اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان طالبان کو لگے طاقت کے انجکشن اور پاکستان کی مشکلات|| محمود جان بابر

افغانستان میں ظاہر شاہ کے خلاف ہونے والی بغاوت انتہائی بے قاعدہ تھی۔ داؤد کے ساتھ فوج کے بیشتر افسران تھے۔ اور بالآخر افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے داؤد خان جمہوریہ افغانستان کے پہلے صدر بنے۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ طالبان کی بڑھتی پیش قدمی ان خدشات کو جنم دے رہی ہے کہ شاید ایک مرتبہ پھر وہ ملک میں اقتدار حاصل کر لیں گے۔

افغانستان اُس جمہوریت سے دور ہوتا نظر آ رہا ہے جس کی بنیاد آج سے ٹھیک 49 برس قبل محمد داؤد خان نے افغانستان کے آخری بادشاہ اور اپنے چچازاد بھائی محمد ظاہر شاہ کو تخت سے محروم کر کے رکھی تھی۔

ظاہر شاہ کی بادشاہت کو ختم کرنے والے محمد داؤد خان پانچ برس برسراقتدار رہے اور آخرکار اپریل 1978 کو کابل میں ’انقلاب ثور‘ کے دوران اپنے اہلخانہ سمیت مارے گئے۔

افغانستان میں ہونے والی بغاوتوں، خانہ جنگیوں اور خون ریزی کے واقعات کو سمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ افغانستان میں بادشاہت کے ختم ہونے اور جمہوریت کی بنا ڈالنے کے اس بڑے واقعے کو تاریخی پس منظر میں سمجھا جائے۔

خاندانی تشکیل اور معاشرتی نقشہ

افغانستان کی تاریخ کے اِس اہم ترین موڑ پر معروف تاریخ دان ڈاکٹر حسن کاکڑ نے اپنی پشتو زبان میں لکھی گئی کتاب میں افغانستان کے شاہی خاندان اور ظاہر شاہ کے خلاف محمد داؤد کی اس بغاوت میں ملوث کرداروں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔

افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ نادر شاہ کے بیٹے تھے جبکہ داؤد خان ان کے چچا سردار عزیز کے بیٹے تھے۔ سردار عزیز جرمنی میں سفیر تھے اور وہیں پر اُن کو قتل کیا گیا تھا۔ محمد داؤد کی اہلیہ زینب ظاہر شاہ کی بہن تھیں۔

ظاہر شاہ،

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنظاہر شاہ کی ایک پورٹریٹ

اس طرح اگر دیکھا جائے تو ظاہر شاہ اور داؤد خان نا صرف چچا زاد بھائی تھے بلکہ ان میں بہنوئی کا رشتہ بھی تھا۔

ڈاکٹر حسن کاکڑ لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے افغانستان کی تاریخ میں کسی نے اس طریقے سے حکومت حاصل نہیں کی تھی جیسے محمد داؤد نے اپنے چچا زاد بھائی کا تخت الٹ کر حاصل کی۔

ماضی میں حکمران خاندانوں میں ایک دوسرے کی چھینا جھپٹی لگی رہتی تھی لیکن ظاہر شاہ کے خلاف محمد داؤد کی طرز پر ہونے والی ’بغاوت‘ افغانستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ ظاہر شاہ کی بادشاہت کے دور میں داؤد خان نے سنہ 1953 سے 1963 تک بطور ’شاہی وزیر اعظم‘ 10 برس تک خدمات سرانجام دیں اور بعد ازاں سنہ 1973 میں انھی کا تختہ الٹ کر وہ ملک میں پہلے جمہوری صدر بنے۔

اس بغاوت کے عوامل اور اس میں شامل لوگوں کے بارے میں ڈاکٹر حسن کاکٹر کا مؤقف ہے کہ محمد داؤد کی 10 سالہ وزارتِ عظمیٰ (1953 سے 1963) کے دور میں بہت سے تعلیم یافتہ افغانوں نے حکومتی اداروں اور فوج و انٹیلیجنس میں شمولیت اختیار کی۔

فوج کی کُل تعداد ایک لاکھ تھی جسے جدید اسلحے سے لیس کیا گیا اور اس ادارے میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیا جنھوں نے سوویت یونین کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی تھی اور اُن میں زیادہ تر لوگ افغانستان میں بادشاہی نظام کے خلاف بھی تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں کے دل میں بادشاہ کے نظام کا کوئی خوف نہ تھا۔ ایسے میں حکومت سے باہر بیٹھے محمد داؤد کو ان فوجی افسروں کی مدد حاصل ہوئی جنھیں انھوں نے فوج میں اپنے دور اقتدار میں شامل کروایا تھا اور ایسے ہی افسران کی مدد سے انھوں نے اپنے ملک میں جمہوری نظام قائم کر دیا۔

محمد ظاہر شاہ کی تخت نشینی

قوم پرست رہنما افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ سنہ 1928 میں افغان بادشاہ امان اللہ خان کے خلاف جب بغاوت ہوئی تو ظاہر شاہ کے والد نادر خان نے امان اللہ خان کو واپس لانے کے نام پر جدوجہد کی اور کہا کہ وہ امان اللہ خان کو واپس لانے کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔

لیکن پھر انھوں نے بعد میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا جو سنہ 1929 سے 1933 میں اس وقت تک قائم رہی جب تک ایک طالب علم نے انھیں قتل نہیں کر دیا۔

اس کے بعد ان کے 12 سالہ بیٹے ظاہر شاہ کو تخت نشین کیا گیا تاہم حکومتی معاملات چلانے کے لیے ان کے چار چچا وقتاً فوقتاً اُن کی سرپرستی کرتے رہے جن میں ایک شاہ ولی خان تھے، جنھیں مارشل کا خطاب دیا گیا۔

ظاہر شاہ کے دیگر دو چچا ہاشم خان اور عزیز خان تھے، جن میں عزیز خان سردار داؤد خان کے والد تھے۔

محمد داؤد

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنداؤد خان چاہتے تھے کہ وہ شاہی وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد عوامی حمایت سے واپس آئیں

محمد حسن کاکڑ لکھتے ہیں کہ ظاہر شاہ کے 40 سالہ دور میں زیادہ تر اختیار ان کے چچاؤں کے پاس رہا۔ پہلے ان کے چچا محمد ہاشم طویل عرصے تک وزیرِ اعظم رہے اور ظاہر شاہ کی سرپرستی کے نام پر اختیار استعمال کرتے رہے۔ اس کے بعد اختیار ان کے دوسرے چچا شاہ محمود کے پاس چلا گیا اور یوں تقریباً 30 سال تک ظاہر شاہ کو بطور بادشاہ حاصل اختیار ان کے چچا استعمال کرتے رہے۔

ظاہر شاہ پشتو نہیں بول سکتے تھے جو افغانستان کی اکثریت کی زبان تھی۔ بعض تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ پشتو کو ناپسند بھی کرتے تھے۔

ظاہر شاہ نے داؤد کے استعفے کے بعد افغانستان کو وہ جمہوری آزادی اور دستور دیا جو کسی اور کے دور میں ممکن نہ ہو سکا تھا۔ انھوں نے سید شمس الدین مجروح کی سربراہی میں جمہوریت پسندوں، ماہرین قانون اور دیگر ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن بنایا۔

یہی وہ وقت تھا جب اس کمیشن کے ذریعے بننے والے آئین کی شق نمبر 24 متعارف کروا کر حکومت میں شاہی خاندان کے لوگوں پر راستے بند کیے گئے۔ محمد حسن کاکڑ لکھتے ہیں کہ محمد داؤد کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ظاہر شاہ اور محمد داؤد کے تعلقات اتنے خراب بھی نہ تھے کہ حکومتی کام ہی رُک جائیں۔

ان دونوں نے افغانستان کے لیے مل کر جو کام کیا وہ کسی بھی اور دور سے زیادہ تھا تاہم ان کے بیچ تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب ظاہر شاہ نے محمد داؤد کا راستہ روکنے کے لیے آئین میں شق متعارف کروائی۔

ظاہر شاہ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنظاہر شاہ کی سنہ 2002 میں افغانستان واپسی

ظاہرشاہ اور محمد داؤد کے تعلقات میں تلخی

ظاہر شاہ اور محمد داؤد کے تعلقات ہمیشہ سے خراب نہیں تھے بلکہ ابتدا میں وہ ایک دوسرے کے کافی قریب تھے۔ داؤد خان قوم پرست تھے اور ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر وہ سخت گیر مؤقف رکھتے تھے اور سرحد کی دونوں جانب پختونستان کے قیام کے حامی تھے۔ لیکن ظاہر شاہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان جیسے ہمسائے کے ساتھ معاملات خراب کیے جائیں۔

ظاہر شاہ ملک میں نیم آئینی جمہوریت کے تحت ایک ایسی حکومت بنانے کے خواہاں تھے جس میں شاہی خاندان، منتخب وزیر اعظم اور دیگر ماہرین مل کر ملک چلائیں مگر داؤد خان یہ نہیں چاہتے تھے۔

داؤد نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری سال میں ظاہر شاہ کو خط بھی لکھا کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت نافذ کریں، لیکن ظاہر شاہ نے اُن کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا اور پھر داؤد خان نے شاہی وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفی دے دیا۔

اس کے پس پردہ ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ بطور ایک قومی رہنما کے لوگوں کی حمایت کے ساتھ پھر سے اقتدار میں آئیں۔

کابل یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر ذاکر جلالے کہتے ہیں جب داؤد خان نے ظاہر شاہ کے خلاف کھلم کھلا بغاوت شروع کی تو اُن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اور انھیں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوئے بھی 10 سال ہو چکے تھے۔

ذاکر جلالے کے مطابق ظاہر شاہ بہت پُرسکون رہنے والے شخص تھے جو تنازعات سے دور بھاگتے تھے جبکہ داؤد اس کے بالکل برعکس تھے۔ ’داؤد قوم پرست بھی تھے اور متحرک بھی، یہی وجہ تھی کہ ظاہر شاہ نہیں چاہتے تھے کہ سردار داؤد کی متحرک شخصیت کی بدولت معاملات خراب ہوں۔‘

ذاکر جلالے

،تصویر کا ذریعہZAKIR JALALY

مگر بالآخر سنہ 1973 میں داؤد خان نے پرچم پارٹی، جو پی ڈی پی اے کہلاتی تھی، کی مدد سے داؤد خان کی بادشاہت کا خاتمہ کیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت سرد جنگ جاری تھی اوردنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی اور افغانستان کا جھکاؤ سوشلسٹ بلاک کی طرف تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں یہ سب کچھ روس کی مدد کے بغیر نہیں ہوا ہوگا۔

داؤد خان صدر کیوں بنے؟

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ ظاہر شاہ اور اُن کے چچاؤں کے ادوار میں افغانستان میں مطلق العنان بادشاہتیں تھیں جس میں ریاست کے عام اصولوں کے خلاف بادشاہت کے نمائندے خود ہی انتظامیہ اورعدلیہ ہوتے تھے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں ظاہر شاہ اور اُن کے چچا زاد بھائی اکٹھے ایک نئی نسل کے طور پر جوان ہوئے۔ داؤد خان اصلاحات کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ نظام میں تبدیلی آئے۔

کابل میں جب جوانوں میں تحریک شروع ہوئی تو اس نے بادشاہت کی بنیادوں کو بھی ہلایا اور کابل میں مظاہرے ہوئے۔ اس تحریک کا راستہ روکنے کے لیے شاہی خاندان کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ انھیں شاہی خاندان میں سے کسی ایسے شخص کو آگے لانا چاہیے جو نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کر سکے اور افغانستان کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق چلایا جا سکے۔

اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 1952 میں داؤد خان کو وزیر اعظم بنایا گیا۔

محمد داؤد خان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنمحمد داؤد خان 1958 میں امریکہ کے دورے پر

داؤد ماضی میں اس فرضی سے عہدے پر براجمان رہنے والے وزرائے اعظم سے مختلف تھے۔ ان سے قبل اس عہدے پر فائز رہنے والے لوگ بادشاہ کے سیکریٹری کے طور پر کام کرتے تھے۔

داؤد خان کا افغانستان کی خارجہ پالیسی میں بھی ہاتھ تھا، افغان فوج کے لیے تربیت کا معاملہ بھی انھی کے دور میں طے پایا اور انھوں نے تعلیمی میدان میں بھی اصلاحات کیں اور خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔

اصلاحات اور شاہی خاندان میں گروپ بندیاں

ان اصلاحات نے خود شاہی خاندان کے اندر بعض جگہوں پر بے چینی کو جنم دیا۔ ایک گروہ کی قیادت خود داؤد خان کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف بادشاہ ظاہر شاہ کے داماد عبدالولی تھے جنھیں اپنے سسر ظاہر شاہ کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔

ایک طرف شاہی خاندان کے اندرونی حالات یہ تھے تو دوسری جانب پاکستان کے ساتھ بھی افغانستان کے تعلقات اتنے بہتر نہ تھے۔

جلد ہی ظاہر شاہ کو احساس ہوگیا کہ ملک میں اصلاحات ناگزیر ہیں لیکن وہ اس کا کریڈٹ داؤد خان کو نہیں دینا چاہتے تھے۔ ظاہر شاہ نے داؤد خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا اور اصلاحات کا عمل شروع کیا جس کی وجہ سے 1964 کا آئین بھی وجود میں آیا۔

داؤد خان کو ہٹانے کے بعد ظاہر شاہ نے ایک آئین ساز کمیشن تشکیل دیا۔ جو پہلا آئین وجود میں آیا وہ افغانستان میں نیم جمہوریت کا جمہوریت کی جانب پہلا تجربہ تھا، لیکن یہ شاہی خاندان کے لیے آسان نہ تھا کیونکہ شاہی خاندان میں کچھ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ انھیں حاصل اختیارات میں کوئی شریک بنے۔

جمہوریت میں شاہی خاندان کی مداخلت

یہ وہ دور تھا جب افغان معاشرے میں تعلیم بڑھ رہی تھی، فوج تشکیل پا رہی تھی اور آہستہ آہستہ حالات بدل رہے تھے۔ تعلیم بڑھنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مڈل کلاس بھی وجود میں آنے لگی اور وہ فوجی افسر جو روس میں تربیت حاصل کرنے کے دوران روسی زبان سیکھ چکے تھے وہ مارکسزم کی طرف مائل ہوگئے۔

ملک میں 1963-73 کے عشرے کو ’عشرہ جمہوریت‘ کہنا شروع کیا گیا، مگر اس عمل کا فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔

آئین متعارف تو ہوا لیکن پھر بھی اندرونی اور بیرونی عوامل اثرانداز ہوتے رہے۔ شاہی خاندان جمہوریت کا عادی نہیں تھا۔ بادشاہ کے داماد عبدالولی بہت سے معاملات میں مداخلت کرتے رہے، سفیروں کو اپنے پاس بلاتے جس سے ان کی ہتک ہوتی۔

دوسری جانب پاکستان میں مارچ 1973 میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کی اور گرفتاریاں شروع کیں۔ اس پر افغانستان کے نوجوانوں میں ردعمل ہوا اور عوام نے کہا کہ افغانستان کا بادشاہ اس معاملے پر کیوں خاموش ہے۔

محمد داؤد خان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنداؤد خان کی سنہ 2009 میں قبر کشائی کے بعد سرکاری اعزاز کے ساتھ دوبارہ تدفین کی گئی

آئین کا تعطل اور بغاوت کا طریقہ کار

افغانستان میں ظاہر شاہ کے خلاف ہونے والی بغاوت انتہائی بے قاعدہ تھی۔ داؤد کے ساتھ فوج کے بیشتر افسران تھے۔ اور بالآخر افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے داؤد خان جمہوریہ افغانستان کے پہلے صدر بنے۔

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ وہ مئی 1975 میں محمد داؤد سے ملے تو انھوں نے استفسار کیا کہ افغانستان میں ان کی متعارف کروائی گئی اصلاحات کے بارے میں پاکستان میں لوگ کیا کہتے ہیں اور اس کے کیا اثرات ہیں؟

’تو میں نے انھیں بتایا کہ پاکستان میں کسی کو پتہ ہی نہیں کیونکہ میڈیا نہیں بتاتا کہ آپ جوانوں اور تعلیم کے لیے کیا کر رہے ہیں۔‘

اس پر داؤد کہنے لگے کہ آپ کا میڈیا بھی عجیب ہے، جب میں وزیرِ اعظم تھا اور سردار تھا تو مجھے کامریڈ داؤد خان کہتے تھے اور اب جب خود کو سردار نہیں کہتا تو مجھے سردار لکھتے ہیں۔

جب محمد داؤد کو 28 اپریل 1978 کو کابل میں حملے کے دوران کمیونسٹ پارٹی نے خاندان سمیت قتل کیا تو زبان زد عام ہوا کہ انھیں اپریل 1977 میں دورہ ماسکو کے دوران برزنیف سے ملاقات میں یہ کہنا مہنگا پڑا ہے کہ وہ افغانستان کو کسی کے زیر تسلط رکھنے کو تیار نہیں اور وہ اپنے ملک کو آزاد رکھ کر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔

بشکریہ بی بی سی اردوڈاٹ کام

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

محمود جان بابر کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: