اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ سے رشتہ داری نہیں ہوتی صاحب!||حیدر جاوید سید

اعجاز الحق متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وفاقی وزیر رہے ۔ راولپنڈی سے انہیں کون رکن قومی اسمبلی بنواتا تھا یہ درون سینہ راز ہرگز نہیں ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس سے وہ آرائیں آرائیں کھیل کر جیتے ۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5جولائی1977ء کے المیہ کے ذمہ دار جنرل ضیاء الحق(آپ اس وقت آرمی چیف تھے) کے فرزند ارجمند اعجاز الحق نے جو خود بھی ایک عدد سیاسی جماعت مسلم لیگ شہید ضیاء الحق کے سربراہ ہیں۔ تیسرے مارشل لاء کی وجوہات پر مضمون لکھا اور ظاہر ہے یہ شائع بھی ہوا ‘ ہم اسے آزادی اظہار کا ایک رنگ کہہ سکتے ہیں کہ آئین توڑنے والے کے صاحبزادے کا موقف بھی پاکستانی ذرائع ابلاغ نے شائع کیا۔
دومارشل لاوں کے ذمہ داران جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف کے ورثا(یحییٰ خان کے صاحبزادہ آغا علی یحییٰ خان وفات پا چکے) نے سیاست میں قدم نہیں رکھا پہلے اور تیسرے مارشل لاء کے ذمہ دار جنرلز کے ورثاء سیاست میں ہیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی اولاد اپنی سیاسی زندگی کی چوتھی جماعت میں ہے اور پوتے ان دنوں وفاقی وزیر ہیں۔
اعجاز الحق متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وفاقی وزیر رہے ۔ راولپنڈی سے انہیں کون رکن قومی اسمبلی بنواتا تھا یہ درون سینہ راز ہرگز نہیں ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس سے وہ آرائیں آرائیں کھیل کر جیتے ۔
انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ
”میں نے پانچ جولائی کے فوجی اقدام کے حوالے سے پانچ جولائی کو اپنی رائے اس لئے نہیں دی کہ لوگ کہیں گے کہ تعصب کا مظاہرہ کر رہا ہے”۔
12جولائی کو ان کی جو رائے ایک مضمون کی صورت میں سامنے آئی اس پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک صاحبزادے نے اپنے والد کا دفاع کیا اور ” رج کے ” کیا
جنرل ضیاء الحق پاکستان کے آرمی چیف کیسے بنے یہ بات کبھی راز نہیں رہی فلسطینیوں سے پوچھ لیجئے وہ بلیک ستمبر کو یاد کرکے کیوں خون کے آنسو بہاتے ہیں ۔ جنرل ضیا کے علاوہ بھی بلیک ستمبر کا ایک اور کردار ہے وہ ہے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی
جنرل صاحب کی زندگی میں ہی اس تحریر نویس نے لکھا تھا کہ انہیں آرمی چیف بنوانے میں اردن کے شاہ حسین(اب مرحوم) کا کردار تھا وہ بھٹو صاحب کے دوست تھے انہوں نے بھٹو سے کہا کہ ان جیسا وفادار جنرل ہو ہی نہیں سکتا۔
خود جنرل ضیاء الحق نے اٹک سازش کیس میں عدالتی سربراہ کے طور پر سازش کیس کے ملزمان سے سوال جواب کے دوران جو فضائل بھٹو نے بیان کئے ان سے بھی وہ پسندیدگی کی امتیازی سند حاصل کر گئے ۔
پانچ جولائی 1977 کے حوالے سے ایک عدد اصل قصہ یہ ہے کہ پاکستان قومی اتحاد نامی سیاسی اتحاد بنوانے میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش تھے ۔1977ء کے اولین دنوں میں جب ڈیوس روڈ لاہور پر واقع مسلم لیگ ہاوس میں پی این اے کی تشکیل کے لئے یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ(یوڈی ایف)کا اجلاس ہو رہا تھا تو امریکہ اور برطانیہ کے سفارتکار اسی سڑک کے شملہ پہاڑی سے آغاز پر واقع ہوٹل میں موجود تھے اور رابطہ کار انہیں پل پل کی خبریں فراہم کر رہے تھے
یو ڈی ایف کو پی این اے میں تبدیل کرنے کے پیچھے غیر ملکی قوتوں کے ساتھ پاکستان کی بالادست اور بزغم خود مالک و مختار اشرافیہ کا بھی ہاتھ تھا۔
پی این اے کی تحریک کو بالکل اسی طرح ایک مقتدر حلقے نے سپورٹ کیا جس طرح تحریک انصاف کی اڑان میں رنگ بھرنے کے لئے اس حلقے کی نئی نسل تبدیلی والے اجتماعات میں شریک ہوتی رہی ۔
انتخابی نتائج پر تنازعہ کے بعد پی این اے نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا یہ بائیکاٹ امریکہ اور جنرل ضیاء کے ایما پر کیاگیا اگلے مرحلہ میں احتجاجی تحریک چلائی گئی پی
این اے کی اس تحریک کو مولانا شاہ احمد نورانی نے تحریک نظام مصطفی کا نام دیا ورنہ پی این اے کے 32مطالبات میں نکات میں نظام مصطفی کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ اسی تحریک کے دوران فاتح مشرقی پاکستان میجر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی جمیعت علمائے پاکستان کے نائب صدر بن کر احتجاجی جلسوں سے خطاب پھڑکایا کرتے تھے
اس تحریک نے ایک منصوبے کے تحت پاکستانی سماج میں پی این اے کے مخالفین کے لئے نفرت بڑھائی۔ ڈالروں والی تحریک اس تحریک کو قرار دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق ایک طرف حکومت کو اپنی حمایت اور دستور کے ساتھ کھڑے رہنے کی سینے پر ہاتھ باندھ کر یقین دہانیاں کرواتے رہے تو دوسری طرف ان کے دو ساتھی جنرل جیلانی اور جنرل چشتی پی این اے کے قائدین سے 24گھنٹے رابطہ رکھتے تھے اور یہ دونوں صاحبان صرف جنرل ضیاء کے رابطہ کار نہیں تھے بلکہ ” کسی اور "کے لئے بھی رابطہ کاری فرماتے تھے ۔
پیپلز پارٹی نے لاہور اور مظفر گڑھ میں دو جوابی جلوس اس وقت نکالے جب مصطفیٰ کھر پگاڑا لیگ چھوڑ کر واپس پیپلز پارٹی میں آگئے
پی این اے نے ان پر الزام لگایا کہ وہ پی پی پی کے کارکنوں کو مسلح کر رہے ہیں۔جنرل ضیاء الحق نے اس الزام کو چارج شیٹ کا حصہ بنایا۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پی این اے کے جلوسوں میں جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے کارکن مسلح ہو کر آئے تھے اسلحہ کی نمائش میں پہل پی این اے نے کی۔
جنرل ضیاء اس پورے عرصہ میں ڈبل گیم کرتے رہے ۔ جولائی 1977ء کا مارشل لاء داخلی حالات سے زیادہ امریکہ کی خواہش کا نتیجہ تھا اور بعد کے برسوں میں خطے اور ملک میں جو ہوا اس سے واضح ہو گیا کہ امریکہ نے ایرانی اور افغانی ا نقلاب ثور کے خلاف پیشگی بندوبست کر لیا تھا۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: