اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

” تاریخ عید الاضحٰی اور قربانی کے جانور ” ||رمیض حبیب

جانور کو ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے کم سے کم اذیت پہنچے۔ عید پر جانور زیادہ ہونے کی وجہ سے جانور کو زبح کرنے میں مہارت رکھنے والوں کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قربانی کے جانور کو زبح کرنے سے پہلے خوب کھلایا پلایا اور گھومایا پھرایا جاتا ہے۔

 رمیض حبیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ہی دن میں دو اخباروں میں شائع کیا گیا روزنامہ کسوٹی پشاور اور روزنامہ اعتدال پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ سے ہٹ کر کچھ لکھا ہے.
تحریر : رمیض حبیب
عید الاضحٰی اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے کی تاریخ 10 ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے اس عید پر حلال جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے جسکی وجہ سے اسے عید قربان بھی کہا جاتا ہے . اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عید اور قربانی کی ابتدا کب, کہاں اور کس نے شروع کی. اسلامی لٹریچر میں ہے کہ
حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ حضرت ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو ﷲ کے حکم سےاس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ دیا جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔
اور عالم اسلام کا قبلہ ہے۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔
جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منھ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم ! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احساس کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین کا بیان ہے کہ خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔ یقینا قربانی نام ہے اپنی جان و مال کو راہ خدا میں اس طرح قران کر دینے کا جس طرح حضرات ابراہیم نے اپنی لاڈلی اولاد کو قربان کر دیا۔ یہ جذبہ ہر انسان کے دل میں بوقت قربانی موجود ہونا چاہٸے کہ وہ اپنی اولاد کو ذبح کر رہا ہے۔
ایک اہم بات لفظ بکرا عید اصل میں ” بقر ” عید ہے جو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گائے کے ہیں۔ ہماری کم علمی و کم فہمی کی یہ ہے کہ ” بقر ” کو بکرا کہتے چلے آ رہے ہیں۔
قربانی کے جانور کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے جسمانی نقص سے پاک ہو یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی تلاش میں ہوتا ہے کہ ہمیں صحت مند اور خوبصورت بکرے, بھیڑ, دمبے, اونٹ یا بیل ملیں۔
مالی استطاعت رکھنے والا ہر مسلمان اپنی طرف سے قربانی کر سکتا ہے۔ اور ایسے عید پر ایسے افراد اپنی پسند کے جانور خریدنے کے لیے مویشی منڈیوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں اور پھر اکثر واپسی قربانی کے اپنے پسندیدہ جانور کے ساتھ ہوتی ہے۔
کچھ لوگ موٹر سائیکل پر بھی تیسری سواری کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ اگر موٹر سائیکل چھوٹا پڑ جائے تو ایسے میں اس کے پیچھے مزید ایک ریل کی طرح کا اضافی ڈبہ لگا دیا جاتا ہے جس میں بڑے جانور بھی لائے جاسکتے ہیں۔
قربانی کے اہل جانور کا پتا اس کے دانت دیکھ کر بھی لگایا جاتا ہے۔ اگر اس کے دو بڑے دانت ہوں تو پھر اسے قربانی کے قابل سمجھا جاتا ہے ایسے جانور ’دوندا‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی دو دانتوں والا۔
بڑے جانور کی قربانی میں سات افراد حصہ لے سکتے ہیں جبکہ چھوٹے جانور کی قربانی ہر شخص کو الگ الگ کرنی پڑتی ہے۔ تاہم ایسے اجتماعی قربانی کی رسم ایسی ہے کہ جس میں اب بکرے کی قربانی میں بھی حصہ مل جاتا ہے۔
جانور کو ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے کم سے کم اذیت پہنچے۔ عید پر جانور زیادہ ہونے کی وجہ سے جانور کو زبح کرنے میں مہارت رکھنے والوں کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قربانی کے جانور کو زبح کرنے سے پہلے خوب کھلایا پلایا اور گھومایا پھرایا جاتا ہے۔

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: