اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

من موجی ۔ قسط -5||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار مکالماتی تحریر جو دریائے سندھ کی سیر پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روائتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرمئی شام اور ڈوبتے سورج کی لالی سے تسکین حاصل کرنے کے لیئے ہماری طرح دریا کے بیٹ پر چہل قدمی کے شوقین چند نوجوان اور فیملیز بھی بیٹ کی بل کھاتی ریت پر چلتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ بیٹ پر بگلوں، چڑیوں اورہوا میں تیرتی مرغابیوں کی خوبصورت پروازیں رب کائنات کی وحدانیت کا ثبوت دے رہی تھی۔بیٹ پر ایک سکون چھایا ہوا تھا۔وسیع آسمان،مغرب میں ڈوبتی روشنی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے جیسے سرشاری کے عالم کو مزید خوبصورت بنا رہا تھا اورزمین پر مانندِبادصباکے تازہ جھونکھوں سے محظوظ ہوتا ہوا تازگی بخش فضاء کو برقرار رکھے بہت پر امن اور مخمور نظر آرہاتھا۔ میں نے فلک کی وُسعتوں سے اپنی آنکھیں ہٹا کر خاموشی سے چلتے ہوئے عمرانی صاحب کو دیکھا۔ مجھے پتہ ہے کہ اس کے بعد آپ کون سا سوال کرنے والے ہو۔ کہنے لگے، گلزار صاحب! یہاں بیٹ اور دریا پہ لوگوں کی قلت دیکھ کر احساس ہوا کہ وہ دن کہاں روٹھ گئے جب عید تو عید، جمعے والے دن بھی تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔جمعے والے دن بھی دریا کنارے عید کا سماں ہوتا تھا، لوگوں کی کثیر تعداد سے دریا کنارا میلہ گراؤنڈ میں ڈھل جاتا تھا۔ گلزار صاحب! ایک وہ بھی دور تھا جب روزانہ شام کے وقت دریائے سندھ کی رونقیں شباب پر ہوتیں تھیں۔ شام ہوتے ہی عورتوں،مردوں، بوڑھوں،بچوں کی آ مد کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ چند ہی گھنٹوں کے لیے ہی سہی لوگ سب کچھ بھول بھال کر دریا کی پاک و پاکیزہ لہروں میں کھوجاتے۔ دریا کی موجیں ا اور فطرت کے د لفریب مناظر لوگوں میں میں زندگی کا نیا عزم، نیا حوصلہ پیدا کرتے تھے۔۔ یقین کریں میرے ڈیرہ اسماعیل خان کی اصلیت میں یہی رنگ تھے۔۔ میلے، ٹھیلے، تہوار، رسوم و ثقافت، رواج، جھمر، دریس اور مقامی مشروب لسی و بادام گھوٹا ہیں۔ موسم کو خوش آمدید اور الوداع کرنے کی رِیتیں ہیں۔ آپس کی جُڑت ہے۔ محبتیں ہیں۔ یگانگت ہے۔ اور اس تمام انواع و اقسام کی رنگا رنگی کے باوجود، اک بڑی اور خوبصورت سرائیکی قوم کا تصور ہے جو دامان کی بنجر زمینوں، کوہ سلیمان کے پہاڑوں، بلوٹ شریف کے قلعوں سے لے کر اسی دریا کے ساحل تک پھیلی ہوئی ہے۔
میں کہنے لگا، عمرانی صاحب! دریا کے کنارے کتنا سکون ہے۔ انسان خود کو قدرت کے قریب پاکر اپنے دکھ درد ا اور تناؤسے نجات پانے کے احساس میں ڈوب جاتا ہے۔دریا میں اٹھتی ہوئی ہلکی ہلکی لہریں جب پوری تمازت سے بیٹ کے کناروں سے ٹکراتی ہیں تو دل سے تمام پریشانیوں کے دور ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ قدرت کی اس خوبصورتی کے آگے انسان عاجزی و انکساری کے جذبات سے ہمکنار ہو کر خودسپردگی کے احساس کا استقبال کر کے سکون کی سانس لیتا ہے۔ ہوا جب پھیپڑوں سے نکلتی ہے تو گویا من سے ساری کڑواہٹ دور ہو جاتی ہے۔میٹھی ٹھنڈی ہوائیں جب نتھنوں اندر جاتی ہیں تو روح کو تازگی محسوس ہوتی ہے اور ہوا کے جھونکے جب چہرے پر پڑتے ہیں تو آنکھیں بند کر کے بہشت کا تصور کرنا مشکل نہیں۔ عمرانی صاحب! آئیں چپل اتارتے ہیں اور ننگے پاؤں اس گیلی چکنی مٹی اور ریت پر چلتے ہیں۔ ننگے پیر جب گیلی چکنی مٹی اور ریت میں دھنسنے لگتے ہیں تو یہ ہمارے ناخونوں کے لئے یہ سب سے بہترین پیڈی کیور کا سبب بنتے ہیں۔ پھر جب پاؤں پر ریت کے نیچے والا دریا ئی پانی پڑتا ہے تو توریت کو پیروں تلے اسے بہالے جاتی ہے، جیسے اپنے ساتھ من سے تمام منفی چیزیں لے جا رہی ہو اور جب پاؤں واپس ریت سے اوپراٹھتے ہیں تو روح میں مثبت خیالات لاتی ہیں۔ انسان قدرت کے قریب زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ وہ قدرت میں جینے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ یہی پیغام یاد دلانے کے لئے موجیں اس کے پاس آتی ہیں۔
ہاتھوں میں اپنے اپنے چپل اٹھائے ہم نے ننگے پاؤں بیٹ کی گیلی چکنی مٹی اور ریت پر چلنا شروع کیا۔ اردگرد کہیں کہیں اکا دکاجھاڑی نما پودے تھے اور جب ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکے آتے تو جھاڑی نما پودے عاجزی سے اپنے سر جھکا کر فطرت کے خوبصورت نظاروں کا مزا لیتے ہوئے گنگناتے لگتے۔ ہوا کی وجہ سے اڑنے والے سر کے بالوں کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے کنگھی کرتے ہوئے کہا، عمرانی صاحب! جانتے ہیں جہاں ابھی ہم چہل قدمی کر رہے ہیں یہ کون سی جگہ ہے؟ کہنے لگے، کونسی جگہ؟ میں سمجھا نہیں۔۔ ہنستے ہوئے میں نے اپنے سر کا رُخ مغرب کی طرف موڑتے ہوئے سامنے مفتی محمود آئی ہسپتال والی سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اُ س مرکزی سڑک کے آس پاس جہاں آپ کو کٹلس، آئس کریم اور دہی بھلوں وغیرہ کے سٹال نظر آ رہے ہیں ان سے کچھ میٹر نیچے کی طرف غالباً 1878 کے آس پاس محکمہ مال کے آنے والے انگریزانچارج مسٹر ٹکر کے لیے ایک عالیشان بنگلہ تعمیر کرایا گیا۔ جہاں اس کا دفتر اور رہائش بھی تھی۔ اس نے پہلی دفعہ زمین کی ناپ کی اور ڈیرے والوں کی زمینوں کو خسرہ نمبر، کھتونی، کھیوٹ۔ انتقال اور رقبہ وغیرہ کی الاٹمنٹ اور قانونی دستاویز تیار کرکے باقاعدہ قانونی حیثیت دی۔ اس کے کام مکمل کرنے اورجانے کے بعد انگریز سرکار نے یہ سارا رقبہ ماضی میں ڈیرہ کے مشہور و معروف کاروباری شخصیت سیٹھ بالو رام کے ہاتھوں بیچ دیا۔ سیٹھ بالو رام نے اسی رقبہ میں ایک شاندار باغ تیار کیا۔ جس کے مختلف پھلدار درختوں اور ہر قسم کے پھولوں اور بیلوں نے اس سارے علاقے کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ مسٹر ٹکر والے بنگلے کے ساتھ ہی سیٹھ بالو رام نے ہندؤں کے لیئے اپنی مذہبی رسومات اور پوجا پاٹ کے لیئے ایک حجرہ ٹائپ ہال کمرہ بھی تعمیر کرایا جہاں موسیقی وغیرہ کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ شہر ِ ڈیرہ کے باسیوں کے لیے یہ عالیشان باغ چہل قدمی اور دھاونڑی کے لیے یہ جگہ کسی جنت سے کم نہیں تھی۔ ڈیرے وال اس کو بالو رام والا ”تھلہ” کہتے تھے۔
پھر میں نے عمرانی صاحب کو دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے مخاطب کیا اور کہا کہ وہ سامنے والا علاقہ جو بالو رام کے تھلے سے شروع ہونے سے پہلے ہے وہ سارا علاقہ ”حسینو شاہ دی جھلار” کے طور پر مشہور تھا، حسینو شاہ نے بھی بالکل سیٹھ بالو رام کے باغ کی طرح ایک عالیشان باغ بنایا ہوا تھا۔ جہاں پیپل، برگد، ٹاہلی، وغیرہ کے علاوہ کافی تعداد میں پھل دار درخت اور موسمی پھولوں کی لا تعداد کیاریوں کے علاوہ ہر قسم کی سبزی کے کھیت بنائے ہوئے تھے۔ حسینو شاہ اپنی جھلار پر دھاونڑی اور چہل قدمی پہ آنے والوں کو خصوصی طور پر ربیل و موتیا اور گلاب کے پھول تحفے کے طور پر بھی دیتے تھے۔ حسینو شاہ نے پہلوانوں اور جسمانی کثرت کرنے والوں کے لیئے اعزازی طور پر چکنی مٹی کا خصوصی طور پر ایک اکھاڑا بھی بنایا ہوا تھا، جہاں اس وقت کے پہلوان دودا کشتی اور کبڈی کے علاوہ جسمانی کثرت بغیر کسی معاوضے کے کرتے تھے۔۔ لیکن افسوس سیٹھ بالو رام کا تھلہ اور باغ، حسینو شاہ کی جھلار اور اکھاڑہ 1958میں دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب نے تہس و نہس کر دیا، اب ان عالیشان باغوں کے نام و نشان ہی نہیں۔۔
(جاری ہے)

%d bloggers like this: