اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظرنامہ۔ تورخم کے اِس طرف(9)||حیدر جاوید سید

شہباز شریف تو آپ کو یاد ہے کہ مناواں پولیس ٹریننگ سکول پر طالبان کے حملہ کے بعد ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے تھے کہ ’’طالبان اور ہمارا ایجنڈا ایک ہے اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ پنجاب میں حملے نہ کریں‘‘۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن دنوں افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین میں جنگ جاری تھی (وہی جسے ہمارے یہاں جہاد بناکر پیش کیا گیا) اُن دنوں مجاہدین کی فتوحات اور قبضوں کی گھڑی ہوئی داستانیں ہمارے ریڈیو، ٹی وی مارشلائی بندشوں کا شکار اخبارات خوب سناتے شائع کرتے تھے
تب کسی دل جلے نے تبصرہ کیا کہ
مجاہدین سوویت یونین کی نصف آبادی قتل کرچکے او ڈیڑھ گنا زائد رقبہ فتح کرچکے۔
یہ لطیفہ اب یوں یاد آیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں
’’ بالی عمریا کا عشق‘‘ سر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔ پچھلے دو دن کے اخبارات پڑھ لیجئے ایسا لگتا ہے کہ اب افغانستان فتح ہوا اور راج کریں گے طالبان۔ حقیقت بہرطور اس کے برعکس ہے۔
اس حقیقت پر بات کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے اتوار کو سوات میں پی ڈی ایم کی باقیات کے جلسہ میں کامریڈ مولانا فضل الرحمن کے انقلابی خطاب کے اس حصہ پر بات کرلیتے ہیں جس میں ارشاد ہوا کہ
افغانستان میں طالبان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ عنقریب اسلام کا پرچم لہرائے گا۔ کامریڈ نے طالبان کے فضائل بھی بیان کئے اور اس وقت سٹیج پر میجر (ر) آفتاب احمد خان شیرپائو، محمود اچکزئی اور شہباز شریف بھی موجود تھے۔
شہباز شریف تو آپ کو یاد ہے کہ مناواں پولیس ٹریننگ سکول پر طالبان کے حملہ کے بعد ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے تھے کہ ’’طالبان اور ہمارا ایجنڈا ایک ہے اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ پنجاب میں حملے نہ کریں‘‘۔
آگے بڑھنے سے قبل یہاں یہ عرض کردوں کہ ہمارے کچھ اخبار نویس دوست کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے، عجیب منطق ہے۔ حکومت کے خلاف پاکستان میں بندوق برداری مجرمانہ فعل ہے اور افغانستان میں ’’جہاد‘‘۔ معاف کیجئے گا یہ منافقت بھرا موقف ہے۔ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والے اِدھر دہشت گرد ہیں تو اُدھر بھی دہشت گرد ہی کہلائیں گے۔
یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر پروگرام اب مزید چلنے کا نہیں۔ نا ہی اسے مسئلہ کے حساب سے کشمیری تحریک مزاحمت اور فلسطینی تنازع کے تناظر کو دیکھا جاسکتاہے۔
ہم واپس سوات چلتے ہیں۔ کامریڈ مولانا فضل الرحمن نے دھواں دھار خطاب میں حکومت وقت اور عمران خان بارے جو کچھ کہا وہ دونوں آپس میں بھگتیں البتہ انہیں (کامریڈ کو) یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ کو افغانستان کے خلاف پاکستانی فضائی حدود اور اڈے استعمال کرنے کی اجازت ان کے محبوب جنرل پرویز مشرف کے دور میں دی گئی تھی۔ دو اڈے پیپلزپارٹی نے خالی کروالئے تھے۔ فضائی حدود استعمال کرنے کےاجازت نامے کو وہ بھی منسوخ نہ کرواسکی ایک بار کوشش کی تھی تب ہمارے وہ صحافی دوست جو آجکل سول سپرمیسی کے اسیر ہیں، تلواریں سونت کر اس پر چڑھ دوڑے تھے۔
کامریڈ کے محبوب جنرل پرویز مشرف کے غیرقانونی اقتدار کو قانونی بنوانے کی آئینی ترمیم کو ملا ملٹری الائنس ایم ایم اے کے تعاون سے منظور کروایا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن کو نامزد کیاگیا۔
سپیکر چودھری امیر حسین نے یہ تقرری درحقیقت حق خدمت کی ادائیگی میں کی تھی ورنہ پی پی پی اور (ن) لیگ کے پاس اپوزیشن ارکان کی اکثریت تھی لیکن کامریڈ پورے پانچ سال اپوزیشن لیڈری کے مزے لوٹتے رہے اسی عرصہ میں انہوں نے فوائد بھی حاصل کئے سب سے بڑا فائدہ کامریڈ کے سمدھی حاجی غلام علی کی سپریم کورٹ سے ضمانت کی صورت میں ملا۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ سوات جلسہ میں میجر (ر) آفتاب احمد خان شیرپاو اور لالہ محمود خان اچکزئی نے کامریڈ مولانا فضل الرحمن کے فضائل طالبان پر اپنا موقف نہیں دیا۔
اصولی طور پر ان دونوں پشتون رہنماوں کو اس جلسہ میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے تھی۔ مولانا فضل الرحمن کی افغان دہشت گرد گروپ سے محبت سمجھ میں آتی ہے دونوں ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ اگر پاکستان میں ایک افغان دہشت گرد گروپ کی کھلے بندوں حمایت کی آزادی ہے تو منتخب افغان حکومت کی حمایت کیونکر غلط اور پاکستان کے مفاد کے منافی ہے؟
گزشتہ کالم میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری حکام کی جانب سے دی گئی بریفنگ بارے عرض کیا تھا اس حوالے سے ایک دو باتیں اور سامنے آئی ہیں۔
اولاً یہ کہ پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا آرمی چیف سے مکالمہ اور ثانیاً ایک مقدمہ میں گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے حوالے سے آرمی چیف کا موقف۔
محسن داوڑ نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے ’’لروبر افغان‘‘کے نعرہ کو ملکی سلامتی کے خلاف قرار دیا ہے میں اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ’’لروبر افغان‘‘ کا مطلب ہے سرحد کے دونوں طرف افغان قوم بستی ہے اس کا کہیں یہ مطلب اور مقصد نہیں ہم جغرافیائی سرحدوں سے انکار کررہے ہیں۔ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی سمیت اجلاس میں موجود چند پشتون وزراُ اور ارکان سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی افغان قومیت سے انکار کرسکتے ہیں؟
اسد قیصر سمیت سب کا جواب تھا ہم قومیت کے اعتبار سے افغان ہیں شہریت کے اعتبار سے پاکستانی۔
علی وزیر کے معاملے میں آرمی چیف کا موقف تھا کہ وہ میری ذات پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن فوج پر بطور ادارہ تنقید ناقابل برداشت ہے۔
اس پر ہلکی پھلکی بحث ہوئی پھر کہا گیا کہ علی وزیر تحریری طور پر معافی مانگیں۔
گستاخی معاف، معافی کیوں مانگیں؟
ان کے خاندان کے 18افراد طالبان نے شہید کئے اور مارکیٹ پاکستانی حکام نے ایک کالے قانون کے تحت مسمار کی جوکہ صریحاً غیرقانونی اقدام تھا۔
ماضی میں ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور اس کے مخالفین کے خلاف کالے قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے بھی کبھی اس قوم سے معافی مانگیں گے؟
آخری بات سیاسی معاملات میں وزارت دفاع کے ماتحت محکمہ کا کیا کام ہے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: