اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سنبھالو‘ ہم جا رہے ہیں!||رسول بخش رئیس

امن معاہدے کیلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ سب ملکوں کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان پُرامن ہو‘ مستحکم رہے۔ خیر یہ تو ہوائی باتیں ہیں‘ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب بیس سال مکمل ہونے کو ہیں۔ امریکہ افغانستان میں آخرکار اپنی جنگی بساط لپیٹ کر واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ بہت سے مبصرین یہ بات بالکل درست کہتے ہیں کہ امریکہ سب کچھ عجلت میں کررہا ہے۔ رات کے اندھیرے میں جس طرح کلیدی اور بڑے فوجی اڈے بگرام کو خالی کیا‘ اس کی افغان حلیفوں کو اگلے روز خبر ہوئی۔ فیصلہ تو گزشتہ سال ہوا‘ اور پھر جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد مزید پکا ہوگیا‘ جس سے امریکہ اور نیٹو ممالک پر انحصار کرنیوالے افغان دھڑوں کی سب غلط فہمیاں دور ہو جانی چاہئے تھیں۔ التجائیں کرتے رہ گئے کہ مزید کچھ سال رک جائو‘ لیکن بڑی طاقتیں فیصلے کرتی ہیں تو پھر غلام حکمرانوں پر ترس نہیں کھایا جاتا۔ سب کو معلوم ہے کہ امریکہ کی افغان جنگ طوالت پکڑ چکی تھی۔ ہرسال طالبان زیادہ طاقتور ہوکر ابھر رہے تھے‘ اور ہر نوع کا تباہ کن اسلحہ اور حربی تدابیر استعمال کرنے کے باوجود ان کا پلڑا کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ مغربی طاقتوں میں ذرائع اطلاعات‘ تجربات اور سیاسی مکالمے کیلئے کئی فورمز‘ ادارے اور سیاسی دھڑے ہیں۔ یک رخی نہیں چلتی‘ حکومت کی رائے کو وزن دیا جاتا ہے‘ خصوصاً جب انکے فوجی میدانِ جنگ میں دوردراز کے ملکوں میں لڑرہے ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ مکالمہ اندر رہے۔ بات اس طرح نہ کریں کہ ملک تقسیم نظر آئے۔ ایسے میں فوج کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جنگوں میں عسکری قیادت کی رائے کواہمیت دی جاتی ہے‘ جوکچھ انہیں اپنے اہداف پورے کرنے کیلئے درکار ہوتا ہے‘ مہیا کردیا جاتا ہے۔ یہ سب جب 15 سال تک ہوتا رہا‘ اور طالبان کی طرف سے مزاحمت مزید بڑھتی چلی گئی تو افغان جنگ کا تنقیدی تجزیہ ہونا منطقی بات ہے۔
جون 2011 میں صدر اوباما نے اعلان کیا تھاکہ وہ امریکی فوجیں افغانستان سے بتدریج نکالنا شروع کردیں گے۔ وہ فوری طور پر گیارہ ہزار فوجی واپس گھر لے گئے تھے۔ مزید تئیس ہزار کچھ عرصے بعد وطن روانہ ہوگئے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کہہ چکے تھے کہ افغانستان کی جنگ فالتو‘ بیکار اور غیرضروری ہے۔ ایسے خیالات کسی ایک رہنما یا سیاسی جماعت تک محدود نہ تھے۔ ایسی باتیں بلند آواز میں ہر جانب سے سنائی دینے لگیں۔ حکومتی افغان دھڑوں کیلئے بہت وقت تھاکہ وہ قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی مذاکرات کرتے اور قابلِ عمل معاہدہ کرلیتے۔ ان کی عجیب ضد رہی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے‘ پہلے وہ ہتھیار ڈالیں‘ لڑائی سے توبہ کریں‘ آئینِ افغانستان‘ جو امریکیوں نے لکھا‘ کو مان لیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ سمجھ نہیں آتی کہ اشرف غنی‘ جو علمِ بشریات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں اور پیشہ بھی اعلیٰ امریکی جامعات میں معلمی کا رہا‘ اپنی اور دیگر ممالک کی تاریخ کو کیسے بھول گئے۔ ممکن ہے کچھ ایسی باتیں ہوں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ 2015 میں صدر اوباما نے پھرکی گھمائی۔ وہ افغانستان میں مامور کمانڈر کے جھانسے میں آگئے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ انخلا جاری رہا تو کابل انتظامیہ بھی گرجائے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تو انتخابی منشور ہی یہ تھاکہ فضول جنگوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے کہ قومی اسباب لٹ رہے ہیں۔ امریکہ کو پہلے رکھنا ہے اور اس کی تعمیرِنو کیلئے ضروری ہے کہ چین کے ساتھ مسابقت کیلئے اسے اندر سے مضبوط کیا جائے۔ وہ بھی اس نتیجے پرپہنچے کہ افغانستان کی جنگ سے عزت و احترام کے ساتھ جان چھڑالی جائے۔ سوویت یونین نے بھی 1988 میں ایسا ہی کیا تھا۔ یکطرفہ انخلا سے شکست کا تاثر نکلتا ہے۔ معاہدہ ہوتو کچھ عزت رہ جاتی ہے۔ باہمی اعتماد پیدا کرنے اور فریقین کو مذاکرات کی میز پرلانے میں ہم نے کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکہ تو معاہدہ کرنے میں اس قدر پُرجوش تھا کہ افغان حکومت کے اعتراضات کو یکسر مسترد کردیا۔ وہ طالبان کے اس مطالبے کے سامنے ڈھیر ہوگیا کہ افغان حکومت مذاکرات کا اس لئے حصہ نہیں ہو سکتی کہ وہ افغان عوام کی نمائندہ نہیں۔ مطلب یہی تھا کہ بیرونی سرپرستی میں بنی ہے۔ صدر اشرف غنی منہ دیکھتے رہ گئے‘ اور امریکیوں نے الگ سے طالبان کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ انہوں نے آئندہ کے سیاسی معاملات افغان حکومت اور طالبان پر چھوڑ دیئے۔
کیا امریکہ کو معلوم نہیں تھاکہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے مابین معاہدہ طے نہ پا سکا توخانہ جنگی ہوگی؟ بالکل معلوم تھا‘ مگر وہ اپنی قومی ترجیحات طے کر چکے تھے۔ امریکیوں نے علاقائی ممالک بشمول پاکستان سمیت کوششیں جاری رکھی ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔ دوحہ میں کئی دور ہوچکے ہیں۔ روس اور چین کے علاوہ حالیہ دنوں ایران میں بھی‘ مگر ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ افغانستان کی بالکل وہی حالت نظر آتی ہے‘ جو سوویت یونین کے انخلا کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ تب چار سال مزید جنگ جاری رہی‘ مگر جب حکومت کا آخری سہارا سوویت یونین ہی ٹوٹ گئی تو افغان فوج میں پھوٹ پڑگئی۔ دو باتیں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں۔ اگر نجیب اللہ کے ہاتھ مجاہدین کے خون سے نہ رنگے ہوتے تو مذاکرات ہو سکتے تھے۔ وہ اس زعم میں تھے کہ ماسکو اسلحہ‘ پیسے اور حربی ماہرین بھیجتا رہا تو وہ مجاہدین کو آگے نہیں آنے دیں گے۔ ایسا تعطل تھاکہ کوئی فریق فتح کے جھنڈے نہیں لہرا سکتا تھا۔ ایسی صورتحال حکومتوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ یہ مزاحمتی گروہوں کی حکمت عملی کی کامیابی کا اشارہ ہوتا ہے۔ دوسرے اقوامِ متحدہ کے سایے میں جو مذاکرات ہورہے تھے‘ اور حل دیا جا رہا تھا‘ اسے قبول کرلیتے‘ مگر خوف‘ اناپرستی اور ہوسِ اقتدار کے جذبات نے حکمت اور دانش مندی کا راستہ روک دیا تھا۔ میری رائے میں ہر ملک کے مسائل بھی اندرونی ہوتے ہیں‘ اور ان کا حل بھی اندرونی ہوتا ہے۔ حالات جنگوں سے اتنے بگڑ جائیں جیساکہ افغانستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے‘ تو باہر کی طاقتیں متحارب دھڑوں اور حکومت کوعقل کی راہ پہ چلنے کیلئے دستگیری کرسکتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ افغانستان کی حکومت ہو‘ طالبان یا ہمسایہ ممالک‘ سب کہتے ہیں ”جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں‘‘ اگر مذاکرات ہی حل ہیں تو پھر جنگیں کیوں؟ اسی لیے حصولِ اقتدارکی آئینی حدیں متفقہ طور پر معاشروں میں مقرر نہیں ہو پاتیں۔ سب فریق جنگ میں قتل و غارت جاری رکھتے ہیں اور امن کی موہوم باتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔
امریکہ اور افغان حکومت کا اب بھی خیال ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ نہیں کر پائیں گے‘ تین لاکھ کے قریب امریکہ کی تیارکردہ فوج طالبان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کابل یا دیگر بڑے شہر نہ سہی‘ اطراف میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ ہر جگہ مقابلے ہورہے ہیں۔ کہیں کہیں گھمسان کی جنگ کا سماں ہے۔ افغان‘ افغانوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں‘ وہ افغانستان‘ جس کو سنوارنے‘ پُرامن بنانے اور مستحکم کرنے کیلئے امریکہ نے اپنے علاوہ مغربی اتحادیوں کے ہزاروں فوجی جھونکے‘ 20سال جنگ کی‘ سب پینترے آزمائے‘ جب وہ جا رہے ہیں تو ملک خانہ جنگی کے دھانے پہ نہیں‘ اس میں گر چکا ہے۔ کوئی امن معاہدہ یا کرشمہ ہی اسے مزید تباہی سے بچا سکتا ہے۔ منتشر‘ مفلوج‘ کمزور اور جنگ زدہ افغانستان سب ہمسایہ ممالک کیلئے خطرہ ہے۔ ہمارے لیے سب سے زیادہ۔ مہاجرین اور عسکریت پسند جتھے بن بلائے مہمان بن سکتے ہیں، بڑی مشکل سے ہماری معیشت مستحکم ہونا شروع ہوئی ہے۔ یہاں بھی سیاسی جنگیں‘ زہریلی زبان اور تلخ لہجوں میں جاری ہیں۔ درست فیصلہ ہے کہ افغانستان کی جنگوں میں ہم نہیں الجھیں گے‘ مگر وہاں جنگ رہی تو اس کی سیاسی‘ لسانی اور نظریاتی آگ ہمیں بھی جھلسا دے گی۔ امن معاہدے کیلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ سب ملکوں کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان پُرامن ہو‘ مستحکم رہے۔ خیر یہ تو ہوائی باتیں ہیں‘ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: