اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حالِ دل بس اتنا ہے||حیدر جاوید سید

عرض کیا ۔ میں جو ہوں اپنی مرض سے بنا ہوں میرے والد مجھے عالم دین اور جماعت اسلامی بنانا چاہتے تھے ۔ لیکن میں نے کتابوں سے دوستی کر لی قلم مزدوری کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ جماعت اسلامی سے سات ہزار کلو میٹر کا فاصلہ رکھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاوید سید
نصف شب کے بعد سے نیند نہیں آرہی (سویا تو پہلے بھی نہیں تھا ) خواب گاہ سے اٹھ کر لائبریری میں آبیٹھا ہوں ۔کتاب کھولی تو حروف کی جگہ تصویریں دکھائی دیں۔
یہ پچھلے اکیس برسوں کی تصاویر ہیں ۔ ایک ابھرتی ہے پھر دوسری آنکھیں نم ہو رہی ہیں۔
عجیب سی بے کلی ہے بالآخر صبح کی تازہ روشنی نے آخرِ شب کے اندھیرے کو کاٹ دیا۔ کچھ آوازیں دستک دیتی ہیں۔ تصویریں ابھرتی ہیں۔
زندگی یہی ہے ‘ گھر اور دامن خالی ہیں۔ ویرانی سی ویرانی ہے ماں باپ کا حصہ بس اتنا ہی ہے ۔ زندگی آگے بڑھتی ہے اور اولاد بھی۔
ہمیشہ یہی عرض کیا میری بیٹیاں میرا فخر اور زندگی ہیں۔ زندگی کی ساری رونقیں بیٹیوں کے دم سے ہیں۔
پچھلے ماہ فاطمہ(میری بیٹی) کا میڈیا سٹڈی آنرز کا رزلٹ آیا تھا۔ بیٹی نے امتیازی حیثیت سے آنرز مکمل کیا۔ گھر ‘ من اور دامن خوشیوں سے بھر گئے ۔
گزری شب کے دوسرے حصے میں گھر اور دامن خالی ہوئے آگے بڑھنے کے لئے بیٹی رخصت ہوئی۔ شب کے آخری حصے میں تین پچپن پر جہاز نے اڑان بھری ۔ بھیگی آنکھوں سے ہم ایئرپورٹ سے گھر لوٹ آئے ۔
بہتر مستقبل اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بیٹی کی خواہش پر اسے رخصت کیا۔ اس عمر میں جب ہمیں اپنے اگلے سانس کا بھروسہ نہیں ”دم آئے یا نہ آئے”
سات سمندر پار روانہ ہوئی بیٹی نے ہمیں سنبھال رکھا تھا۔ جہاز کے اڑان بھرنے سے قبل اس نے فون پر کہا
”بابا جانی میں ہر پل آپ کے ساتھ ہوں ایک کلک پر۔ اچھا بابا دو کام لازمی کیجئے گا۔ وہ کیا جان بابا!۔آپ اور ماماں دوائیاں وقت پر کھا لیا کیجئے ۔ ماماں کی ادویات کا میں نے چارٹ بنا دیا ہے آپ کی ادویات آپ کی رائٹنگ ٹیبل پر رکھ آئی ہوں اور کوشش کیجئے گا رات کو جلدی سوجایا کریں ۔ دن میں بھی کچھ دیر آرام کرلیا کیجئے ۔
اربے ہاں بابا! کل ایکسرے کروالیجئے گا شام میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے ۔ اس کے چند منٹ بعد پیغام موصول ہوا جہاز پرواز کے لئے تیار ہے ۔ آپ نے پریشان نہیں ہونا ۔تعلیم مکمل ہوتے ہی لوٹ آئوں گی۔
مجھے اب بیٹی کی ہدایات کی روشنی میں معمولات کوترتیب دینا ہے ۔ پچھلی شب آنکھوں میں کٹ گئی ۔ ایک کتاب کے چند اوراق پڑھ سکاتھا پھر حرف تصویریں بننے لگے تو کتاب بند کر دی ۔
21برس کی باتوں کو یاد کر رہا ہوں۔ اس سے بات کرنے کے لئے ہمیں مزید ساڑھے اٹھارہ گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔ میری خوشی کی دو وجوہات ہیں بڑی بیٹی کی طرح فاطمہ نے بھی ابلاغیات کے شعبہ میں تعلیم کو ترجیح دی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے بعد لائبریری ردی میں فروخت نہیں ہو گی۔
کتابوں کا کیا کرنا ہے یہ لکھ کے رکھ چھوڑا ہے فرض بیٹیاں ادا کر لیں گی۔
کتابیں اور کافی میری طرح فاطمہ کو بھی پسند ہیں دوران سفر پڑھنے کے لئے دو تین کتابیں ساتھ لے گئی ہے مجھے سید ابو الحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آئے ۔ ارشاد ہوا
”اولاد کی تربیت ان کے زمانے کے مطابق کرو اپنے زمانے کے مطابق نہیں”
سر تسلیم خم ہم نے ایسا ہی کیا۔ ایف ایس سی کے بعد تعلیم کے شعبہ کا انتخاب اس نے خود کیا۔ میڈیا سٹڈی میں داخلہ پر بہت خوش تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا بابا کی جان اس ملک میں نظریاتی صحافت اور صحافتی اقدار دونوں کا کوئی مستقبل نہیں۔
اس نے رسان سے کہا بابا میں فیچر فلمیں بنانا چاہتی ہوں۔ ہمارے ارد گرد جو ہو رہا ہے اور جو بیت گیا۔چھوٹی چھوٹی فلموں کے ذریعے اسے دنیا کے سامنے رکھوں گی ۔ میرے حصہ کا کام یہی ہے ۔
ایک باپ اور دوست کی حیثیت سے مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی کے خواب تعبیروں سے قبل چوری نہیں ہوں گے ۔ ہماری نئی نسل حقیقت پسند ہے یہی اچھی بات ہے
ایئرپورٹ سے واپسی کے سفر میں نصف بہترکہہ رہی تھیں۔ میں فاطمہ کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں جواباً صرف یہی کہہ پایا وہ علم اور اچھے دنوں کی تلاش میں گئی ہے اب ہمارا کام دعائیں کرنا ہے ۔
کچھ دیر قبل میں نے مالک ارض و سماں کا شکر ادا کیا اچھے والدین نصیب ہوئے ۔ تو محبت اور تربیت کرنے والی آپا بھی بہت اعلیٰ ظرف خاتون تھیں ۔
دوست اچھے ملے موسموں اور حالات کی پرواہ کئے بغیر انہوں نے استقامت سے میرا ساتھ دیا اور حوصلہ بڑھایا۔ بیٹیاں میرافخر بھی ہیں وقار اور طاقت بھی ‘
بہت سال ہوتے ہیں کسی نے سوال کیا تھا۔ کیا اچھا لگتا ہے ؟
عرض کیا
‘ دوست ‘ کتابیں اور بیٹیاں ‘ میرا کل سرمایہ حیات یہی ہے سچ پوچھیں اگر آج بھی مجھ سے کوئی پسند وناپسند دریافت کرے تو یہی عرض کروں گا ۔
دوست ‘ کتابیں اور بیٹیاں مجھے پسند ہیں۔
شخصی آمریت ‘ تعصبات اور چار اٙور دندناتے پھرتے چھوٹے چھوٹے سامراجی مزاج بوزنے شدید ناپسند ہیں۔
ایک دن مجھ سے میرے ایک عزیز نے کہا ‘ حیدر بھائی! آپ اپنی بیٹیوں کو ڈاکٹر بناتے ان میں قابلیت بھی تھی ۔
عرض کیا ۔ میں جو ہوں اپنی مرض سے بنا ہوں میرے والد مجھے عالم دین اور جماعت اسلامی بنانا چاہتے تھے ۔ لیکن میں نے کتابوں سے دوستی کر لی قلم مزدوری کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ جماعت اسلامی سے سات ہزار کلو میٹر کا فاصلہ رکھا۔
بیٹیوں پر اپنی رائے مسلط کیوں کروں۔ انہیں حق ہے من پسند شعبہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔
اماں ( ہماری امڑی ) کہا کرتی تھیں مالک سب کی بیٹیوں کو اپنی امان میں رکھے ہماری بھی یہی دعا ہے۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: