مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Say No to proxy war||سارہ شمشاد

اگر اس وقت پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ اندرونی اور بیرونی محاذ ہیں جن پر ہمیں ایک قوم بن کر لڑنا ہے اس لئے پاکستانی قوم کو اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور ملک دشمن طاقتوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ ساری اکائیاں ایک کڑی میں پروئی ہیں، پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبے بھی ترقی کریں گے۔ چیئرمین سینٹ کی قیادت میں سینیٹرعبدالقادر، دلاور خان اور فراز بگٹی نے مطالبات میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ سکیم پر بزدار کے وژن کو بھی سراہا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا عزم خوش آئند ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں پسماندہ اور چھوٹے صوبوں کو ترقی یافتہ صوبوں کے ہم پلہ اور برابر بنانے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے اسی لئے تو آج پنجاب ، بلوچستان، سندھ اور کے پی کے کی ترقی میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ساری اکائیوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش قابل تحسین ہے خاص طور پر اس وقت جب دشمن عناصر نے آپس میں نفاق پیدا کرکے ہمارے مثالی اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نفرتوں اور تعصب کے الائو دہکنے لگے تو تحریک انصاف کی حکومت نے ان فاصلوں کی خلیج کو کچھ کم کرنے کی کوشش کی جس پر ہمارے دشمن کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا ایک واجبی اور فطری سا عمل ہے اس لئے ’’میک ان پاکستان‘‘ کی بات بڑی شدومد کے ساتھ کی جارہی ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی ہی درحقیقت ہمارا واحد ایجنڈا ہونا چاہیے مگر افسوس کہ ماضی میں حکمرانوں نے پاکستان کی بجائے ذاتی مفادات کو ہمیشہ ترجیح دی اسی لئے تو آج اگر وزیراعظم عمران خان امریکہ کو "Absolutely Not” بڑے دبنگ انداز میں کہہ رہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ تو خود خان صاحب نے بتادی ہے کہ اگر ان کی جائیدادیں بھی بیرون ملک ہوتیں تو وہ امریکہ کو نو مور نہ کہہ سکتے۔ دوسری طرف وطن عزیز سے وفاداری ہے۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جب تک ہمارے ذاتی Interest ختم نہیں ہونگے اس وقت تک ملک سے محبت کے دعوے صرف دعوے ہی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کا عمل جاری ہے اور ملک دشمن عناصر پاکستان کے امن کو خراب کرنے کے درپے ہیں اسی لئے تو پہلے داسو ڈیم والا واقعہ اور پھر افغان بارڈر پر پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے علاوہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے بعد بازیابی کی کڑیاں اگر ملائی جائیں تو بہت کچھ سمجھ آجائے گا ۔ ایسے میں پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل افتخار بابر نے اسی صورتحال کے باعث واضح کیا کہ افغانستان میں بیٹھے دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے سلیپر سیلز دوبارہ فعال ہونے کے خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے۔ان تمام تر مشکل حالات کے باوجود پاکستان پرعزم ہے کہ ملک دشمن عناصر کے عزائم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ آج صرف فوج کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام اداروں کے ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر افغان صدر اشرف غنی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اس پرائی جنگ میں اپنی حیثیت سے زائد قربانیاں دی ہیں۔
اگر اس وقت پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ اندرونی اور بیرونی محاذ ہیں جن پر ہمیں ایک قوم بن کر لڑنا ہے اس لئے پاکستانی قوم کو اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور ملک دشمن طاقتوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ادھر چین نے پاکستان کی ایجنسیوں کی تفتیش اور وزارت داخلہ کی میزبانی پر شکریہ ادا کیا ہے جو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمالیہ سے اونچی دونوں ممالک کی دوستی میں جو دراڑ ڈالنے کی کوشش ملک دشمن طاقتوں نے کی تھی اب اس میں انہیں ناکامی کا سامناکرنا پڑا۔ سی پیک چونکہ پاکستان کے لئے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے اس لئے اسے سبوتاژ کرنے کی ملک دشمن طاقتوں کی جانب سے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ اب بھارت نے ازخود ایف اے ٹی ایف کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ازخود اعتراف کیا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان پہلے ہی چہار سو مشکلات کا شکار ہے تو لازم ہے کہ دشمنوں کی ہر ہر چال پر گہری نظر رکھی جائے کیونکہ یہی تو وہ اصل موقع ہے کہ جب طاقت کے نشے میں بدمست طاقتیں افغانستان میں امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کوسبوتاژ کرکے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان کی امن کے قیام کے لئے کی جانے والی سنجیدہ کوششوں کی نفی کی جاسکے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے افغان صدر کی الزام تراشی کا ترکی بہ ترکی جواب دیاہے لیکن اب تو بین الاقوامی میڈیا میں بھی یہ خبریں چھپ رہی ہیں کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے یہی نہیں بلکہ افغانی صدر کرزئی ضرورت سے زیادہ بھارت کی طرف جھکائو بھی معاملات کی مزید خرابی کا باعث بن رہا ہے ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ اگر جلد ہی حالات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو خدانخواستہ خطہ ایک ایسی طویل جنگ کی طرف چلا جائے گا جس سے ہر ملک براہ راست متاثر ہوگا۔ کچھ اسی طرف ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ کہہ کر اشارہ بھی کیا ہے کہ بھارتی سلیپر سیلز دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں جس کے لئے پاک فوج تو چوکنا ہے ہی ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس کے ہمسائے اس سے خوش اس لئے نہیں کہ وہ دل سے امن کی بات کرتا ہے لیکن امریکہ جو بھارت کو جنوبی ایشیائی خطے کا چودھری بنانے کی خواہش رکھتا ہے یہ اسی کی تھپکی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے سو گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل بھارتی یورینیم کی چوری کی خبریں بھی سننے کو ملیں لیکن افسوس کہ عالمی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور دنیا کی سیفٹی کو یقینی بنانے کے لئے کسی قسم کے اقدامات کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کیا گیا۔
آج جب امریکہ کے ہاتھوں طاقت سمٹ رہی ہے اور پاکستان کی چین سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پاکستان چین ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں یہی بات امریکہ اور اس کے حواریوں کو کھٹکتی ہے اور وہ پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے ہرممکن کوشش کررہا ہے۔ جبکہ افغانستان میں طالبان نے 70فیصد کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور افغان فورسز بھی سرنڈر کرتی چلی جارہی ہیں بلکہ ازخود طالبان کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہیں خود بھی اتنا یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی افغانستان کے بڑے حصہ پر کنٹرول حاصل کرلیں گے اور آج جب افغان فورسز اسلحہ کے ساتھ طالبان کے ساتھ تیزی سے شامل ہورہے ہیں تو ایسے میں خطے کے تمام ہمسایہ ممالک پر لازم ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا سنجیدگی سے ادراک کریں کیونکہ خطہ تیزی سے ایک ایسے طوفان کی طرف بڑھ رہا ہے کہ اگر اب بھی اس کو کنٹرول نہ کیا گیا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لئے خطے کو کسی ایسی آگ کی طرف مزید دھکیلنا جس کو بجھانا ناممکن ہوجائے، سے بچنا چاہیے اور ایک دوسرے پر بے بنیاد الزام تراشی کی بجائے افہام و تفہیم اور صبروتحمل کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے ہونے کی حیثیت سے اپنا مثبت کردار یہ سوچ کر ادا کرنا چاہیے کہ اگر کسی پر کوئی مشکل آتی ہے تو سب سے پہلے ہمسایہ ممالک آپ کی مدد کو آئیں گے ناں کہ ہزاروں میل دور بیٹھا امریکہ۔ اس لئے اگر اب بھی اپنی بجائے دوسروں کے مفادات کو عزیز تر رکھنے کی سابقہ پالیسی پر عمل کیا جائے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ بہتر ہے کہ عقل کے ناخن لیتے ہوئے ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔ یہ خطہ پہلے ہی کئی دہائیوں سے جنگ کا میدان بنا رہا اس کو اگر مزید الجھانے کی کوشش کی گئی تو اس آگ کو بجھانا ناممکن ہوجائے گا۔ پراکسی وار کو نو کہنے کو ہی بہترین حکمت عملی گردانا جائے یہی وقت کا تقاضا ہے اور اسی میں اس خطے کی بہتری اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔ اسی طرح افغان حکومت دوسروں پر الزام تراشی کی جائے اپنی ادائوں پر غور کرے کیونکہ اس حکومت کا ایک غلط فیصلہ آنے والی کئی افغان نسلوں کو آگ کی بھٹی میں جھونک سکتا ہے اس سلسلے میں تمام ہمسایہ ممالک کو مہذب معاشروں کی سوچ اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہی راستہ جنوبی ایشیا کو ترقی کے راستے کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اب فیصلہ یہاں کی حکومتوں نے کرنا ہے کہ خطہ آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: