔ اس سے نجات پانے کے لئے ڈرون طیارے متحرک ہوئے۔ ان کے ذریعے پھینکے میزائلوں نے پاکستان کی سرحد کے قریب واقع جلال آباد کے نواح میں ایک گھر کو نشانہ بنایا۔ ’’حتمی منصوبہ ساز‘‘ کی اس کے ذریعے ہلاکت کا دعویٰ ہوا ہے۔ یہ اعلان بھی کردیا گیا ہے کہ داعش کی خراسان کے حوالے سے بنائی شا خ کو نیست ونابود کرنے کے لئے ایسے کئی حملے ہوتے رہیں گے ۔ افغانستان میں غیر یقینی صورت حال لہٰذا 31اگست کے دن اس ملک سے غیر ملکی افواج کے کامل انخلاء کے بعد بھی وحشت سمیت برقرار رہے گی۔
ڈرون حملے امریکی صدر بائیڈن کی ہمیشہ سے اولین ترجیح رہے ہیں۔ اسی باعث وہ پوری شدت سے اوبامہ کا نائب صدر ہوتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانے والے منصوبے کی مخالفت کرتا رہا۔ وہ مصر رہا کہ امریکی فوج کو برسرزمین اتارنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ ڈرون طیاروں سے افغانستان کی بھرپور نگرانی ہو۔ اس کی بدولت دہشت گردوں کا سراغ مل جائے گا تو انہیں فضا سے بھیجے میزائلوں ہی سے ہلاک کردیا جائے۔
اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم ڈورن حملوں کے شدید ترین مخالف رہے ہیں۔ اپنے ہر جلسے اور ٹی وی انٹرویو میں وہ یہ مؤقف دہراتے رہے کہ امریکہ کو اپنے تئیں لوگوں کو ’’دہشت گرد‘‘ ٹھہرانے کا حق فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس حقیقت پر بھی توجہ دلاتے رہے کہ ڈرون طیاروں کی وجہ سے بے شمار بے گناہ شہری اپنے کنبوں اور معصوم بچوں سمیت ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 2010کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی ڈرون طیارے ہمہ وقت متحرک رہے۔ عمران خان صاحب کی نگاہ میں وہ پاکستان کی خودمختاری کی ذلت آمیز تضحیک تھے۔ انہیں گلہ رہا کہ پاکستان پر مسلط ہوئے ان کی دانست میں ’’بدعنوان‘‘ سیاست دان پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ میں اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے قطعاَ ناکام ہیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف عوام کو تسلی دینے کے لئے مذمتی بیانات تو جاری کرتے ہیں مگر امریکی حکام سے ہوئی خفیہ ملاقاتوں میں ڈرون حملوں کی کارروائی کو سراہتے ہیں۔ وکی لیکس کی بدولت منکشف ہوئی داستانوں نے بالآخر انہیں درست ثابت کیا۔
داعشق کی خراسان کے نام سے بنائی شاخ کے خلاف فی الحال ڈرون حملہ تو افغان سرزمین پر ہوا ہے۔ 20 سالہ جنگ کے بعد اس ملک کی حکمرانی پر لوٹے طالبان نے مگر اس کے خلاف مذمتی بیان جاری نہیں کئے۔ امریکہ بلکہ تواتر سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ داعش اس کی اور طالبان کی مشترکہ دشمن ہے اور مشترکہ دشمن کے خلاف طالبان امریکہ کی معاونت کو آمادہ ہیں۔
داعش کے خلاف امریکہ اور طالبان تو نظر بظاہر یکجا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کا عام شہری ہوتے ہوئے میں البتہ اس موضوع پر اپنی حکومت کا مؤقف معلوم کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ سوال اگرچہ ہمارے میڈیا نے فی الوقت نظرانداز کر رکھا ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کا اعلان مجھے اس وجہ سے بھی پریشان کئے ہوئے ہے کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے پشاور کے انتہائی قریب واقع جلال آباد کو اس تنظیم کا مرکز بتایا جاتا ہے۔ اس تنظیم کی افغانستان کے صوبے کنڑ میں مؤثر موجودگی بھی ثابت ہو چکی ہے۔ داعش پر نگاہ رکھنے والے لکھاریوں کا دعویٰ ہے کہ داعش کی حقیقی قیادت ماضی میں القاعدہ کا حصہ رہے عرب جنگجو اور پاکستان میں مسلکی بنیادوں پر اتنہا پسند ہوئے افراد کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی میڈیا میں انہیں ’’پنجابی طالبان‘‘ پکارا جاتا ہے۔ ان عناصر کے خلاف ڈرون حملے شروع ہو گئے تو کہانی افغاانستان تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ داعش کے پاکستان میں بھی چند ’’محفوظ ٹھکانوں‘‘ کا ذکر ہو گا۔
مبینہ یا حقیقی ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کے امکانات کو لہٰذا رد نہیں کیا جاسکتا۔ خدانخواستہ ایسے حملے شروع ہو گئے تو عمران خان صاحب کے ناقد ڈرون طیاروں کے خلاف ان کے ’’تاریخی مؤقف کی دہائی مچانا شروع ہوجائیں گے۔ انہیں عوام کے روبرو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح ’’بے بس‘‘ ہوا دکھایا جائے گا۔ مذکورہ بے بسی کو عمران خان صاحب ’’غلامانہ ذہنیت‘‘ بھی ٹھہراتے رہے ہیں۔ وہ اس ذہنیت کے خلاف کئی محاذوں پر ڈٹ چکے ہیں ۔ یکساں نصاب کا نفاذ اور اردو زبان سے محبت بھی خوئے غلامی کے خلاف ان کی جانب سے خودی کا اظہار ہے۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ وہ افغانستان یا ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں کو روکنے کی جرأت دکھائیں گے یا نہیں۔ فرض کیا وہ ان حملوں کی مخالفت میں ڈٹ بھی جائیں تو ہمارے پاس فی الحال فوجی اعتبار سے یہ صلاحیت ہرگز موجود نہیں کہ ہم پاکستان کی فضا سے افغانستان کی طرف اڑتے میزائل کو اپنی فضا ہی میں ناکارہ بنا سکیں۔ یہ صلاحیت فی الحال فقط اسرائیل ہی کو بھرپور انداز میں میسر ہے۔
جرأت یا صلاحیت ہی مگربنیادی مسئلہ نہیں۔ ڈرون طیارہ امریکہ کا مؤثر ترین جنگی ہتھیار ہے۔ ہم اسے اپنی خودمختاری اجاگر کرنے کی غرض سے نشانہ بنائیں تو اسے امریکہ کے خلاف ’’جنگی چال‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو پاک-امریکہ تعلقات میں پہلے سے موجود عدم اعتماد،تنائو اور کشیدگی کو سنگین تر بنادے گا۔ اس عمل کے سفارتی اور معاشی مضمرات بھی ہوں گے۔
ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو ہرگز خبر نہیں کہ ہمارے ہاں داعش کی خراسان والی شاخ کس قوت کے ساتھ موجود ہے۔ اس شبے کا اگرچہ اکثر اظہار ہوتا ہے کہ پاکستان کے کئی شہروں میں اس کے Sleepers’ Cellموجود ہیں۔ نیویں نیویں رہتے ایسے ہی ایک گروپ کو حال ہی میں داسو میں چینیوں پر ہوئے حملے کا ذمہ دار بھی تصور کیا گیا تھا۔ افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں اور جنگجوئوں پر ڈرون حملوں میں شدت آئی تو پاکستان میں خاموش بیٹھے ان کے حامی بھی متحرک ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پر الزام لگایا جائے گا کہ وہ اپنی فضا کو ان پر حملوں کے لئے استعمال ہونے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس کا ’’بدلہ‘‘ لینے کے لئے ہمارے ہاں دہشت گرد کارروائیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ طالبان کی کابل میں فاتحانہ واپسی کے باوجود دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے مصائب لہٰذا ختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر