اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یارب مجھے صحافی کیوں بنایا؟۔۔۔ شہریارخان

وجہ یہ نہیں ہے کہ بزنس نہیں ہے یا مالکان میڈیا غریب ہو گئے ہیں بلکہ وہ تو اسی طرح پھل پھول رہے ہیں۔ ایک اخبار کی جگہ دو تین اخبارات ہیں،

شہریارخان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی آپ کو یوں محسوس ہوا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آپ خالی ہاتھ ہیں؟۔ آپ اپنے بچوں کے ساتھ مل کے ہنس رہے ہوں لیکن آپ کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہو۔۔ آپ کو یوں لگے جیسے جسم میں خون نہیں بلکہ آنسو بہہ رہے ہیں۔

آپ نہیں جانتے ہوں گے کہ میں کچھ دنوں سے ایسی ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں۔۔ ایک انجانی سی تکلیف ہے، ایک چبھن ہے جو جاتی نہیں ہے۔ میں زمین پہ چلتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے پیروں تلے انگارے رکھ چھوڑے ہوں، پیر کسی ان دیکھی آگ میں جلتے ہیں۔

سوچئیے اس شخص کی تکلیف جس کے پاس ایک لائف سیونگ جیکٹ ہے وہ ڈوب بھی نہیں رہا لیکن وہ کسی کو ڈوبنے سے بچا بھی نہیں پایا کیونکہ اس نے اسے لائف سیونگ جیکٹ اس خوف سے نہیں دی کہ اگر میں ڈوبنے لگا تو کیا کروں گا؟۔

میں نے بچپن میں یہ کرب محسوس ہی نہیں کیا جب میری امی جی کہتی تھیں کہ میرا شہزادہ، میرا شہری لالہ۔۔ صحافی نہیں بنے گا۔۔ یہ چیف جسٹس بنے گا۔۔ میں اپنے کسی بچے کو صحافی نہیں بننے دوں گی۔۔ قسمت میں مگر یہ لکھا تھا کہ تین بیٹے اسی خارزار صحافت میں آ گئے۔ چوتھا فوج میں چلا گیا، اس کے علاوہ تمام کزنز کی اکثریت بھی صحافت سے وابستہ ہے۔

صحافت میں آئے بھی ربع صدی بیت چکی، آج دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یا رب مجھے صحافی کیوں بنایا؟۔ اگر صحافی ہی بنانا تھا تو دل کیوں دیا؟۔ دل ہی دیا تو موم جیسا کیوں ؟۔ اس میں پتھر کیوں نہیں ڈالا؟۔ زبان دی تو بولتی کیوں ہے؟۔ ہاتھ ہیں تو لکھتے کیوں ہیں، دماغ میں بغاوت کیوں بھر دی؟۔

پھر اپنے ابو جی انوار فیروز صاحب کا شعریاد آ جاتا ہے:

یہ سوچ بچوں کی مرے جو باغیانہ ہے

اسے کہو کہ لہو کو لہو پہ جانا ہے

چند دل قبل یہ دل چھلنی ہوا جب اپنے والد کے ایک پرانے دوست اور دفتر کے ساتھی کی فیس بک پوسٹ پڑھی جس میں انہوں نے اپنی سفید پوشی کا بھرم توڑ دیا، ہائے کتنے مجبور ہو جاتے ہیں لوگ، ساری زندگی جو عزت کمائی ہوتی ہے، وہ خود لٹانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ملک کے ایک چوٹی کے اخبار میں تقریباً چالیس سال کی خدمت کی، ریٹائرمنٹ کے بعد چالیس سال کے بقایا جات چار سال سے نہیں مل رہے۔۔ اس بڑے اخبار کی اساس تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان ہے۔

آج جو حادثاتی طور پہ اس اخبار کی مالک بن بیٹھی ، اس کا نظریہ صرف ایک ہے کہ دولت کماﺅ۔۔ پاکستان کیا ہے اور نظریہ پاکستان کیا؟۔۔ میری بلا سے۔۔ تمام مستقل ملازمین نکال باہر کیے۔ان کے بقایا جات ہضم کر گئی۔

جو موجودہ ملازمین ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اور کیوں مگر یہ سب کے سب ایک سال سے بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔۔ یعنی اس خاتون نے اس اخبار کو بیگار کیمپ میں بدل کے رکھ دیا۔ ورکر تنخواہ مانگے تو وہ اس کا جرم بن جاتا ہے اور اسے ملازمت سے برخاستگی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔

ایک اور ٹی وی چینل میں کام کرنے والے ایک پروڈیوسر کا کل میسج آیا جس نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔۔ وہ ایک سال سے نوکری سے فارغ ہے۔ اس کے دو بچے اس کے گھر میں آنے پر اس کی طرف دیکھ کر خوش ہوئے کہ باپ شاید کھانے کو کچھ لایا ہو لیکن وہ خالی ہاتھ تھا۔

وہ اپنے خالی ہاتھوں کو مسلتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو اس کی اہلیہ نے بچوں کو کہانی میں لگانے کی کوشش کی لیکن وہ بچے کہانی نہیں سننا چاہتے تھے، کئی روز سے بس کہانیاں ہی سن رہے تھے۔ کھانا کھانے کے لیے رشتے داروں کے گھر بھی کم پڑ چکے ہیں ۔

روز روز کیسے کوئی عزیز و اقارب کے گھر بن بلائے پہنچ جائے؟۔ صبر کا بندھن ٹوٹا تو وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔ مجھے فون نہیں کر سکتا تھا کیونکہ بیلنس نہیں تھا، ایک دوست کے وائی فائی کے ذریعہ فیس بک میسنجر پہ میسج کیا۔ میسج کیا تھا یوں سمجھئے کہ دل پہ آری ہی چلا دی۔

اب تک میں اس تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کر رہا ہوں، جو میرے اس دوست نے اٹھائی ہو گی یا میرے والد کے اس عظیم ساتھی نے اٹھائی ہو گی۔۔ اور صرف یہ دو افراد نہیں مجموعی طور پہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے تمام میڈیا اداروں میں یہی صورتحال ہے۔

وجہ یہ نہیں ہے کہ بزنس نہیں ہے یا مالکان میڈیا غریب ہو گئے ہیں بلکہ وہ تو اسی طرح پھل پھول رہے ہیں۔ ایک اخبار کی جگہ دو تین اخبارات ہیں، ایک چینل سے چار چینل بن چکے ہیں، اس حکومت نے نہ صرف خود اشتہارات دیئے ہیں بلکہ پچھلی حکومتوں کے ایک ارب روپے سے زیادہ کے بقایا جات بھی ادا کر دئیے ہیں۔

اس کے باوجود ایک ایسا پیغام ان میڈیا مالکان اور ورکرز کی تنظیموں کو پہنچایا گیا ہے جس پہ وہ سب راضی بھی ہو گئے ہیں، اسی لیے اب دفاتر سے جبری برطرفیوں پہ کوئی آواز نہیں اٹھاتا، تنخواہوں کی کٹوتی یا عدم ادائیگی پہ شور نہیں اٹھتا بس جنازے اٹھ رہے ہیں۔ہم نے فصیح الرحمان اور سردار جہانزیب کی جوان موت دیکھی ہے۔

اگر حکومت، میڈیا مالکان اوران کی پاکٹ یونینز کا گٹھ جوڑ یوں ہی چلتا رہا تو خدانخواستہ بہت سے صحافیوں کے ساتھ یہی ہونے والا ہے کیونکہ سچے صحافی کو خبر کے علاوہ کچھ کرنا آتا بھی نہیں۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ :شہریاریاں ڈاٹ کام

%d bloggers like this: