اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چوہدری دا مر گیا کتا||شہریارخان

یہ جرمن شیفرڈ کیا بلا ہے لتر کے آگے۔ ورنہ لتر سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔کسی پولیس مقابلے میں مارے جانے کا سن کر تو بڑے سے بڑے کتے بھی صاحب بہادر کا کتا بننے کو تیار ہو جائیں گے۔ پنجاب پولیس زندہ باد

شہریارخان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ماڑے دی مر گئی ماں، کوئی نئیں لیندا ناں۔۔ چوہدری دا مر گیا کتا، پنڈ پورا نئیں ستا۔۔ آسان اردو میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر عام آدمی کی ماں بھی مر جائے تو کوئی شور نہیں مچتا لیکن اگر گاﺅں کے چوہدری کا کتا بھی مرے تو پورے گاﺅں میں شور مچ جاتا ہے۔ یہ محاورہ سن تو رکھا تھا لیکن پہلی مرتبہ اس پہ اس طرح عملدرآمد ہوتے دیکھ بھی لیا۔ واقعی ایک کتے نے پورے علاقے کی انتظامی مشینری کو ہلا کے رکھ دیا۔ کیا پولیس، کیا میونسپل کارپوریشن، کیا تانگے اور رکشے چلانے والے۔۔ سب کے سب گوجرانوالہ کے کمشنر کا کھویا ہوا کتا ڈھونڈتے رہے۔ یہاں کسی ماں کا لعل گم جائے تو موٹی توند والا تفتیشی رپورٹ درج کرنے کے لیے چھتیس چکر لگوائے گا اور پھر بھی مفت میں رپٹ درج نہیں کرے گا لیکن کمشنر صاحب کے کتے کا بچہ۔۔ ڈھونڈنے کے لیے پورے شہر کے پولیس افسران کے پسینے نکل گئے۔ کوئی گلیوں میں بھاگ رہا تھا تو کوئی مساجد میں اعلان کرا رہا تھا۔ کوئی ریکارڈ یافتہ عادی مجرموں کو پکڑ رہا تھا تو کوئی پولیس والا شاپنگ سینٹرز میں دکان دکان تلاشی لے رہا تھا۔ کئی مکانات پر شبہ کی بنیاد پر چھاپے بھی مارے گئے۔ جن کے گھروں میں کتے تھے ان سب کو پولیس سٹیشن بلایا گیا۔ کمشنر صاحب کے ملازمین نے کتوں کی شناخت پریڈ کی مگر مطلوبہ کتا نہ مل سکا۔ رکشوں پر لاو¿ڈ سپیکر لگا کے اعلان کیا جاتا رہا کہ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے وہ فورا کتا لوٹا دے ورنہ کتا برآمد ہونے پر چور سے کتے والا سلوک کیا جائے گا۔ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیئے جانے کے باوجود کتا برآمد نہ ہو سکا۔ سارے شہر کے چور اور کتے سہمے سہمے پھرتے رہے۔ پولیس ہر کتے کو شک کی نظر سے دیکھتی رہی۔۔ ہر کتا پکڑ کے لے جانے پر افسران بھی جزبز ہوتے رہے۔۔ ارے یار تم جاہل ہو، یہ تو لوسی کتا ہے، صاحب کا جرمن شیفرڈ کتا ہے۔ کانسٹیبل بولا جناب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ تم جرمن شیفرڈ ہو تو اس نے سر ہلایا تھا۔ میں نے تو سر اسے کتوں والے بسکٹ بھی کھلائے ہیں سر۔۔ افسر نے کانسٹیبل کو گھوری ماری تو وہ سمجھ گیا کہ صاحب نظروں ہی نظروں میں کہہ رہے ہیں کہ تم تو کتوں سے ان کے اپنے بسکٹ بھی چھین لیتے، تم کیا کتوں کو بسکٹ کھلاو¿ گے؟۔
قصائی کی دکانوں کے نیچے بیٹھے کتے بھی پکڑ کے تھانے میں بند کر دئیے گئے، صاحب نے جب دیکھا تو بہت ناراض ہوئے کہ میرے کتے کی شان دیکھو اور قصائی کے پھٹے کے نیچے بیٹھے یہ ریلو کٹے اور پھٹیچر کتے دیکھو۔۔ یہ قصائی کے پھینکے ہوئے چھیچڑوں کے منتظر کتے میرے ہزاروں روپے کے پیڈی گری اور پیڈی چیم کے ڈبے ایک ہفتے میں پھڑکا جانے والے کتے جیسا کیسے لگ سکتے ہیں؟۔ یہ فالتو کے لوسی کتے کہاں اور میرا نسلی کتا جس کا شجرہ جرمنی کے مایہ ناز خاندان سے ملتا ہے۔ میرا یہ خاندانی کتا لاکھوں کا اور قصائی کے پھٹے کے نیچے بیٹھے یہ کتے مجھے کوئی لاکھ روپے بھی دے تو میں انہیں نہ لے کر جاﺅں۔
چلیں اس سارے عمل سے یہ تو معلوم ہوا کہ اگر کمشنر صاحب بہادر کا کتا کھو جائے تو پورے شہر میں کاروبار زندگی معطل ہو جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حیرت انگیز بات بھی واضح ہوئی کہ اگر پولیس کسی کام میں مصروف ہو شہر میں چوری ڈکیتی بھی نہیں ہوتی کیونکہ اس روز پورے شہر میں کیا پوری تحصیل میں کوئی چوری کی واردات ہوئی، نہ کسی ڈکیت نے کسی کو لوٹا۔ اب کوئی اس کا کوئی بھی مطلب نکالے وہ اس میں مکمل طور پر آزاد ہے لیکن میں قطعی طور پر یہ نہیں مانتا کہ چوریاں اور ڈکیتیاں ہماری مستعد پولیس خود کرتی ہے۔ یہ لطیفے ویسے ہی بنے ہوئے ہیں کہ چار ممالک کے پولیس سربراہان پاکستان آئے۔ امریکی پولیس چیف نے بتایا کہ ان کے ملک میں چوری ہو تو وہ اڑتالیس گھنٹے میں سراغ لگا لیتے ہیں کہ چور کون تھا؟۔ برطانوی پولیس چیف نے اپنے کالر اونچے کرتے ہوئے فخر سے بتایا سکاٹ لینڈ یارڈ کا ریکارڈ ہے کہ ہماری پولیس چوبیس گھنٹے سے پہلے پہلے چور کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔ باری تھی چینی پولیس چیف کی، وہ کھڑے ہوئے اور روایتی انداز میں جھکے، بولے ہماری پولیس چھ گھنٹے سے بھی پہلے چوری کے مجرم پکڑ کے جیل میں بند کر دیتی ہے۔ اب باری تھی پاکستانی پولیس چیف کی جن کا تعلق پنجاب سے تھا، وہ کھڑے ہوئے، اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ڈکار ماری اور بولی، آپ سب پیچھے رہ گئے، آپ سب واردات ہونے کے کوئی اڑتالیس گھنٹے، کوئی چوبیس گھنٹے اور کوئی چھ گھنٹے بعد جان پاتے ہیں کہ کس نے چوری کی، ہمیں چوبیس گھنٹے پہلے پتا ہوتا ہے کل کہاں کہاں چوری ہونا ہے؟۔۔۔ دے تالی۔
ویسے تو بات چیت بڑھا کر بیان کرنے والے کرتے ہی رہتے ہیں، ہماری پولیس سب سے ایماندار پولیس ہے، بے چارے حکومت کا اتنا خیال کرتے ہیں کہ تنخواہ کم بھی ملے تو اف نہیں کرتے، ادھر ادھر سے اخراجات کر لیتے ہیں، یہ بے چارے تو تفتیش یا پٹرولنگ کے لیے ڈیزل بھی سرکار کا استعمال کرنے کے بجائے مدعی سے وصول کرتے ہیں اور ایمانداری سے جتنا ڈیزل مدعی سے ملتا ہے اتنی ہی گاڑی دوڑاتے ہیں۔ جہاں ڈیزل ختم وہاں تفتیش ختم۔ بہرحال سوشل میڈیا پر اتنی تنقید کے بعد شنید ہے کہ کمشنر صاحب نے میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں اور پولیس کو آپریشن کی ناکامی پر لعن طعن کرتے ہوئے آپریشن اعلانیہ کرنے سے منع کر دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ خاموشی سے آپریشن جاری رکھا جائے۔ ویسے پنجاب پولیس کے مخبروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عید قربان پر بکروں کے ذبح ہونے کے قلت ہو گئی تھی اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ کتا کسی قصائی کے پھٹے کے نیچے سے ملنے کے بجائے کسی فریزر سے برآمد ہو۔۔ پنجاب میں تو ایسے واقعات عام ہو چکے ہیں۔ تاہم افسران نے اس مخبر کو اس حوالہ سے اپنی زبان بند رکھنے کا حکم دے دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اس جرمن شیفرڈ کتے سے ملتا جلتا کوئی جانور پکڑ کے لایا جائے، اگر وہ جانور یہ ماننے پر تیار نہ ہو کہ وہ کمشنر صاحب کا جرمن شیفرڈ ہے تو اس کو ڈرائنگ روم میں لے جا کر لتر پھیرے جائیں۔ لتر کی خاصیت یہ ہے کہ ہاتھی بھی لترول کے بعد یہ بیان دے دیتا ہے کہ وہ شیر ہے۔ یہ جرمن شیفرڈ کیا بلا ہے لتر کے آگے۔ ورنہ لتر سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔کسی پولیس مقابلے میں مارے جانے کا سن کر تو بڑے سے بڑے کتے بھی صاحب بہادر کا کتا بننے کو تیار ہو جائیں گے۔ پنجاب پولیس زندہ باد

یہ بھی پڑھیے:

یارب مجھے صحافی کیوں بنایا؟۔۔۔ شہریارخان

مزید صحافتی حجام۔۔ شکریہ چوہدری صاحب۔۔۔ شہریارخان

م اور ش ۔۔ ف اور چ کی کہانیاں اور بااختیار وزیر اعظم۔۔۔ شہریارخان

بشکریہ:شہریاریاں ڈاٹ کام 

شہریارخان کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: