مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریک دن سب بھول گئے||رسول بخش رئیس

مگر یہ بھول گئے تھے کہ خانہ جنگی کے امکانات کے سامنے پاکستانی فوج تماشائی نہیں بنے گی۔ کاش پانچ جولائی کو مارشل لا نہ لگتا۔ اس ایک رات کے فیصلوں نے کتنے سیاسی بحرانوں کو جنم دیا۔ سیاست نام ہی امکانات کا ہے‘ مخلصی کا ہاتھ آگے آئے تو سب قفل کھل جاتے ہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا ہے کہ انسان تلخ واقعات کو یاد کے نہاں خانوں میں بند کر دے۔ ہماری فطرت ہی ایسی ہے ‘یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘۔ محض اس دفعہ نہیں‘ ہر سال پانچ جولائی کا دن آتا ہے اور عام دنوں کی طرح شام ڈھلتے ہی رخصت ہو جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب اس دن کے زخم خوردہ پاکستان پیپلز پارٹی‘ اصلی اور حقیقی والے کچھ جیالے جلسے جلوسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کرتے تھے۔ اس دفعہ بھی پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر ہمیں یاد دلایا کہ پاکستان کی تاریخ کا وہ ”سیاہ ترین‘‘ دن تھا۔ میں بلاول صاحب سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ ہماری تب کی نوجوان نسل ان واقعات کی گواہ ہے‘ اور گواہی چھپانی نہیں چاہئے۔ وہ جو سوچ بچار اور لکھنے پڑھنے کی روایات سے جڑے رہے ہیں‘ یا ابھی تک سیاست کے سمندر کی موجوں میں مدوجزر پیدا کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں‘ انہیں سب کچھ یاد ہوگا‘ لیکن وہ بات کھل کر کم ہی کرتے ہیں‘ ایسا کیوں ہے؟ بہت سوں کو وقتی مفادات کی آندھی نے دور رس نتائج کے بارے میں سوچنے سے مفلوج کر دیا۔ میرا گمان ہے‘ شاید ایسا نہ ہو۔ اس زمانے کے چند نامور اور معتبر کردار ہمارے اور آنے والے زمانوں کیلئے تحریریں چھوڑ گئے ہیں۔ فرصت ملے تو ضرور پڑھ لیں۔ ان میں سے مولانا کوثر نیازی کی ”اور لائن کٹ گئی‘‘ رائو رشید کی ”جو میں نے دیکھا‘‘ اور سب سے اعلیٰ پروفیسر غفور احمد کی ”پھر مارشل لا آ گیا‘‘ تمام واقعات کا احاطہ کرتی ہیں کہ مشرقی پاکستان کے المیے کے تقریباً چھ سال چھ ماہ بعد ہی ہم ایک اور سیاسی طوفان میں گھر گئے تھے۔
موسموں والے طوفانوں پر تو انسانوں کی کوئی دسترس نہیں‘ بس اتنی اب ہوگئی ہے کہ ذرا بہتر یقین کے ساتھ پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ سیاسی طوفان تو انسان اپنے ہاتھوں اور کرتوتوں سے پیدا کرتے ہیں‘ اس زعم میں کہ ہم تو نکل کر کنارے پر ہرے بھرے کھڑے ہوں گے‘ باقی ڈوب جائیں تو ہمیں کیا۔ ایسی ہی غلط فہمیوں نے رعونتیں پیدا کیں۔ جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ سیاسی طوفانوں نے سب کو ڈبویا۔ نئی نسلیں پھر سے ابھریں‘ لیکن اپنی یا دوسروں کی تاریخ سے سیکھنے کا سلیقہ تھا‘ نہ توفیق ملی اور نہ ہی وقتی تقاضوں نے انہیں مہلت دی۔ طاقت کے نشے میں عالمی تاریخ میں جو لوگ مست رہے اور آخرکار اپنے بھیانک انجاموں کو پہنچے‘ ان کے بارے میں لکھے گئے تذکروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مَے کی خماری ہی کچھ اور ہے۔
اس زمانے میں چار جولائی کی شام اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ بڑی دھوم دھام سے مناتا تھا۔ پورے امریکہ میں اس شام گلی گلی‘ شہر شہر جشن منایا جاتا ہے اور امریکی سفارت خانے میزبان ملک کے عسکری‘ انتظامی اور تجارتی حلقوں سے چیدہ چیدہ افراد کو مدعو کرتے ہیں۔ خورونوش کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ ایمبیسیڈر تھریسا شیفر امریکی سفارتخانے میں بطور فرسٹ سیکرٹری‘ میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والوں میں سے تھیں۔ میری ان سے اور ان کے شوہر ایمبیسیڈر جان شیفر سے ملاقات کئی سال بعد ہوئی۔ چند برس قبل واشنگٹن جانا ہوا تو ان کے شوہر کی وفات پر افسوس کرنے ان کے گھر گیا۔ دونوں میاں بیوی نے پاکستان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور یہاں کے واقعات سے ہمیشہ وہ باخبر بھی رہتے تھے۔ باتیں تو کئی موضوعات پر ہوئیں‘ لیکن چار جولائی کی شام کے بارے میں بس کھلتی ہی چلی گئیں۔ امریکہ کے نئے سفیر نے تقریباً ہفتہ یا دس دن پہلے اسلام آباد میں چارج سنبھالا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کرنا چاہتے تھے۔ پروٹوکول آڑے آ رہا تھاکہ سفیر صاحب نے صدرِ پاکستان کو اپنے کاغذات ایک تقریب میں پیش کرنے تھے‘ جس کا اہتمام الگ الگ نہیں‘ گروہی صورت میں کیا جاتا ہے‘ جب چند نئے سفیر ملک میں تعینات ہو جائیں۔ چونکہ بھٹو صاحب نے شرکت کرنا تھی‘ اس لیے امریکی سفیر کے لیے خصوصی تقریب کا اہتمام ایک دو شامیں پہلے کرایا گیا تھا۔ سفیر کی رہائش گاہ کے وسیع دالان مہمانوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ مہمان خصوصی تب تشریف لائے جب دیگر مہمان‘ سول اور فوجی اپنے مخصوص لباس زیبِ تن کئے آ چکے تھے۔ آتے ہی بھٹو صاحب کو ایک مخصوص کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ وہ ایسے موقعوں پر عام حاضرین میں گھلتے ملتے نہیں تھے۔ یہ ان کے مرتبے کا تقاضا تھا۔ امریکی سفیر اپنے مہمانوں میں سے کچھ کو ایک ایک کرکے بھٹو صاحب کے پاس لے آتے‘ ان کا تعارف کراتے۔ ظاہر ہے‘ ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جن کو بھٹو صاحب جانتے ہوں گے‘ اورکچھ ایسے بھی‘ جن کی خواہش تھی کہ انکا تعارف کرایا جائے۔ زیادہ تعداد دیگر ملکوں کے سفیروں اور نائب سفیروں کی تھی۔
امریکی سفیر کے مہمانوں میں جنرل ضیاالحق نمایاں تھے۔ ملک کے اندر سیاسی بحران تھا‘ حزبِ اختلاف کے رہنما جیلوں میں تھے‘ ہزاروں کارکن بھی۔ بڑے شہروں میں مارشل لا لگا دیا گیا تھا‘ اس کے باوجود پاکستان قومی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں جلوس نکالنے کی کوشش کرتیں۔ اس شام تک سینکڑوں سیاسی کارکن لاہور‘ کراچی‘ ملتان اور فیصل آباد کی سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ سب حاضرین کی نظریں دو افراد پر تھیں‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق۔ قومی اتحاد کی جماعتوں کے کچھ رہنما دبے لفظوں میں اور کچھ برملا فوجی مداخلت کی دعوت دے رہے تھے۔ ایئر مارشل اصغر خان کا جاری کردہ ایک کھلا خط‘ جو ہزاروں کی تعداد میں پرنٹ اور تقسیم ہوا‘ کے مندرجات ایسے ہی تھے۔ اس کی کاپی میرے پاس محفوظ ہے‘ مگر اس بارے میں لوگوں کی مختلف آرا ہیں۔ اس تناظر میں امریکی مہمانوں میں سے اکثر کی نظریں جنرل ضیاالحق پر جمی ہوئی تھیں۔ امریکی سفیر نے جنرل صاحب سے بصد ادب و لحاظ درخواست کی کہ وہ بھی وزیر اعظم کو سلام کرنے کی سعادت حاصل کریں۔ انہوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پر پھیلاتے ہوئے معذرت کر لی۔ انسانی نفسیات بھی بلا کی چیز ہے‘ مگر اس کے راز صرف رازدان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان چند گھڑیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو نہ جانے کتنے مناظر برق رفتاری سے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ بادی النظر میں وہاں موجود کسی فرد کو معلوم نہیں تھا کہ اس تقریب سے رخصت ہو کر جنرل صاحب بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ فیصلہ ہو چکا تھا لیکن بھٹو بے خبر رہے۔ ان کا خیال تھا کہ جنرل صاحب انکے ہاتھ میں ہیں۔ بھٹو صاحب اس دور کے قدآور سیاستدان تھے۔ علمِ سیاست ہو یا جہاں فہمی کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ عالمی رہنمائوں کی صفِ اول میں سے تھے۔ ہمیشہ عوامی مجمعوں میں جوش میں تقریر کرتے اور اکثر کہتے ”میں بحرانوں کی پیداوار ہوں‘‘۔ فیصلہ ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں‘ اور آپ پر بھی کہ ان کی سیاست میں تین بحران پیدا ہوئے‘ ایوب خان کے خلاف ان کی تحریک‘ مشرقی پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ اور پھر انیس سو ستتر کے عام انتخابات‘ جن کی شفافیت کے بارے میں شوہد کم اور دلائل کمزور ہیں۔ جب قومی اتحاد سے وہ مذاکرات کر رہے تھے‘ تو کبھی تاثر یہ نکلتا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے‘ اور دوسرے دن ہمارا خیال بدل جاتا۔ پانچ جولائی تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ حزبِ مخالف کے رہنما جیلوں میں تھے اور بھٹو صاحب طویل بیرونی دورے پر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ زمینی سطح پر حزبِ اختلاف کی مزاحمت کے خلاف مزاحمت کی تیاریاں بھی شروع ہو چکی تھیں۔ سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا‘ مگر یہ بھول گئے تھے کہ خانہ جنگی کے امکانات کے سامنے پاکستانی فوج تماشائی نہیں بنے گی۔ کاش پانچ جولائی کو مارشل لا نہ لگتا۔ اس ایک رات کے فیصلوں نے کتنے سیاسی بحرانوں کو جنم دیا۔ سیاست نام ہی امکانات کا ہے‘ مخلصی کا ہاتھ آگے آئے تو سب قفل کھل جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: