اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی صوبے میں مکمل بلوچی رنگ میں رنگا روجھان،||ملک رزاق شاہد

قصہ خوانی بازار پشاور میں غفار خان کی گرفتاری کے خلاف مولانا عبدالرحیم پوپلزئی کی قیادت میں خدائی خدمت گار اکٹھے ہوئے.

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت علی کے ہوٹل سے چائے پینے کے بعد آگے بڑھے.
تو اونٹوں کا وگھ نظر آیا. اونٹنی کے دودھ سے روٹی کھاتے جتوالوں نے پوچھا.
روجھان جا رہے ہو؟
جیا!!
میر صاحب کو ہمارا سنہیا دینا، تیرے جتوالوں کی جالیں کاٹی جا رہی ہیں ہماری ڈاچیوں کے تھن خشک ہوتے جا رہے ہیں…. اور ہم مرتے جا رہے ہیں…
روجھان کے کھیتوں میں چاولوں کی پنیری لگانے والوں کو اس سے کیا غرض کہ کون کس کا سجادہ ہے کون کس کا وارث ہے اسے تو آج کی مزدوری مل جائے نیند پوری ہو جائے تاکہ پھر اگلے دن تک سانس چلتی رہے.
ایک طرف اوپر سے آگ اور لُو برساتا سوریا دیوتا، میرے دیس کی بختاوروں کے حُسن گہناتا..
اور دوسری طرف
قہر بھری نظروں سے کھیت مالک کھڑا دیکھتا،
لہلہاتے اور سبزے میں نہائے کھیتوں سے سبزی توڑتی میری دیس کی مائیں میرے روجھان کی بیٹیاں کیا جانیں کہ کس سردار کے مدفن پر کونسا رنگ چڑھا ہے کیسی اینٹ لگی ہے کیسے در بنے ہیں کون کس کے پہلو میں سویا ہے کون کس کا وارث بنا ہے وہ تو اپنے خشک چھاتیوں سے وقت کے "پیمبروں” کو پالنے کی جنگ لڑ رہی ہے سسک رہی ہے مر رہی ہے کٹ رہی ہے لیکن مایوس نہیں ہے تھکی نہیں ہے کہ شاید کبھی میری کوکھ سے کبھی میرے وجود سے کوئی تو سخی پیدا ہو گا کوئی تو مور جنم لے گا جو میری اداس و نراش دھرتی میں گلاب رنگ بھر سکے جہاں جھوٹ مٹ جائے جہاں خلق سُکھی ہو جائے.
عرب شہزادوں کی شکارگاہ روجھان،
میر، سرداروں کا روجھان،
مست توکلی کی میزبانی کا اعزاز پانے والا روجھان،
بلوچی شاعری پر صدارتی ایوارڈ پانے والے سعید تبسم کا روجھان،
سارنگی پہ ملکوں ملکوں سُر بکھیرنے والے بشیر احمد کا روجھان،
سرائیکی صوبے میں مکمل بلوچی رنگ میں رنگا روجھان،
بلوچی اردو سرائیکی شاعری کا اسد، اسد خان کا روجھان،
ہمارے یارِ جانی رفیق احمد خان کا روجھان،
سندھو کی چھولیوں سے کھیلتا روجھان،
اور سندھو طغیانیوں سے اٹھکھیلیاں کرتی بُھلہنڑ اور بندوقوں سے کھیلتے ڈاکوؤں کا روجھان،
ریاست کا پچھواڑاہ ایسا کہ جس پر نفرین بھیجنی ہو یاں پھینک دیا جائے…
لیکن عجب نشہ اور کشش ہے اس مٹی میں کہ ہزاروں میل پرے کے سرد موسموں سے اڑتا تلور یہاں پناہ لے….
پھر اپنی تفریح کے لئے مقدس سرزمینوں کا عیاش بندہ بشر اسے پکڑنے یہاں چلا آئے ،
پھر خون رنگ کو دھونے کا ڈھونگ رچاتا وردی والا یہاں تعینات ہونے کو بے تاب نظر آئے،
گزرے ایام میں پہاڑوں سے اترتا مزاری قبیلے بھی یہاں مسکن بنائے،
سِکھ بھی یہاں لڑے اور گورا بھی یہاں چلا آئے
کچھ تو ہے اس روجھان میں.
آج کا روجھان بہترین چاول، اور سبزی کی کاشت میں جدید کاشتکاری کو مات دے رہا ہے.
پنجاب کی سب سے بہترین اور اگیتی گندم اگاتا روجھان
شہر میں داخل ہوئے تو
عبدالکریم خان اسد مزاری،
زاہد احمد، رفیق خان مزاری، میرو خان، اورنگزیب خان اور ناظم الدین خان نے آگے بڑھ کر گلے لگایا….
دل کی طرح کشادہ کمرے میں بیٹھے تو سامنے میزبانوں کے پُرکھوں کا تعارف لکھا دیکھا تو تھکن اتر گئی…
ابھی پڑھ ہی رہے تھے کہ بولے کہ آپ کو یقیناً معلوم نہیں ہو گا کہ بڑے میر صاحب کے چیف سیکرٹری کے طور پر چوہدری رحمت علی چھے سال روجھان میں رہے اور ان کے دفتر اور رہائش کو سکٹر ہاؤس کہا جاتا تھا وہیں آج دُور و نزدیک کے غریب طلباء کی رہائش ہے اس کے سارے اخراجات کی ادائیگی موجودہ ایم این اے ریاض خان مزاری کی ذمہ داری ہے اور یہ روایت سر امام بخش مزاری کے دور سے جاری ہے طلباء جہاں کے بھی ہوں اخراجات میر صاحب نے اٹھانے ہیں
چلیں آپ کو سندھو سئیں کی ناراضگی کی نظر ہوئے روجھان شرقی کی باقیات اور سرداروں کے مدفن دکھائیں جنہیں ہم بلوچی میں ہَندیرے کہتے ہیں.
ان شاہوں، عالی جاہوں کے مدفنوں کو دیکھتے کتبے پڑھتے…. سوچتے رہے کہ کسی میر زادی، کسی خانزادی کسی شہزادی کی قبر پر چھت نہیں کتبہ نہیں اور وہ کسی خان میر کے مدفن سے بلند نہیں….
زمین سے تھوڑا سا اوپر اور بس….
ہائے….. تیرے لاڈلے پالے تیرے بادشاہ جنمے تیرے سورما سنبھالے… لیکن برابر نہ بیٹھے… زندہ تو کُجا مردہ بھی دور بسے… طبقاتی سماج تجھے بری موت آئے تو انسانیت کے لئے گالی ہے…
سندھو کے دامن میں بنے مزاریوں کے یہ مدفن…. طرزِ تعمیر میں مزدوروں کے ہنر کا شاہکار ہیں وہ ہاتھ وہ دماغ کتنا پاکیزہ اور شاندار ہوں گے جو قبروں کو بھی شاہکاروں میں بدل دیتے ہیں.
اس کے بعد ہم سب فرحت عزیز خان سے ملنے چلے.
سردار تعلیم اور شعور میں رکاوٹ ہیں….؟
ہمارا سوال مکمل ہونے سے پہلے فرحت عزیز خان نے ایک بھر پور ققہقہ لگایا اور ہسنتے ہوئے کہا.. آپ کا قصور نہیں ہمیں سب سے زیادہ اسی سوال کا سامنا رہتا ہے…
پھر ایک گہری سنجیدگی میں ڈوب گئے اور کہا آج معتوب ٹھہرے گالیوں کی سان پر چڑھے سابق ہوئے حکمران سے روجھان کالج منظور کرایا اور ہفتوں میں کلاسیں لگوائیں
"اس لئے کہ ہم تو تعلیم دشمن ہیں”
اس سے پہلے روجھان شہر میں سیکنڈری بورڈ کے میڑک سینٹر کے لئے جب بورڈ سے کہا گیا تو بورڈ نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا ہے بچے کم ہیں خرچہ زیادہ ہے سینٹر نہیں بن سکتا… تو بورڈ کی مطلوبہ تعداد پوری ہونے تک ہم اپنی جیب سے پیسے دیتے رہے
"اس لئے کہ ہم تعلیم دشمن ہیں…”
یہاں تک کہنے کے بعد اچانک خاموش ہوئے آہ بھر کر بولے
ہمارے اک دیئے کی لَو ذرا تیز تھی اس لئے بہت جلد بُجھا دیا گیا اور میرا عاطف مار دیا گیا…… آپ کو معلوم ہے کہ پورے پنجاب میں دانش سکول کے دس ایکسیلینس سینٹر ہیں مرحوم عاطف خان نے دو دانش سکول ایکسیلینس سینٹر روجھان میں قائم کرائے
” اس لئے کہ ہم تعلیم کے حق میں نہیں ہیں…..”
سیاستدان تو ریٹائر نہیں ہوتے… آپ؟
نہیں میرے بھائی
اب گالی کا چلن ہے
اب سیاست لونڈی بنا دی گئی ہے….
تو پھر
جب تک عوامی راج جب تک شفاف انتخاب نہیں ہوں گے یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا. مارشل لاؤں نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے.
دو مرتبہ ایم پی اے رہنے اور ایک مرتبہ وزیراعظم کے مشیر رہنے والے فرحت خان کے ساتھ تین گھنٹے گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا… اجازت چاہی تو حیرت سے دیکھا اور کہا کیا مطلب… ارے بابا کھانا کھلانا تو ہماری روایت ہی نہیں بلکہ ہمارے فرائض میں شامل ہے… کمال کرتے ہیں…
کھانا لگا وہی روایتی کلاسیک رکھ رکھاؤ اور برتاؤ جو اب بڑی تیزی سے مٹتا جا رہا ہے، دیکھنے میں آیا… پھر ملنے کے وعدے پر اجازت چاہی…
اب ہمارے میزبانوں کے قدم قدیم عمارت کی جانب بڑھنے لگے
مِیری کو دیکھنے میں محو تھے کہ ناظم الدین خان کہنے لگے اس کے نیچے تہہ خانہ ہے کسی زمانے میں جیل بھی رہی ہے…. یہ سنتے ہی ہمارے پیروں کے تلوؤں میں کانٹے سے چھبتے محسوس ہوئے.. نیچے اترے تو دماغوں میں پنہاں تاریخ اتر آئی.. شہزاد حسین نے کہا ہم نے بھی تو گھروں میں جیلیں بنا رکھی ہیں ہمارے سینے بھی قید خانے ہیں ہماری حسرتوں کے.
ہاں بھائی
طبقاتی نظام ارمانوں، حسرتوں کا قید خانہ ہی تو ہوتا ہے.
پھر ہمارا قافلہ کلمہ چوک کی جانب چلا
ہر شہر میں کلمے چوک کیوں ہیں؟ وقار اور عثمان بیک وقت بولے
کلمے بہت کام آتے ہیں
ذبیح سے پہلے،
مرنے سے پہلے
عقیدہ بدلتے وقت
موت سے لڑتے وقت
جان بچانے کے لیے
جان سے مارے کے لئے
اور اس کے ساتھ ساتھ انہی چوکوں کے ارد گرد آم، امرود، انگور اور مزودر بِکتے ہوئے آسانی سے مل جاتے ہیں
وہیں ہمیں مرغان آبی، ماہیِ کم یابی، پنکھ پھکیرو اور مال چھیڑو کا شیدائی ایک مولائی ملا
کس پر الزام دھرتا ہے کس کو منصف قاضی کرتا ہے…
ہم گھومتے پھرتے کبھی تیتروں کو شمار کرنے کبھی کمیاب بُھلنہڑ کو دیکھنے جب ان کچوں میں جاتے ہیں جب سندھو سائیں کے بہاؤ کے ساتھ بہتے ہیں تو یہی ڈاکو چور لُٹیرے ہماری راکھی کرتے ہیں ہمیں دودھ پلاتے ہیں ہمیں کھانا کھلاتے ہیں… کہتے ہیں انہی پرندوں سے انہی مچھلیوں سے تو ہماری یاری ہے انہی کی وجہ سے تو سانس چل رہی ہے… آپ لَکھ واری آئیں بس وردی والوں سے ہمیں بچائیں.
ملک صاحب!!
اک پھیر ہے ایک دائرہ ہے طاقتوروں کا ، کسی نے دشت و جبل کی رکھوالی سنبھال رکھی ہے تو کسی نے صحراؤں اور فضاؤں پر نظر رکھی ہے. کوئی میدانوں کو شہروں میں ڈھال رہا ہے تو کوئی جنگلوں میں اپنے گلستان بنائے ہوئے ہے.
رہی عوام رہے کمی کمین کمہار اور چمار.. تو وہ کبھی اس کے در پر کبھی اس کی گلی میں…
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پردیسی پرندوں کے شکار پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے کئے جاتے ہیں…
بہت سادہ ہیں آپ لوگ.
ارے بابا
یہ سب تو تیرے اقبال کے شاہین کی پروازوں، طرازیوں اور تلور کی چیخوں کے نظاروں سے لطف لینے کا سامان ہیں…
فالکن کو اشارہ ہوا تلور پر جھپٹنے کا اور پھر کمزور کی بے بسی کے نظارے سے لطف لینے کا سارا سامان ہے جانی…
کمزوروں کو غلاموں کو باغیوں کو اور حوا زادیوں کو کشیوں میں ڈال کر دریا میں ڈبونے اور تڑپانے کے نظاروں سے کتابیں بھری پڑی ہیں….
جب ان شکاریوں کا جی بھر جاتا ہے دل بہل جاتا ہے تو ہاتھ دھلاتے غلام سے کہتا ہے مانگ کیا مانگتا ہے…. سرکار بچوں کا سکول بنوا دے…
نظرِ کُن سے پہلے فیکون ہو جاتا ہے کالج کی جدید ترین عمارت بن جاتی ہے
کارڈیک سینٹر والی ہسپتال کھڑی ہو جاتی ہے سندھو کا شہد پانی گھروں میں پہنچانے کا انتظام ہو جاتا ہے….
شاہ والی قصبے کا نیا سکول اور نئی ہسپتال بن جاتی ہے اور جنتا واری واری جاتی ہے..
ارے او سیلانی یہ سب کچھ اتنا سادہ سا ہے کیا یہ لطف و کرم یہ جود و سخا سارا مفت میں ہے کیا؟
یہ کہتے ہوئے سیلانی چلا گیا کہ اس دنیا میں اس جہاں میں بعض مقامات پر تو فرشتوں کے پر جلتے ہیں ہم تو معمولی سے صحرا نورد ہیں… ہم سے کیا پوچھتا ہے…. کچھ آنے والی نسلوں کے بھی سوال چھوڑ جا اور آگے بڑھ جا
شام ڈھلے ہم واپس چلے….
اسد خان اور رفیق خان نے گلے لگایا،
میرو خان نے شہر کے بیرونی گیٹ تک پہنچایا…
تو پھر ہمیں میرزا نوشہ یاد آیا جب اسے کتب موصول ہوئیں تو لکھا…
"کاغز، خط، تقطیع، سیاہی، چھاپہ…سب خوب…
اسی طرح اے دوستو آپ کی میزبانی کے سارے رنگ خوب تھے…. سلامتی اور پیار.. پھر ملینگے
ہم محمد حسین روڈ سے فلسطینی بچوں کی طرح مسافروں کو اسرائیلی فوجی سمجھتی پتھر مارتی خاک اڑاتی کمزور ڈومیسائل والی سرائیکی اور پختون صوبے سے گزرتی انڈس ہائی وے کی طرف بڑھنے لگے تو کراچی جاتی ویران اداس ریل کی پٹری پر بغیر پھاٹک کے رستے پر ماں بیٹی کے ہاتھ بے رحم آسمان کی طرف اور نظریں اشرف کہلاتے انسان کی طرف…… اور سارے دن کی لُو نے اس کے اتنی سکت رکھی تھی کہ وہ خشک ہونٹوں سے اتنا کہہ سکی
اللہ کے نام پر…کچھ دیتے جائیں

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

%d bloggers like this: