اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملکہ پکھراج کی آپ بیتی میں مہاراج اور سامراج(1)||رانا محبوب اختر

استاد نے غصے میں پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا" پاگل، چپ ہو جاؤ ۔" اس کے بعد کوئی دو مہینے تک اللہ بخش چپ رہا اور پھر پاگل ہو گیا۔ دیوانہ کبھی ملکہ کے جموں والے گھر کے شہ نشین پر بیٹھ رہتا اور کبھی کبھار کوئی گانا گا دیتا تھا۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ملکہ پکھراج منفرد گائیک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رقاصہ، بہادر، خودار اور ضدی خاتون تھیں، جن کی زندگی اور فن کا سفر لگ بھگ ایک صدی پر محیط ہے۔ان کی آپ بیتی "بے زبانی زباں نہ ہو جائے” بیسویں صدی کی ثقافتی زندگی کا قصہ ہے۔جموں، دلی اور لاہور کی اشرافیہ کی زندگی اور موسیقی کے فن کی طلسم ِہوشربا ہے ۔ملکہ کی پیدائش کا وقت قریب آیا تو ان کی اماں کئی دن سے زچگی کی تکلیف میں تھیں اور مشکل آسان نہیں ہو رہی تھی۔پریشانی میں ملکہ کے نانا گاؤں کے ایک مجذوب بابا روٹی رام کے پاس گئے۔روٹی رام نے ایک پکوڑی نانا کو دی اور مقامی ڈوگری زبان میں کہا ” جا، کھلائی دے”۔پکوڑی ماں کو کھلائی گئی اور مشکل آسان ہو گئی ۔نانا خوشی خوشی نوزائیدہ کو اٹھا کر بابا روٹی رام کے پاس لے گئے تو فقیر نے کہا” پتا نہیں لونڈا ہے یا لونڈی، مگر ہے ملکہ معظمہ ۔راج کرے گی”۔وہ لکھتی ہیں کہ ان کی ایک پھوپھی زاد بہن بے اولاد تھیں۔ان کی خواہش تھی کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ، اسے وہ پالیں گی اور اگر لڑکی ہوئی تو اس کا نام پکھراج ہوگا ۔ یوں بابا روٹی رام کی ملکہ اور پکھراج کے ملاپ سے ہمیر پور کے ایک گمنام گھر میں پیدا ہونے والی بچی کا نام ملکہ پکھراج رکھا گیا۔کون جانتا تھا کہ ایک روز یہ بچی اسم با مسمی بن کر پکھراج کی طرح روشن ہوگی اور موسیقی کی ملکہ بن کر دلوں پر راج کرے گی۔

وہ ریاست جموں کے ایک گاؤں ہمیرپور سدھڑ میں ” لگ بھگ” 1912 میں پیدا ہوئیں اور 4فروری 2004کو لاہور میں وفات پائی۔ملکہ پکھراج کا عہد برطانوی سامراج کے آخری پینتیس سالوں اور2004تک کے پاکستان کا ہنگامہ خیز زمانہ ہے۔اس عرصے میں ہندوستان کی کوئی 563 نیم آزاد ریاستیں اور راجباڑے 1947 میں پاکستان اور بھارت کا حصہ بنی تھیں۔مہاراج ہری سنگھ ” سرکار” جموں کے راجہ تھے۔ ملکہ نو سال کی عمر میں مہاراج ہری سنگھ کی پسندیدہ گلوکارہ کی حیثیت سے ساڑھے چھ سو روپے میں ریاست کی ملازم ہو گئیں۔ باقی تاریخ ہے۔
بیسویں صدی دو بڑی جنگوں اور کولونیل ازم سے چھٹکارے کی صدی ہے۔نسل پرست سفید یورپی آدمی chosen people syndrome کا مریض تھا۔سامی النسل یہودیوں کی طرح سفید فام عیسائی آدمی اور شاید تمام برگزیدہ لوگ اپنے آپ کو خدا کی منتخب مخلوق سمجھتے ہیں۔اسی زعم میں سفید فام یورپی عیسائی آدمی نے افریقہ، امریکہ ، آسٹریلیا اور ایشیاء میں مقامیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا اور مقامی آدمی کو وحشی کہہ کر قتل کیا یا غلام بنایا ۔جدیدیت ، روشن خیالی، عقلیت اور ترقی کے سائنسی تصورات درست مگر سفید آدمی ان تصورات کے پیچھے چھپ کر واردات کرتا ہے۔وہ دورمار ہتھیاروں سے قتل کرتا اور مقامی آدمی کی کھوپڑیوں سے عجائب گھر اور ڈرائنگ روم سجاتا تھا۔ یورپ کے دل میں پھر ہولوکاسٹ ہو گیا اور وہی تکنیک جو یورپ نے امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور ایشیاء میں استعمال ہوئی تھی ہٹلر نے یورپ کے دل میں یہودیوں پر آزمائی۔ راول پیک کے مطابق Heart of Darkness افریقہ کی بجائے یورپ کے دل میں منتقل ہو گیا تھا۔ ہالوکاسٹ میں 60 لاکھ یہودی حراستی کیمپوں میں مارے گئے تھے۔حیرت ہوتی ہے کہ آج انھی یہودیوں نے فلسطین کو حراستی کیمپ بنا دیا ہے! ہولو کاسٹ کی بربریت اور ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بن گرانے کے بعد گناہ آلود مغرب کے پاس پسپائی اور امریکی قیادت میں ریموٹ کنٹرول کولونیل ازم کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔دنیا آزاد ہو گئی اور درجنوں سے سینکڑوں ریاستیں وجود میں آ گئیں ۔کولونیل ازم نے نیوکولونیل ازم یا ریموٹ کنٹرول کولونیل ازم کی پوشاک پہن لی تھی۔ اسی عرصے میں 1947 میں پرانا پاکستان بنا اور 1971میں پہلا نیا پاکستان وجود میں آیا تھا ۔یہ پرآشوب زمانہ مگر فنون کا سنہری عہد تھا۔آشوب، دکھ اور مونجھ کا فن سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ ادب میں نوبیل انعام جیتنے والے ٹیگور بنگالی تھے اور وہ قومی ریاستوں کے مخالف تھے۔ہم نے نوآبادیاتی تتبع میں بنگالی کو اردو سے بدلنے کی کوشش کی تھی۔انگریز سامراج نے سنسکرت کو انگریزی زبان سے بدل دیا تھا۔
علامہ اقبال، فیض احمد فیض، قرت العین حیدر ،کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، حفیظ جالندھری اور انتظار حسین سے لکھاری بیسویں صدی کے ماتھے کا جھومر ہیں تو موسیقی کی دنیا میں استاد بڑے غلام خاں، عاشق علی خاں، توکل خاں ، کندن لال سہگل، نورجہاں، لتا منگیشکر ، مہدی حسن، ملکہ پکھراج، فریدہ خانم ، اقبال بانو اور ثریا ملتانیکر سے نابغے سر سنگیت کے راجے اور رانیاں ہیں ۔آواز کی اس لافانی سلطنت میں ملکہ پکھراج کا تلفظ ، گائیکی، آہنگ اور انداز منفرد تھے ۔ترنم اور تلفظ کا دو آتشہ "ابھی تو میں جوان ہوں” ، میں بھرا ہوا ہے۔ایک پُرآشوب عہد ان کے گیتوں میں سانس لیتا ہے۔ کولونیل قہر کے باوجود بوڑھا برصغیر ابھی تو میں جوان ہوں کی صدا لگاتا ہے۔کہ ابھی تو میں جوان ہوں کی لاشعوری کیفیت ہندوستانی آدمی کے انفرادی اور اجتماعی لاشعور سے جڑی ہوئی ہے!
سلیم قدوائی نے لکھا ہے کہ ملکہ ” ایک دلکش اور خوشگوار شخصیت کی مالک تھیں۔۔۔وہ بہت خوش مزاج تھیں اور ان کو دیکھ کر یہ جان لینا آسان تھا کہ کیوں انھوں نے اپنے قدردانوں اور چاہنے والوں پر اتنے لمبے عرصے سے جادو کر رکھا تھا”۔وہ روایتی معنوں میں تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر اردو زبان ایک فارسی دان غیر روایتی استاد سے اوائل عمری میں سیکھ لی تھی۔مقامی ڈوگری تو ان کی زمین کی زبان تھی۔موسیقی، بڑے غلام خاں کے والد علی بخش سے سیکھی جو جموں میں رہتے تھے۔ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ تانپورہ چھیڑ کر آواز لگاتے تو سننے والے وجد میں آ جاتے۔استاد کے ایک عزیز اللہ بخش، پاگل تھے۔وہ آواز اور گانے میں علی بخش سے بہتر تھے۔ملکہ کے بارے میں استاد علی بخش کا خیال تھا کہ "یہ سر میں گائے گی اور آواز کا لگاو صحیح ہوگا”۔ملکہ لکھتی ہیں کہ ” علی بخش، مولا بخش تلونڈی والا اور اللہ بخش پاگل جیسی آوازیں آج تک کبھی نہیں سنیں۔یہ تینوں جب تانپورے کے ساتھ کھرج بھرتے تو معلوم ہوتا کہ دنیا بھر کا گانا اس میں سمٹ گیا ہے۔احساس ہوتا تمام کمرے میں ہر طرف تانپورے بج رہے ہیں۔” علی بخش سے زیادہ ملکہ نے مولا بخش کی تعریف کی ہے۔”مولا بخش کا علم نہ ختم ہونے والا سمندر تھا”۔ اللہ بخش کے پاگل ہونے کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ایک بار مہاراج نے کسی تہوار کے لئے بڑے گویوں کو بلایا ہوا تھا۔اللہ بخش کا استاد بھی حاضر تھا۔اللہ بخش استادکے ساتھ گانے کے لئے آیا۔استاد شاگرد اکٹھے گا رہے تھے۔شاگرد کے لئے واجب ہے کہ وہ گانے میں استاد کی نقل کرے۔استاد کی تان یا ارادے سے باہر نہ جائے۔کوئی نئی چیز نہ کہے۔مگر اللہ بخش ماحول کی مستی میں ایسی مشکل تان کہہ گیا جسے سن کر پورا دربار عش عش کر اٹھا اور یہ تان دہرانا بوڑھے استاد کے بس میں نہ تھا۔استاد نے غصے میں پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا” پاگل، چپ ہو جاؤ ۔” اس کے بعد کوئی دو مہینے تک اللہ بخش چپ رہا اور پھر پاگل ہو گیا۔ دیوانہ کبھی ملکہ کے جموں والے گھر کے شہ نشین پر بیٹھ رہتا اور کبھی کبھار کوئی گانا گا دیتا تھا۔ایک دن اس نے ” واہ وے سجن تیڈی بے پرواہی، تیکوں ساڈڑی سار نہ کائی” کافی سنائی۔ملکہ لکھتی ہیں کہ ایسی آواز ، سوز اور گانا کہ لگتا تھا جیسے دنیا کی ہر چیز ساکت ہو گئی ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ ” اچھا گانا سننا بھی تعلیم ہوتی ہے”۔ملکہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھیں کہ انھیں کامل اساتذہ سے سیکھنے اور انھیں سننے کے مواقع میسر تھے( جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

رانا محبوب اختر کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: