اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظر نامہ۔ کچھ پس منظر بارے(3)||حیدر جاوید سید

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ ’’افغان منظرنامہ‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دونوں اقساط دستیاب معلومات کی روشنی میں لکھی گئیں۔ افغان عوام کے حق اقتدار کا احترام بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستانی عوام کے حق اقتدار کا، جو اکثر چوری ہوجاتا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ ’’افغان منظرنامہ‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دونوں اقساط دستیاب معلومات کی روشنی میں لکھی گئیں۔ افغان عوام کے حق اقتدار کا احترام بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستانی عوام کے حق اقتدار کا، جو اکثر چوری ہوجاتا ہے۔
افغانستان میں طالبان ایک فریق ہیں یہ حقیقت ہے۔
ان کا ظہور کیسے ہوا ہے یہ درون سینہ راز نہیں۔ طالبان کی تشکیل میں امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان مساوی طور پر ساجھے دار تھے۔
یہ امریکی ہی تھے جنہوں نے ابتداً ملا راکٹی کو گود لیا۔ ملا راکٹی وہ کردار ہے جو 1996ء میں منظرعام پر آیا۔ ابتداً اس نے چمن کے راستے افغانستان میں داخل ہونے والی تجارتی ٹرانسپورٹ سے بھتہ وصولی شروع کی پھر پٹرولیم اور اشیائے خورونوش کے دو بڑے قافلے یرغمال بنالئے تب ان سے مذاکرات اس وقت کی حکومت کے نمائندوں نے کئے۔
ملا راکٹی بعدازاں طالبان رہنما بنے۔ آگے چل کر پشتون علاقوں کے ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کے طلباء، مولوی صاحبان اور نچلے درجہ کے جہادی رہنمائوں نے اپنے لئے ’’طالبان‘‘ کی شناخت پسند کی۔
اپنے دور اقتدار میں طالبان نے افغانستان میں جس سفاکی درندگی اور انسان دشمنی کو رواج دیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔
بدقسمتی سے اُس وقت ہمارے ذرائع ابلاغ انہیں نجات دہندہ بناکر پیش کررہے تھے اور افغان جہاد (سوویت امریکہ جنگ) کے دنوں میں ہمارے یہاں قائم ہونے والے دینی مدارس طالبان کے سہولت کار اور ان کے لئے بھرتی کیمپ بن گئے۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب دیواروں پر حکیموں کے اشتہارات کے ساتھ
’’آو جنت میں گھر بناوافغانستان میں جہاد کرو‘‘
کے اشتہارات کے ساتھ رابطہ نمبر بھی لکھے ہوتے تھے۔
سوویت امریکہ جنگ، جنیوا معاہدہ کے بعد پھوٹی خانہ جنگی اور پھر طالبان کے ظہور کے بعد تینوں مرحلوں میں ہمارے یہاں کے کماو پوتوں نے خوب مال کمایا۔ بچے غریبوں کے مرے اور مالدار کون ہوئے یہ سب جانتے ہیں۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلافات میں عسکریت پسندی کے در آنے کا زمانہ یا زمانے یہی تین ادوار ہیں۔
امریکہ سوویت جنگ جسے ہمارے یہاں جہاد افغانستان کے طور پر پیش کیا گیااور یہ منافع بخش کاروبار ثابت ہوا ریاست اور مذہبی حلقوں کے لئے۔
جنیوا معاہدہ کے بعد شروع ہوئی خانہ جنگی میں پاکستان کے ایک مخصوص مسلک کے بڑے حصے نے بطور مسلک شرکت کی۔ طالبان کا ظہور ہوا تو دیوبندی فہم کے اسلام کا بول بالا ہوگیا،
” آزاد میڈیا” تو ہمارے ہاں رواں صدی کی پہلی دہائی میں آیا۔ سوشل میڈیا نے دوسری دہائی میں جگہ بنائی اور طاقتور ہوا۔ قبل ازیں تو پی ٹی وی ہوتا تھا۔ این پی ٹی کے سرکاری اخبارات (ان میں سے کچھ بند ہوئے اور کچھ کی نجکاری محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں ہوگئی) باقی کے آزاد کہلانے والے اخبارات و جرائد میں رجعت پسند حلقوں کے طاقت موجود تھی۔
مجھے یاد ہے ان دنوں جب سوویت امریکہ جہاد جاری تھا تو ہمارا ریڈیو اور ٹی وی مجاہدین کے ہاتھوں جتنی فتوحات کرواچکے تھے جنیوا معاہدہ سے قبل اس سے ایسا لگتا تھا کہ نصف سے زیادہ سوویت یونین بھی فتح ہوگیا ہے اور مال غنیمت لئے مجاہدین بس آنے ہی والے ہیں۔
خیر اس جملہ معترضہ سے آگے بڑھتے ہیں۔ طالبان نے جس سفاکی اور درندگی کا اپنے دور میں مظاہرہ کیا اور جس طرح تاریخی و تہذیبی آثار مٹائے اسے ہمارے یہاں اسلام کی نشاط ثانیہ بناکر پیش کیا گیا۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو یہ کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کو چوک میں پھانسی دیتے وقت ان کے منہ میں سگریٹ ٹھونس دینا بھی اسلام کی نشاط ثانیہ قرار پایا۔
طالبان کے دور میں افغانستان دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لئے جنت تھا اس جنت کی تشکیل میں وہی تین مملکتیں پیش پیش رہیں جو طالبان کی تخلیق اور ظہور میں پیش پیش تھیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اگر جنرل باجوہ کہیں کہ چالیس سالہ افغان پالیسی غلط تھی تو داد کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں اور اگر ہم ایسے صحافت و سیاسیات کے طالب علم یہ کہیں کہ امریکہ نواز افغان پالیسی نے پاکستان کو جہنم بنادیا ہے تو ایک طرف حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے دوسرے لمحے میں اسلام بھی۔
سوویت امریکہ جنگ، خانہ جنگی طالبان اور پھر 9/11کے بعد کا افغانستان یہ ہماری افغان پالیسی کے چار ادوار ہیں ان چاروں ادوار میں ہم نے تین ساڑھے تین کھرب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں 70ہزار افراد کھیت ہوئے۔
اب اگر ہم سوویت امریکہ جنگ، خانہ جنگی اور طالبانائزیشن کے تین مرحلوں میں ’’جہادوں‘‘ کا رزق ہوئے لوگوں کا حساب کریں تو یہ تعداد بھی پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
افغان پالیسی سے جنم لینے والی فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کے مقتولین کی تعداد تقریباً چالیس ہزار ہے۔
کل حساب یہ ہے کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد مارے گئے۔
یاد رہے ان مقتولین میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی وزیر قاسم شاہ کی قیادت میں گلگت پر ہوئی لشکر کشی یا طالبان کے پارا چنار پر حملوں میں مارے گئے لوگ شامل نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف ہماری افغان پالیسی پر اگر سوالات ہیں تو دوسری طرف سوالات ان حلقوں پر بھی ہیں جو افغان انقلاب ثور کے پرجوش حامی تھے اور امریکہ برانڈ جمہوریت کے بھی پرجوش حامی ہیں۔
ہمیں کھلے دل سے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ افغان پالیسی ہمارے کچھ حلقوں کے لئے منافع بخش کاروبار رہی لیکن اس پالیسی کا بوجھ پاکستان کے عام شہری نے اٹھایا۔
افغان منظرنامے کے حوالے سے پہلے کالم پر ہمارے پشتون دوست ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی نے پھبتی کسی ’’شاہ جی آپ کا افغان تجزیہ وہی ہے جو اے آر وائی کا ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب حق بجانب ہیں پھبتی کسنے میں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں سچ وہی ہوتاہے جو ہماری سوچ کے مطابق ہو باقی سب جھوٹ ہوتا ہے۔ سادہ لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتوں کے دوست بھی فرقہ پرست شدت پسندوں کی طرح خود کو حق اور دوسرے کے باطل قرار دیتے ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل جب پی ٹی ایم کی تشکیل کے وقت دو کالم تحریر کئے تھے تو ہمارے کچھ پشتون دوستوں نے اس تحریر نویس کو ایجنسیوں کا راتب خور بھی کہا تھا۔
بہرطور یہ عرض کرنا ہے کہ تحریر نویس دستیاب معلومات پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہے یہ ممکن نہیں کہ کسی کے وجود سے انکار کردیا جائے۔
مثلاً آج کے افغانستان میں موجودہ حکومت، طالبان، داعش اور شمالی افغانستان کے طالبان مخالف حلقے ایک حقیقت ہیں۔
اب کوئی کور چشم ہی ہوگا جو افغان ایشو پر بات کرتے ہوئے ان بنیادی حقیقتوں کو نظرانداز کردے۔
معاف کیجئے گا یہ کالم افغان صورتحال کے پس منظر کی نذر ہوگیا، باقی معروضات اگلے کام میں عرض کروں گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: