اپریل 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی:اس نے اتنے قتل کئے کہ ان کی تعداد اسےخود بھی یاد نہیں تھی||نذیر لغاری

ایس ایچ او نے کہا کہ کافی دیر سے بول رہے ہو۔ تم تھک گئے ہوگئے ایس ایچ او کے اس سوال پر اس نے نہایت اطمینان سے پوچھا کہ کیا میرا وقت پورا ہو گیا ہے۔ ایس ایچ او نے چونک کر پوچھا کہ کیا مطلب؟
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اتنے قتل کئے کہ ان کی تعداد اسےخود بھی یاد نہیں تھی، وہ بڑا نشانہ باز تھا۔اس کا دعوی تھا کہ میں اُڑتی چڑیا کو جس زاویئے سے چاہوں نشانہ بنا سکتا ہوں۔اس نے باقاعدہ جنگی ماہروں جیسی تربیت حاصل کی تھی۔وہ اپنی آخری تفتیش میں بہت پُرسکون تھا۔وہ ذرہ سا بھی خوفزدہ نہیں لگ رہاتھا۔خوفزدہ نہ ہونا بھی اس کی تربیت کا حصہ تھا۔ وہ بتا رہاتھا کہ پاک کالونی میں اپنے مخالف گروپ کے 12آدمیوں کو قتل کرنے والی ٹیم میں وہ خود شامل تھا۔اس نے بتایا کہ چلتےچلتےاس کی نظر دوبکریوں پرپڑی، ان دونوں بکریوں کوبھی اسی نےہی نشانہ بنایاتھا۔اس کے انکشافات بہت ہولناک تھے مگراس کاپُرسکون رہنا سب سے زیادہ حیرت انگیز تھا۔وہ بتارہاتھا کہ تربیت کے آغاز میں لڑکوں کے سامنے ایک بڑی ٹوکری میں مرغیوں کے تازہ چوزے رکھے جاتے تھے، اوراُن لڑکوں کا کام ان چوزوں کی گردن مروڑ کرانہیں ان کے قریب رکھی بالٹیوں میں ڈالتے جانا ہوتا تھا۔ آخر میں ہرلڑکے کی بالٹی سے مردہ چوزے نکال کران کی گنتی کی جاتی تھی، اور وہ روزانہ یہ مقابلہ جیت جاتا تھا
چوزے مارنے کا مقابلہ جیتنے والے کو مین آف دی میچ کہا جاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ان میچوں میں زیادہ ترمیچوں کا مین آف دی میچ رہا۔ وہ تفتیش کے دوران گل بہار تھانے کے ایس ایچ او کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھتا اور پوچھتا کہ کیا میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب لگ رہی ہے اور ایس ایچ او حیرت زدہ ہوکر کہتا کہ تمہاری دھڑکن بالکل معمول کے مطابق ہے۔پھر اس نے اپنی ٹریننگ کے بارے میں مزید تفصیلات بتائیں۔ اس کاپُر اعتماد لہجہ ایس ایچ او اور دیگرتفتیشی افسران کو بے سکون کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ شہرمیں فائربریگیڈ کے عملے کو تربیت دی جانی تھی، اس ٹریننگ میں اس نے اور اس کے دیگردودرجن ساتھیوں نے حصہ لیا۔اس ٹریننگ میں انہیں فائر کی جگہ فائرنگ اور بریگیڈ کے نام پراندھا دھند فائرنگ کی تربیت دی گئی۔ٹریننگ کے حوالے سے اس نے ملک سے باہربھی تربیت لینے کی تفصیل بتائی۔ اس نے اس تربیتی مرکز کا جغرافیہ دہلی کا جنوب مغربی علاقہ بتایا۔ اس نے ایس ایچ او کو بتایا کہ وہاں ٹریننگ دینے کیلئے بھارت کے فوجی افسر موجود ہوتے اور وہی اس ٹریننگ کے عمل کی براہِ راست نگرانی کرتے۔ان کارویہ بہت دوستانہ ہوتا۔ وہ تمام ٹریننگ لینے والوں کوٹریننگ لینے والوں کوٹائیگر کہہ کربُلاتے۔ اس نے بتایا کہ تامل ٹائیگر بھی ہمارے ساتھ مل کر ٹریننگ لیتے۔
ٹریننگ کے دوران تمام تربیت لینے والوں کے اصل نام بدل دیئے جاتے اور اکثر ٹریننگ لینے والے ایک دوسرے کے اصل نام نہیں جانتے تھے، اور سب ایک دوسرے کوفرضی ناموں سے ہی پکارتے۔ یہ فرضی نام ہندوؤں کے ناموں جیسے ہوتے۔
تفتیش کے دوران اس نے اچانک ایس ایچ او سے سوال کیا کہ اس تفتیش کے بعد تم فوراً مجھے ماردوگے یا کچھ دیر کے بعد ماروگے یا کل پولیس مقابلہ کرکے مارو گے۔ ایس ایچ او اس سوال کیلئے بالکل تیار نہیں تھا۔ اسے یوں لگا کہ جس شخص کی تفتیش ہورہی ہے، یہ ملزم نہیں بلکہ یہ خود تفتیش کارہے اور وہ اس سے تفتیش کر رہا ہے۔ ایس ایچ او نےاپنے آپ کو سنبھالا اور زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے "ابے یار چھوڑ” کہہ کر سوال کوگول کردیا۔ وہ اس سے زیادہ سےزیادہ جاننا چاہتا تھا۔اس نے اپنے سوالوں کارُخ ٹریننگ سے وارداتوں کی تفصیلات کی طرف موڑ دیا اور سوال کیا کہ تم نے اور کس کس کومارا۔ اس نے زہیراکرم ندیم کا نام لیا۔ زہیراکرم ندیم غوث علی شاہ کی غیرجماعتی صوبائی کابینہ کے رکن تھے۔زہیراکرم ندیم ماحولیات، دیہی ترقی، جنگلات، جنگلی حیات اور ماہی گیری سمیت کئی محکموں کے وزیر تھے۔ اور کہا کرتے تھے کہ میں دیہات، جنگلات، ماحولیات مچھلیوں اور چرند پرند کا وزیر ہوں۔
ایس ایچ او نے پوچھا کہ تم نے اندھا دھند میں فائرنگ میں کتنے آدمی مارے۔ اس نے کہا کہ اس نے لیاقت آباد ڈاکخانہ کے قریب تین دیگرلڑکوں کے ساتھ مل کر دو درجن سے زائد راہگیروں کو ہلاک کیا تھا، انہیں ٹارگٹ یہ ملا تھا کہ شہر میں خوف اور دہشت پھیلانے کیلئے کوئی نشانہ لئے بغیر اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے لوگوں کو مارا جائے۔
ایس ایچ او نے کہا کہ کافی دیر سے بول رہے ہو۔ تم تھک گئے ہوگئے ایس ایچ او کے اس سوال پر اس نے نہایت اطمینان سے پوچھا کہ کیا میرا وقت پورا ہو گیا ہے۔ ایس ایچ او نے چونک کر پوچھا کہ کیا مطلب؟ اس نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میرا آخری وقت آگیا ہے، پھر اس نے ایس ایچ او کانام لیتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا چبا کر پوچھا کہ چوہدری اسلم خان اچھی طرح سے دیکھ لو، ایک بار پھر میرے دل پر ہاتھ لگا کر دیکھو کہ میں گھبرایا ہوا تو نہیں لگ رہا ہوں۔ان دنوں گلبہار تھانے کا ایس ایچ او مشہور پولیس افسر چوہدری اسلم تھا۔
چوہدری اسلم پہلی بار شدید حیرت کا شکار ہوا اور پوچھا کہ تم کیوں یہ باور کرا رہے ہو کہ تم بہت بہادر ہواور تمہیں زندگی سے پیار نہیں۔ اس نے کہا کہ اتنے جرائم کے اعتراف کے بعد مجھے کون زندہ چھوڑے گا اور میں نے یہ سارے اعترافات کسی خوف کی وجہ سے نہیں کئے۔ میں جانتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔مگر جب کسی کوسزائے موت دی جاتی ہے تو اس شخص سے اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے۔ کیا چوہدری اسلم پویس مقابلہ سے پہلے میری آخری پوچھو گے۔ چوہدری اسلم نے پُوچھ ہی لیا، بتاؤ تمہاری آخری خواہش کیا ہے، نعیم چشمو نامی شخص بولا”میرے مارے جانے کے بعد میری منگیتر میرا چہرہ دیکھنے آئے گی، میری آخری خواہش یہ ہے کی مجھے پورے وجود کو گولیوں سے چھلنی کردینا مگر میرے چہرے پر گولی نہ چلانا، میرا چہرہ مسخ نہ کرنا
یہ پوری کہانی مجھے چیف رپورٹر خورشید عباسی نے سنائی تھی جس کی بہت بعد میں چوہدری اسلم نے ایم کیو ایم سے صلح کے بعد میرے دفتر میں آکر تصدیق کی تھی۔

اے وی پڑھو:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: