اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی ادب کا تازہ کار محقق اور نقاد۔۔۔مرید عارف ||امین انجم

''عاشق بزدار دی شاعری اچ پورھیت طبقے دی وٹپ ملدی اے معاشرے دے مظلوم لوکیں دا ڈکھ درد انہاں دی شاعری کا سنجاپوں وصف اے عاشق بزدار کوں ستی قوم دا بہوں خفت اے او انہاں کو اگاہ کریندن جو تہادا پورھیا وزبر کھادی ویندے''

امین انجم

0333-6445003
amin.anjum5003@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سرائیکی زبان وادی سندھ کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے اور بر صغیر کی مقامی زبانوں میں منفرد اہمیت رکھتی ہے لسانی حوالے سے یہ امیر اور مکمل حروف تہجی کی مالک زبان ہے اس کے حروف تہجی میں اضافی حروف سوائے سندھی کے برصغیر کی کسی بھی زبان میں نہیں پائے جاتے چونکہ سرائیکی وسوں (وسیب) مسلسل حملہ آوروں کی زد میں رہی ہے اس لیے فاتح ہمیشہ مفتوح پر حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تشخص کو بھی مٹانے کی کوشش کرتا ہے سب سے پہلے ان کی ثقافت اور زبان پر حملہ آور ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کے ادب کو سطحی، بے مقصد اور فضول قرار دیتا ہے سرائیکی خطے کے ادب کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا جاتا رہا ہے

 سرائیکی زبان کبھی حکومتی زبان نہ ہونے کے باوجود موجودہ عہد تک اپنا تشخص نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنی حیثیت منوانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی زبانوں میں ایک نمایاں مقام بھی رکھتی ہے سرائیکی میں جدید شاعری کو عالمی سطح پر رکھا جا سکتا ہے جہاں تک نثر کی بات ہے اس میں بھی اب شاندار تخلیقات منظر عام پر آ رہی ہیں سرائیکی میں تحقیق و تنقید میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا لیکن اب تحقیق و تنقید میں بھی اچھے اچھے محقق و نقاد ابھر رہے ہیں جس سے سرائیکی تحقیق و تنقید کا باب روشن ہوتا نظر آرہا ہے جن میں ایک نوجوان محقق و نقاد مرید عارف ہیں

 مرید عارف سرائیکی نثر میں ابھرتا ہوا نوجوان ہے حالانکہ انہوں نے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا لیکن بہت جلد نثر کی طرف چل دیے نثر میں تحقیق و تنقید ان کا میدان ہے انہوں نے کچھ افسانے اور خاکے بھی لکھے ہیں ان کی پہلی تحقیقی کتاب ”سرائیکی مرثیے وچ نثر ” سال 2016میں شائع ہوئی جو 280صفحات پر مشتمل ہے مرثیہ سرائیکی کی سب سے قدیم صنف سخن ہے سرائیکی مرثیے میں شاعری کے ساتھ ساتھ شعراء اور ذاکرین نے اپنی بات کو تفصیل سے سمجھانے اور سننے والے تک اپنی بات کے مکمل ابلاغ کے لیے نثری ٹکڑوں یا تقریروں کو شامل کیا جس سے سرائیکی نثر میں بیش بہا اضافہ ہوا حسینی سرائیکی نثر اس وقت لکھی جا رہی تھی جب سرائیکی نثر خال خال تھی اگر اس حسینی نثر کو آج جمع کر کے شائع کیا جائے تو سرائیکی نثر کا دامن بھر جائے

 پہلی بار مرید عارف نے اس طرف توجہ کی اور 21نثر نگاروں کی ایک ایک نثری مجالس کو اپنی کتاب ”سرائیکی مرثیے وچ نثر ” میں جمع کیا اس میں پہلا نثر نگار غلام سکندر غلام 1802میں پیدا ہوا جبکہ آخری نثر نگار سید جعفرالزمان نقوی 2003میں فوت ہوا اس طرح سرائیکی نثر کی ارتقاء کو دیکھا جا سکتا ہے بقول معروف محقق جاوید اختر بھٹی ”مرید عارف نے دو سو برس سے زیادہ کا زمانہ اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے یہ کتاب اس وقت اہمیت حاصل کرے گی کہ جب سرائیکی زبان و ثقافت کا حوالہ آئے گا تو ہمیں اس کتاب کی ضرورت پیش آئے گی ” یہ نثر نگار اپنے دور کے بہت بڑے شاعر اور ذاکر بھی تھے

 اس کتاب میں غلام سکندر غلام، مولوی فیروز،مولوی محمود مولائی،سید علی شاہ چھینوی المعروف سیدن شاہ،میر سرائیکی سید گانموں شاہ واصف، مولوی نذر حسین ترک،آغا شرف حسین شاہ نقوی،غلام حسن شاہ تائب،غلام حیدر فدا،گل محمد عاشق ملتانی، قاضی خدا بخش محزون،غلام علی ناظم،نور محمد گدائی،مولوی غلا م علی لنگاہ،مولوی منظور حسین ترک،سید امام علی شاہ شفیق،فدا حسین مشکور جھنڈیر،مولوی اللہ بخش غمناک،نذر حسین ارشاد عباسی جھنڈیر،سید تصدق حسین شاہ شیرازی اور سید جعفرالزمان نقوی شامل ہیں

مرید عارف نے اس کتاب میں نثر نگاروں کے ذاتی کوائف جس میں ولدیت، سال ولادت و وفات،ذکر اجداد،جائے پیدائش،ترک سکونت (اگر کسی نے کی ہے)،تعلیم، استادوں اور شاگردوں کا ذکر، ان کی تحریر کردہ منشور، منظوم کتابوں کا ذکر کیا ہے یہ کتاب سرائیکی لسانیات کے ماہرین کے لیے انمول خزانہ ہے سرائیکی محقق و نقاد اور ماہر لسانیات محمد اسلم رسولپوری، مرید عارف کے بارے میں رقمطراز ہیں ” مرید عارف مرثیہ کا بہت زیادہ اور تفصیلی مطالعہ رکھتے ہیں اور ان کے پاس مرثیے کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے

اس لیے ان کا یہ انتخاب ادبی، فنی اور دوسرے تمام حوالوں سے معتبر اور مستند ہے میرے خیال میں ان کے اس کام کو بہت پذیرائی ملے گی ” مرید عارف کی دوسری کتاب ” کھرے اکھر” سرائیکی تحقیق و تنقید کے حوالے سے ہے جو سال 2017میں شائع ہوئی اس میں چار مضمون تحقیق اور گیارہ تنقید کے حوالے سے پائے جاتے ہیں تحقیق کے حوالے سے ضلع راجن پور کی شعری اور نثری روایت پر بہت اہم مضامین ہیں جن میں ضلع راجن پور میں سرائیکی ادب کے آغاز و ارتقاء پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے

اس کتاب میں بہت سے نا معلوم شعراء کرام اور نثر نگاروں کو ڈھونڈ نکالا گیاہے تحقیق کے دو اور مضامین میں قدیم سرائیکی مرثیہ گو شعراء غلام سکندر غلام اور مولوی فیروزالدین کے حالات زندگی اور ان کے کلام کے مختلف گوشوں کو قاری کے سامنے وا کرتے ہیں تنقید کے حوالے سے پہلا مضمون سرائیکی ڈوہڑے کے بادشاہ احمد خان طارق کی شاعری کے حوالے سے ہے

 اس مضمون میں احمد خان طارق کی شاعری کے موضوعات پر بحث کی گئی ہے کوٹ مٹھن کی شعری روایت میں خواجہ فرید کے بعد بہت سے نام آتے ہیں ان میں ایک نام معروف محقق ڈاکٹر شکیل پتافی کا بھی ہے” اکھ بے خواب عذاب ”ان کا شعری مجموعہ ہے مرید عارف کی کتاب” کھرے اکھر ” کا اگلا مضمون ڈاکٹر شکیل پتافی کے متنوع شاعری پہلو کو اجاگر کرتا ہوا نظر آتا ہے

 سرائیکی مزاحمتی شاعری کا سرخیل عاشق بزدار کا نام کچلے ہوئے طبقات اور سرائیکی وسیبی شناخت کے حوالے سے معتبری رکھتا ہے ان کی شاعری سرائیکی وسوں (وسیب) کا نوحہ ہے عاشق بزدار سرائیکی خطے کا یقینا نوحہ خواں ہے مرید عارف کی کتاب میں ایک مضمون ان کی متنوع موضوعات پر مشتمل شاعری پر ہے مرید عارف لکھتا ہے

 ”عاشق بزدار دی شاعری اچ پورھیت طبقے دی وٹپ ملدی اے معاشرے دے مظلوم لوکیں دا ڈکھ درد انہاں دی شاعری کا سنجاپوں وصف اے عاشق بزدار کوں ستی قوم دا بہوں خفت اے او انہاں کو اگاہ کریندن جو تہادا پورھیا وزبر کھادی ویندے”

معروف شاعر جاوید آصف کی شاعری پر مضمون کتاب کھرے اکھر میں پانچواں تنقیدی مضمون ہے جاوید آصف سرائیکی ادب کا آل راؤنڈر ہے انہوں نے شاعری، افسانہ،ناول اور تحقیق پر قلم اٹھایا ہے مرید عارف نے انہیں سرائیکی کا” کتھا کار” شاعر قرار دیا ہے

 مرید عارف نے ان کی شاعری میں وسیبی شناخت، اساطیر اور طبقاتی کشمکش کے موضوعات کو ڈھونڈ نکالا ہے ایک مضمون مصطفی خادم کی مزاحمتی شاعری پر ہے سرائیکی سفر نامے میں ”توبہ دے مسافر ”کو اہم مقام حاصل ہے یہ سفر نامہ دلبر حسین مولائی کا سعودی عرب، شام،ایران اور عراق کے سفر پر مشتمل ہے ایک مضمون اس سفر نامے کی خوبیوں کو اجاگر کر رہا ہے فریاد ہیروی پر مرید عارف کا مضمون بہت ہی شاندار جمشید ناشاد زمیں زاد شاعر کی غزل پر خوبصورت مضمون بھی اس کتاب کا حصہ ہے سرائیکی ادب میں عورت نے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے

 مرید عارف نے سرائیکی افسانہ نگار رابعہ خان کی کتاب ”ساہویں سول بسیرا ”میں ان کے افسانے کے موضوعات ”جو سرائیکی خطے کے مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں ”کو اپنے مضمون میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اس کتاب کا آخری مضمون سرائیکی غزل کے معتبر شاعر اقبال سوکڑی پر مشتمل ہے اقبال سوکڑی کی شاعری میں موجودہ عہد کے مسائل کیسے در آئے ہیں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مرید عارف کا اسلوب بیان دل کو موہ لیتا ہے سادہ زبان کا استعمال ان کی خوبی ہے

معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر شکیل پتافی رقمطراز ہیں ”مرید عارف کا اسلوب نہایت سہل اتے رواں اے انہاں دی زبان صاف اتے معیاری اے مرید نے تحقیقی مضامین کوں تحقیقی اصولاں دے مطابق تحریر کیتے تنقیدی مضامین کوں وی نہایت سلیقے دے نال لکھیے اے کتاب جتھاں سرائیکی ادب دے ودھارے دا باعث اے اتھاں سئیں مرید عارف دی شخصیت اتے انہاں دی ادیبانہ صلاحیت کوں سمجھن دا بہترین ذریعہ اے ” اس کے علاوہ مرید عارف کے بہت سے علمی و ادبی کا م ہیں جو بہت جلد چھپ کر سرائیکی قاری سے خوب داد وصول کریں گے ان کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ ”سرائیکی حسینی ڈوہڑے دی روایت ”سرائیکی مرثیے کے حوالے سے شاندار کام ہے ان کی ایک اور تحقیقی و تنقیدی کتاب ”ترکڑی ”بہت جلد چھپ کر آ رہی ہے مرید عارف کے جن مختلف موضوعات پر کام جاری ہیں ان میں غلام حیدر فدا کا قصہ ”نجمہ تے قیس” سرائیکی مرثیے دی روایت، سرائیکی حسینی لوریاں تے سہرے اور قبریں جاگدے لوک شامل ہیں مرید عارف اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی پی ایچ ڈی سکالر ہیں اورگورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فاضل پور میں بطور صدر شعبہ سرائیکی اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہیں

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: