مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان کے لیے پاکستان کے لیے روٹھوں کو منانا ہی ہوگا||فہمیدہ یوسفی

تو دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے  پنجابی آبادکاروں کا  قتلِ عام اور  پولیس اور سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا بھی معمول کا حصہ ہے ۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں ناراض لوگوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہا ہوں وزیر اعظم عمران خان

گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان  نے گوادر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے گوادر فری زون کا افتتاح کیا اور اس کے فیز ٹو کا سنگ بنیاد رکھا اور  مختلف اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔ وزیراعظم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا جو بھی پاکستان کا سوچے گا وہ بلوچستان کا ضرور سوچے گا، ۔ وزیراعظم نے کہا اس طرح ہمیں بھی فکر نہیں ہونی چاہئے تھی کہ بلوچستان میں شورش پھیلانے والے لوگ آ گئے ہیں جن کا کسی تحریک سے بھی تعلق ہے ، ہو سکتا ہے کہ ان کے اندر پرانے زمانے کی رنجشیں ہوں اور ہندوستان انہیں انتشار پھیلانے کیلئے استعمال کرے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ بلوچستان کے ناراض لوگوں اور عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔

یہ خوش آئند ہے کہ  وفاقی کابینہ نے بلوچستان کے امن کے لیے  بلوچ عسکریت پسندوں سے  بات چیت کا فیصلہ کیا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھی ناراض بلوچوں  سے بات کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ   اس کے لیے انہوں نے  عوامی جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی کے لیے اپنا معاون مقرر کردیا ہے واضح رہے کہ   شاہ زین بگٹی  بلوچ  رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں .

یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ  وفاق  بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی پاکستان تحریک  انصاف کی حکومت پہلی حکومت ہے جو بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے ۔ ریکارڈز کے مطابق پچھلے پندرہ برسوں میں ناراض بلوچوں کو  مذاکرات کی میز پر لانے کی  کوششیں کی جاتی رہی ہیں  لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ عمل کبھی بھی پہلے راؤنڈ سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔سابق صدر  آصف علی زرداری نے ’آغاز حقوق بلوچستان‘ کے نام سے بلوچستان کو  پیکیج دیکر بات چیت  کے لیے  کوشش کی تھی جبکہ  نواز شریف  کے دور حکومت میں اس وقت  کے بلوچستان کے  وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ذریعے  بھی  مذاکرات کے لیے  کوشش کی گئی تھی ۔

یہ  بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں  اگست 2006ء میں نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت سے شروع ہونے والی بلوچ  عکسریت پسندوں  کی تحریک جن میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلیکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور لشکر بلوچستان جیسی تنظیمیں شامل ہیں   کو نظرا انداز نہں کیا جاسکتا  اور نہ ہی اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ان تحریکوں کے فنڈز کے تانے بانے کہاں جاکر ملتے ہیں ۔

دوسری جانب براہمداغ بگٹی، ہربیار مری اور جاوید مینگل خودساختہ جلاوطنی  کے دوران  سالوں سے بلوچستان میں پاکستانی ریاستی  رٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔ان کے  بیانیے پر عام بلوچ نوجوان کو مکمل اعتماد ہے کیونکہ دوسری جانب سے ہمیشہ سے ہی اعتبار کا فقدان رہا ہے۔

بلوچستان میں جاری  آگ اور خون کا  خوفناک کھیل آج کی بات نہیں ہے اس بھیانک کھیل میں  سینکڑوں معصوم اور بے گناہ شہریوں  نے   اپنی جانوں کا تاوان دیا ہے  ۔ جبکہ  انتہا پسند  بلوچ قوم پرست حقوق نہ ملنے اور  برابری  کا سلوک نہ ہونے  کا رونا رو رو کر  عام بلوچ نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی راہوں پر لے گئے ہیں ۔

 ایک حساس معاملہ یہ بھی ہے کہ بلوچ نوجوانوں  کو سیکورٹی نافذ کرنے والے  اداروں کے رویے پر بھی سخت تحفظات اور شکایات ہیں۔جن میں سے زیادہ تر جائز بھی ہیں ۔ ایک جانب تو بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ہیں لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیاں ہیں جس کا الزام  بلوچ علیحدگی پسند پاکستان کے سیکورٹی نافذ کرنے والے  اداروں پر لگاتے ہیں

تو دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے  پنجابی آبادکاروں کا  قتلِ عام اور  پولیس اور سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا بھی معمول کا حصہ ہے ۔

بلوچستان میں جاری  دہشتگردی میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی پرتشدد کارروائیاں، فرقہ وارانہ قتل و غارتگری،  جبکہ  آپس کی قبائلی دشمنیاں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خون ریز تصادم شامل ہیں۔

دہشتگردی کے ماہرین بلوچستان میں جاری بدامنی میں بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان اور ایران کو بھی ملوث سمجھتے ہیں۔

 پاکستان کے لیے بلوچستان کے لیے مثبت  خبر ہے کہ گوادر میں سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں جن میں گوادر فرٹیلائزر پلانٹ، گوادر انیمل ویکسین پلانٹ، ہینان ایگری  کلچر انڈسٹریل پارک، گوادر فری ویژن فیزٹو اور گوادر ایکسپو سینٹر شامل ہیں کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان ایم او یوز پر دستخط کیے۔ لیکن دیکھنا یہ  بھی ہے  کہ گوادر میں اس وقت شہری صاف پانی اور بجلی جیسے  بنیادی مسائل  سے دوچار ہیں اور وہاں  آئے روز شاہراہیں بند کر کے احتجاج ہورہے ہیں  ۔ مذاکرات سے پہلے بلوچوں کے بنیادی مسائل حل کرنا ہونگے۔

یہ بھی ماننا ہوگا کہ بلوچستان کا مسئلہ قبائلی نہیں سیاسی ہے لہذا اسے سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جبکہ عسکری قیادت کو بھی سوجھ بوچھ کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔

 بلوچستان میں قیام امن کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ، اور نہ ہی ایسا ہے کہ جسے تبدیلی سرکار راتوں رات حل کرسکے ۔ بلوچستان کے  امن کے لیے وفاق  اور سیکیورٹی  نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلینج  بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں سے یہ خیال دور کرنا ہوگا کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے   جبکہ  ان کو علیحدگی پسندوں  کا آلہ کار بننے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا ہونگے

مثبت عمل ہے کہ وزیراعظم نے بلوچستان کے امن کے لیے ناراض بلوچوں سے بات جیت کا حتمی فیصلہ کیا ہے تاہم  اس بار وفاق  کو دل بڑا کرکے براہ راست ناراض بلوچوں سے مل کر ان کے خدشات دور کرنا ہونگے

کیونکہ پاکستان کے لیے بلوچستان کے لیے  سیاسی اور عسکری قیادت کو  روٹھوں کو اب منانا ہی ہوگا ۔

%d bloggers like this: