گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب اسلام آباد سروس کرتا تھا تو وہاں ڈیرہ سے کشیدہ کاری کی ہوئی چادروں کی بڑی ڈیمانڈ تھی۔ ڈیرہ سے تاجر ان چادروں کی سوزوکیاں بھر بھر کے لاتے اور ایک دن میں فروخت ہو جاتیں۔
ڈیرہ شھر اور گردو ونواح جگہ جگہ کشیدہ کاری سنٹر کھلے تھے جن کے ذریعے کپڑا خواتین کو دیا جاتا اور دو تین دن میں چادر کاڑھ کر تیار ہو جاتی۔ اس طرح خواتین کو کچھ رقم کمانے کے مواقع میسر تھے۔میری جب شادی ہوئی تو میری بیوی ایک اپنے ہاتھ سے کاڑھی ہوئی پلنگ کی چادر کا سیٹ بھی لائی تھی۔ چادر اور سرہانہ گل اناری رنگ کے ریشمی چمکدار کپڑے کے تھے جن کے کناروں پر چاندی جیسے ستارے لگائے گیے تھے۔ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے۔
ہمارے گاٶں کی لڑکیاں کڑھائی سلائی کا عمدہ کام جانتی تھیں اور گرمیوں میں ہمارے سفید کرتوں کے گلے کے اردگرد سفید دھاگے سے امبلیوں کے ہار کاڑھ دیتیں۔ قریشے کا کام بھی تھا جس سے میزپوش وغیرہ تیار ہوتے۔رومال کے کونوں پر تین تیں گلاب کے پھول کاڑھ دیے جاتے۔
پھر اچانک ہم نے ترقی کر لی اور یہ ہنر بھی کھو بیٹھے۔ حالانکہ کچھ ڈیزائنرز اسی ہمارے ہنر میں ترمیم کر کے پیرس میں ڈریس بیچتے ہیں اور لاکھوں کماتے ہیں۔ ہماری گلیاں سنجیاں ہوگئیں اور ہماری لڑکیاں پڑھ کر بھی بے ہنر ہو گئیں کیونکہ ہم نے اپنی میراث کھو دی۔
یہ بھی پڑھیے
”شیر دل رانی، مائی چھاگلی (وسیب یاترا :8)||سعید خاور
”چِڑیاں اُٹھو کوئی دھاں کرو“ (وسیب یاترا :7)||سعید خاور
” "دل تاں آہدے یار دی وَستی ڄُلوں”(وسیب یاترا :6)||سعید خاور