اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بولنے سے پہلے سوچئے ضرور حضور!||حیدر جاوید سید

یہ ملک فتوحات کے سلسلے کا حصہ نہیں جس طرح کی سوچ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے دوریاں بڑھ رہی ہیں المیہ یہ ہے کہ ایک طبقے اپنے سوا کسی کو انسان سمجھنے پر تیار ہی نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا وباء کے پھیلاو کو روکنے کے لئے سندھ حکومت کے حالیہ اقدامات پر وفاقی وزراء کے بیانات کو بھلے آپ ہلکی پھلکی نظر سے بھی دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی فاتح قوم کے لشکری مفتوحہ قوم کو یاد دلا رہے ہوں کہ
” ہم ہی ہم ہیں اور بس۔ تمہیں جرأت کیسے ہوئی بات کرنے کی”
یہ صورتحال افسوسناک ہے ۔ بدقسمتی سے یہ ایک خاص طبقہ ہے سیاسی مسافروں کا جو ہمیشہ بلکہ نسل درنسل "مالکان” کا درباری رہتا ہے مالکان تبدیل ہوتے ہیں درباری نہیں اس طبقے کی سوچ اور طور طریقے بھی نہیں بدلتے ۔ ٹھنڈے دل سے سوچنے اور شائستہ اطوار اپنانے کی ضرورت ہے
یہ ملک فتوحات کے سلسلے کا حصہ نہیں جس طرح کی سوچ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے دوریاں بڑھ رہی ہیں المیہ یہ ہے کہ ایک طبقے اپنے سوا کسی کو انسان سمجھنے پر تیار ہی نہیں۔
اچھا خود کو بھی وہ انسان سے زیادہ کوئی اعلیٰ و ارفع مخلوق سمجھتے ہیں ان سے اچھا مسلمان ‘ محب وطن اور دانا کوئی نہیں
تلخ نوائی نہ سمجھیں تو عرض کروں غیر پنجابی اقوام کے لئے اس طبقہ نے ہمیشہ منفی بات کی ان کے خیال میں ان کے علاوہ باقی سارے دہشت گرد ہیں۔ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ ‘ جاہل ہیں اور بھکاری دو دن ادھر سابق میجر جنرل اعجاز اعوان نے ایک ٹی وی پروگرام میں سرائیکی خطے کے لوگوں کو پیشہ ور بھکاری قراردیا
چند دن قبل آپا فردوس عاشق اعوان ایک ٹی وی پروگرام میں سندھیوں کو جاہل کہہ رہی تھیں وہ کہہ بھی سکتی ہیں سندھیوں کا یہ جرم یقیناً ناقابل معافی ہے کہ سندھ اسمبلی میں سب سے پہلے قیام پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تھی
تب پنجاب برطانوی سامراج کے ساتھ کھڑا تھا ہم کہہ سکتے ہیں کہ برطانوی سامراج کے ساتھ کھڑے پنجاب میں دادا امیر حیدر جیسے روشن فکر کردار بھی پیدا ہوئے جنہوں نے کچلے ہوئے طبقات کے حق حاکمیت کے لئے آواز بلند کی لیکن اسی پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے سارے لوٹے مسلم لیگ میں گئے
اس حساب سے برصغیر کی سیاست میں لوٹا گیری کی بانی مسلم لیگ ہے ۔
اس پر مکالمہ ہو سکتا ہے لیکن کیا مکالمے سے سچ تبدیل کرنا مقصود ہو گا یا پھر تلخ تاریخی حقائق کا اعتراف ؟ ۔
سوالوں سے بھاگتے ہجوم کی ذہنی حالت یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کے طوفان بدتمیزی میں رائے بناتا ہے ۔ مثال کے طور پر پچھلے بیس برسوں کے درمیان(کم ازکم عرصہ ہے ) ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے سیاستدانوں کے خلاف بحیثیت مجموعی جو پروپیگنڈہ ہوا وہی تحریک انصاف کی سیاست کا رزق بھی ہے یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے محبوب وزیر اعظم اور ان کے ساتھ پچھلی حکومتوں کی لوٹ مار بارے داستانیں سناتے ہیں تو ہنسی آجاتی ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ پچھلی تین حکومتوں کے اہم ترین کردار تبدیلی سرکار میں شامل ہیں۔
ذرا کسی دن چند لمحات نکال کر مشرف کی جرنیلی جمہوریت ‘ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ادوار کے رہنماوں اور وزراء کو ذہن میں لایئے اور پھر تحریک انصاف کی وفاقی و صوبائی کابیناوں کا دیدار کیجئے دماغ پر زیادہ زور ڈالے بغیر دماغ کی بتی روشن ہوجائے گی۔
خیر چھوڑیئے یہ معمول کی بات ہے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے عادتیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں جن رویوں اور کرداروں کے ہم شعوری طور پر وارث بنے رہناچاہتے ہیں وہی رویہ اور کردار پروان چڑھتے ہیں
دو دن ادھر ایک سابق میجر جنرل نے جس تکبر نفرت اور حقارت کے ساتھ ایک پوری قوم کو بھکاری ثابت کیا صرف وہ ہی نہیں بلکہ بہت پیچھے ان کے بھائی بند بنگالیوں کو بھوکا بنگالی کہا کرتے تھے ۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے تو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہہ دیا تھا کہ بنگالی بوجھ ہیں۔ مزید حقائق جاننے کیلئے صاحبزادہ فاروق علی خان مرحوم کی کتاب
”جمہوریت صبر طلب” پڑھ لیجئے اس سے بھی زیادہ تلخ باتیں پڑھنے کو ملیں گی
افسوس کے وقت سے کسی نے سبق نہیں سیکھا دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے چنددن بعد ہی ان کالموں میں عرض کیا تھا
چونکہ سندھیوں نے اپنی قیادت کا حق پیپلز پارٹی کو دیا ہے اس لئے جاہل گنوار ذہنی غلام اور جمہوریت کے دشمن ہیں لیکن اگر یہی سندھی حیدر آباد کے ایک ”بڑے گھر” میں بنوائے گئے جی ڈی اے نامی اتحاد میں شامل لوگوں اور دوسروں کو ووٹ دیتے تو ان سے بہتر اور کوئی نہ ہوتا
بات دور نکل گئی عرض یہ کر رہا تھا کہ کورونا وباء کے پھیلاو کو روکنے کے لئے سندھ حکومت کے حالیہ اقدامات کے خلاف چاند ماری کرتے وفاقی وزراء کو سوچنا ہو گا کہ وہ فیڈریشن کے وزیر ہیں۔
فیڈریشن کی کسی اکائی کے ذمہ داران اور انتظامیہ کے حوالے سے ان کی سستی باتوں کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے تین چار دنوں سے فیڈریشن کی ایک اکائی کے خلاف محاذ کھولے وزراء کے پاس اب اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ گزشتہ روز این سی اوسی نے کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لئے جن اقدامات اور پابندیوں کا 31اگست تک کے لئے اعلان کیا ہے یہ کیا ہے؟ بازار شام آٹھ بجے تک کھلیں گے ہوٹلوں سے کھانا لے جایا جا سکے گا دفاتر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں پچاس فیصد لوگ ہونے چاہئیں۔
ان پابندیوں کا اطلاق ملک کے تیرہ شہروں میں ہوگا کراچی میں یہ پابندیاں آٹھ اگست کے بعد نافذ ہوں گی ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ روز این سی او سی نے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کو فیصلے کے لئے اعتماد میں لیا؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کورونا وباء کی چوتھی لہر پوچھ کر نہیں آئی پہلی تین لہروں نے بھی پیشگی ا طلاع نہیں دی تھی۔
عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ طریقہ کار پراختلاف ہے تو مل بیٹھ کر معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کیجئے یہ کہنا کہ وفاق آئین کے مطابق کارروائی کرے گا کیوں بھئی کیا سندھ حکومت اپنے صوبے کے لوگوں کو موت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے ؟
اور اگر اس کے اقدامات غلط ہیں تو 13شہروں میں 31اگست تک این سی او سی نے جوپابندیاں لگائی ہیں یہ آسمانی صحیفہ کیسے؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: