اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظرنامہ۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتا ’’موسم‘‘(13)||حیدر جاوید سید

اس کا مطلب بہت واضح ہے اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بھنوروں میں پھنسے بغیر صاف سیدھی بات سمجھی جاسکتی ہے اور ناسمجھنے والوں کیلئے دست دعا بلند کیجئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط 13
حیدر جاوید سید
صفی اللہ اورکزئی نے شکوہ کیا،
"آپ افغانستان کے حوالے سے جانبدارانہ موقف رکھتے ہیں۔ اسلامی نظام عدل اور امن و امان ہماری ترجیحات ہیں۔ آپ کے کالموں میں اسلام پسندوں کے لئے نفرت ہی نفرت بھری ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ افغانستان میں حکومت الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین سے اتنے ناراض کیوں ہیں مگر میں آپ پر واضح کردوں کہ آپ کے ہم خیالوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔ امریکہ بھاگ نکلا ہے، اشرف غنی اور کرائے کے دوسرے لوگ کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ اسلام کی حقانیت کو غالب لانے کا وعدہ اللہ کا ہے اور یہ وعدہ افغانستان میں پورا ہونے جارہا ہے‘‘۔
صفی اللہ اورکزئی (مجھے نہیں معلوم نام اصلی ہے یا پردے کے پیچھے کوئی اور ہے) کی چند سطری ای میل کا متن یہی ہے جو بالائی سطور میں لکھ دیا۔
پتہ نہیں اسلام کو افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں غالب لانے کا وعدہ اللہ نے کب کیا تھا۔
اقتدار کی کشمکش میں مذہب و عقیدوں کو ہتھیار بنانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آسمانی مذاہب ہوں یا زمینی، دونوں کے پیروکاروں کی بڑی تعداد نے مذہب کو ہمیشہ تجارت اور بالادستی کا ذریعہ بنایا جبکہ مسائل انسانیت کو بھگتنا پڑے۔
افغانستان میں اس تحریر نویس کا کوئی ہم خیال نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمارے ذرائع ابلاغ اور ’’کچھ دوسرے‘‘ تصویر کا صرف ایک رخ پیش کررہے ہیں ایک عامل صحافی کی حیثیت سے تصویر کا دوسرا رخ اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
عوام کے حق حکمرانی پر یقین کامل رکھنے والے کسی شخص کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ریاستی و غیرریاستی یا مذہبی بندوق برداری کی حمایت کرے۔
اسی سبب ان ’’مہربانوں‘‘ کی خدمت میں بھی جو افغانستان میں اقتدار عوام کا حق ہے کی ٹافیاں بیچ رہے ہیں یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ ” افغان عوام کے حق حکمرانی کا کھلے دل سے احترام کیجئے۔ اپنی پالیسیوں پر ازسرنو غور کیجئے اور یہ کہ پاکستانی سماج پر رحم بھی‘‘۔
عجیب بات یہ ہے کہ اپنے لوگوں کے فیصلے چرانے والے ہمیں سمجھاتے ہیں کہ افغانستان میں کیا ہونا چاہیے۔
ماسکو میں طالبان کے نمائندوں نے 85فیصد افغانستان پر قبضہ کا دعوی کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ کھوکھلا دعویٰ ہے ان دعویٰ بازوں کی زبان کے نیچے ایک اور زبان ہے۔
تہران میں کہہ رہے تھے کہ ہم قبضہ گیری کی حمایت نہیں کرتے، امن و استحکام کے حامی ہیں۔ ماسکو میں کہا چاہیں تو دو ہفتوں میں افغانستان پر قبضہ کرلیں۔ سمجھنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں بہت ہیں۔
ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں ’’طالبان کی سادگی پر نہ جائیں وہ ذہین لوگ ہیں‘‘۔ چند برس اُدھر جب جناب قریشی پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر خارجہ تھے تو ان کا موقف تھا
’’طالبان دہشت گرد ہیں انہیں نمائندہ قوت سمجھنا غلط ہوگا‘‘۔ آسمان اتنے رنگ نہیں بدلتا جتنے ہمارے افغان پالیسی ساز اور سامنے رکھے ترجمان بدلتے ہیں۔
سوویت امریکہ جنگ، جنیوا معاہدہ کے بعد والی خانہ جنگی، 9/11 کے بعد سے شروع ہوا تشدد یا اب اقتدار طلبی کا جنون، ان سب میں ’’جہاد‘‘ تلاش کرلینے والے ہمارے مرشد شاہ محمود قریشی کی طرح کے ذہین و فطین لوگ ہی ہیں
جس بنیادی سوال کو ہمارے پالیسی ساز روز اول سے نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ طالبان کی حمایت کرتے ہوئے اس بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اس طرح کے دوسرے گروپوں کی عسکریت پسندی کو غلط کیسے قرار دیا جائے گا وہ بھی تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور حکومت الٰہیہ کا چورن بیچ رہے ہیں۔
یہاں ایک اور بات عرض کردوں پچھلے چند دنوں کے دوران خیبر پختونخوا کے شہر پشاور سمیت چند علاقوں میں افغانستان سے میتیں آئی ہیں ان مرحومین کے جنازوں میں ہوئی نعرے بازی اور تقاریر میں کیے گئے دعوئوں کو پالیسی ساز ٹھنڈے دل سے سن لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ اگر ان ویڈیوز کو فیٹف میں ہمارے کچھ ’’مہربانوں‘‘ نے استعمال کیا تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟
گرے لسٹ میں تو پہلے سے ہی کھڑے ہیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پالیسی سازوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہادی کاروبار کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ ہمارے لئے مسائل پیدا نہ ہونے پائیں۔
فی الوقت یہی لگ رہا ہے کہ افغان و طالبان تہران مذاکرات بھی نتیجہ خیز نہیں بن پائے۔ ماسکو میں طالبان کے نمائندے سہیل شاہین کی پریس کانفرنس تو یہی سمجھارہی ہے۔
اس دوران طالبان نے چینی سرمایہ کاروں اور ورکرز کو تحفظ دینے کی گارنٹی دی ہے تاکہ چین افغانستان میں تعمیروترقی کا عمل شروع کرے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں چین کا افغانستان میں اہم کردار ہوگا۔ چینی وہی حکمت عملی اپنائیں گے جو انہوں نے روس سے مل کر شام میں اپنائی تھی البتہ افغان پالیسی میں چینیوں کا اتحادی روس نہیں ایران ہوگا۔
یہ بات حقیقت کے قریب تر تو ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے اور روس صدر پیوٹن کے اعلان کے مطابق افغانستان کی تاجک اور ازبک اکائیوں سے تعاون کرتا ہے تو معاملات نہ صرف یہ کہ گھمبیر ہوں گے بلکہ افغانستان کی نسلی تقسیم کے خطرات بھی دوچند ہوں گے۔
ایسا ہوتا ہے تو افغانستان کے پڑوسی ممالک بدلتے ہوئے حالات کے اثرات سے خود کو کیسے محفوظ رکھ سکیں گے؟
ہمارے یہاں اتاولے ہوئے تمام لوگوں کو اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کرلینا چاہیے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ نے گزشتہ روز کہا کہ ہم امن کے مخالف نہیں مذاکرات کے لئے سہولت کار ہیں اور یہ سہولت کاری قیام امن کے لئے ہی ہے۔ مزید کہا کہ بندوق فیصلہ نہیں کرسکتی۔
دونوں باتیں درست ہیں غور طلب امر یہ ہے کہ بندوق برداروں کو مال اعانت اور افرادی قوت فراہم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟
ادھر چینی وزارت خارجہ نے
’’امریکہ کو افغان مسئلہ کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انخلا کا عمل عجلت میں مکمل کیا جارہا ہے امریکہ اپنے جرائم کا ملبہ افغانستان کے پڑوسی ممالک پر ڈالنا چاہتا ہے‘‘۔
اسی دوران قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا ایک بیان سامنے آیا وہ کہہ رہے ہیں کہ
’’طالبان شراکت اقتدار پر راضی نہیں ہوں گے‘‘۔
اس کا مطلب بہت واضح ہے اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بھنوروں میں پھنسے بغیر صاف سیدھی بات سمجھی جاسکتی ہے اور ناسمجھنے والوں کیلئے دست دعا بلند کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: