اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظرنامہ۔دعوے اور حقیقت(12)||حیدر جاوید سید

تہران میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ایرانی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی یونس قانونی نے اور طالبان کے وفد کی قیادت شیر محمد عباس ستانکزئی نے کی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تہران میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ایرانی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی یونس قانونی نے اور طالبان کے وفد کی قیادت شیر محمد عباس ستانکزئی نے کی۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی۔ طالبان اور افغان نمائندوں کے مذاکرات والے دن (بدھ کو) بھارتی وزیر خارجہ بھی تہران پہنچے , ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات میں بھارتی وزیر خارجہ کاکہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں امن و ترقی کے لئے ہر ممکن مدد کو تیار ہے۔
افغان مذاکراتی عمل کے حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان رہنما جنگ کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنائیں، اختلافات بندوق کی بجائے بات چیت سے حل کئے جائیں تو یہ سب کے مفاد میں ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان امن عمل کو مذاکرات کے ذریعے ہی کامیاب بنایا جاسکتا ہے، تہران میں افغان مذاکراتی عمل کے اس پہلے دور میں ایرانی ہم خیال افغان شیعہ ہزارہ گروپ کے نمائندے مدعو نہیں تھے، کیوں؟ اس کی وضاحت تو ایرانی قیادت ہی کرسکتی ہے۔
دوسری طرف روسی صدر پیوٹن نے طالبان کے خلاف افغانستان کی تاجک و ازبک اکائیوں کی مدد کا عندیہ دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان تاجکوں کے ایک وفد نے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔
یہ اطلاع بھی ہے کہ بدھ کو ایرانی وزیر خارجہ نے روسی وزیر خارجہ سے ٹیلیفون پر بات کی اور انہیں افغان رہنمائوں میں مذاکرات پر اعتماد میں لیا۔
یہاں ایک اور دلچسپ بات جان لیجئے، مغرب اور ہمارے ذرائع ابلاغ 2جولائی سے اودھم مچائے ہوئے تھے کہ امریکی رات کی تاریکی میں کسی پیشگی اطلاع کے بغیر بگرام سے نکل بھاگے تھے ، لیکن پینٹاگون نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بگرام ایئربیس خالی کرنے سے 48گھنٹے قبل افغان قیادت کو باضابطہ طور پر آگاہ کردیا گیا تھا۔
بدھ کے روز ہی افغان صدر اشرف غنی نے کہا
’’مجھ سے مستعفی ہونے کی توقع رکھنے والے سو سال انتظار کریں میں مستعفی ہوں گا نہ ہتھیار ڈالیں گے۔ ہماری حکومت منتخب قانونی حکومت ہے‘‘۔
یہ درست ہے کہ افغانستان کے مستقبل کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔
یہ سوال اہم ہے کہ اگر امریکیوں نے بقول پینٹاگون بگرام ایئربیس سے رخصت ہونے سے قبل افغان حکام کو باضابطہ اطلاع دے دی تھی تو عالمی نشریاتی ادارے اور طفیلی اس بات پر کیوں مُصر ہیں کہ امریکی بغیر اطلاع کے نکل گئے۔
پینٹاگون کے وضاحتی بیان نے دوسروں کے ساتھ ’’آستانوں‘‘ کے مجاوروں پر بھی قیامت ڈھادی ہے کیونکہ ان کی روزی روٹی تو اسی سے بندھی تھی کہ امریکی بھاگ گئے۔
عظمت مجددی کہتے ہیں ’’امریکہ طالبان معاہدہ افغان عوام کی اکثریت کے لئے قابل قبول نہیں جس طرح امریکہ کا آنا غلط تھا اسی طرح قطر معاہدہ بھی غلط ہے‘‘۔
افغان امور کے تجزیہ نگار اور ہمارے دوست وسی بابا نے گزشتہ روز افغان صورتحال پر ایک طویل مضمون رقم کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ” طالبان کے ’’دعوت و ارشاد جلب و جذب کمیشن‘‘ کے امیر، امیر خان متقی مقامی سطح پر مختلف قبائل اور ان گروپوں سے مذاکرات کررہے ہیں جو طالبان کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔ انہوں نے ایک ترک ویب سائٹ ٹی آر ٹی کے حوالے سے لکھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو ہتھیار ڈالنے کے لئے گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی آمادہ کررہی ہے اس کے ساتھ ہی وسی بابا لکھتے ہیں کہ افغان سکیورٹی فورسز ایک حد تک پسپا ہوگی اور ہتھیار ڈالے گی۔ مزاحمت سکیورٹی فورسز بھی کرے گی‘‘۔
افغانستان میں اضلاع کی فتوحات کا ڈھول پیٹے جانے اور یہاں اس کے قصے بیان کرنے والے اگر کچھ وقت نکال کر افغانستان کی گورنریوں اور اضلاع کی حدود بارے سمجھ لیں تو ان کی صحت اور دانش کے لئے بہتر ہوگا۔
بدغیس شہر پر طالبان کے قبضے کے بعد دعویٰ کے جواب میں افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ شہر کے ایک حصہ پر حملہ ہوا ہے قبضہ نہیں۔
جعفر عطائی کہتے ہیں کہ فتوحات والی ویڈیوز زیادہ تر جعلی ہیں اور یہ طالبان کے سرپرستوں کے کارخانوں میں فلمائی گئی ہیں۔
ضروری نہیں ان کی بات سوفیصد درست ہو لیکن پروپیگنڈے محاذ پر بہرطور طالبان کو بالادستی حاصل ہے کیونکہ مغربی ذرائع ابلاغ بھی ان کے ہمنوا ہیں۔
یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ تہران میں افغان عمل کے حوا لے سے ہوئے مذاکرات کے پہلے دور میں افغان حکومت کے وفد میں تاجک ازبک اور شیعہ ہزارہ کے نمائندے شامل تھے ،
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ شیعہ ہزارہ دو حصوں میں تقسیم ہورہے ہیں ایران نواز ہزارہ کے وفد نے گزشتہ دنوں ’’دعوت ارشاد‘‘ کمیشن کے سربراہ امیر خان متقی سے ملاقات کی تھی۔ دوسرا گروپ افغان حکومت کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔
صورتحال خاصی دلچسپ بنتی جارہی ہے۔ منقسم ہزارہ شیعہ قبیلے کے یورپی ممالک میں مقیم خاندان امیرخان متقی سے روابط پر برہم ہیں۔
کوئٹہ میں بھی ہزارہ قوم پرستوں کا موثر گروپ یہ کہتا دیکھائی دے رہا ہے کہ فیصلہ سازی میں مداخلت درست نہیں ہوگی۔ افغان ہزارہ قبیلے کو کسی کی خوشی کے لئے نہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلے کرنے چاہئیں۔
اسی اثناء میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی ایک بیان سامنے آیا۔ قرشی کہتے ہیں
’’طالبان امن کا راستہ اختیار کریں، عوامی رائے کے بغیر حکمرانی دیرپا نہیں ہوتی‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں۔ امریکہ مذاکرات کے عمل میں شریک ہو نہ ہو، افغانوں کو مذاکرات میں ضرور بیٹھنا چاہیے‘۔
جناب قریشی کوکوئی بتائے کے دنیا بھر کے سنجیدہ حلقے یہی کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات اور مفاہمت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
البتہ یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ تشدد کا راستہ کس نے اختیار کیا۔
مکرر اس امر کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ افغان عمل کو کامیاب بنانے کی اولین ذمہ داری افغان رہنمائوں پر ہے انہیں دیکھنا اور سوچنا سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنے لوگوں کو کسی نئی جنگ کا ایندھن بناتے ہیں یا اس امر کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں کہ ایک حقیقی اور پائیدار امن افغانوں کا مقدر ٹھہرے اور وہ اپنے ہی وطن میں بے سروسامانی کا شکار نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: