اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

متوالوں اور جیالوں میں لگی جنگ||حیدر جاوید سید

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اعتراف کر رہے ہیں کہ ''اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی''۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اعتراف کر رہے ہیں کہ ”اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی”۔
مریم نواز کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ہمارے پاس حکومت گرانے کیلئے نمبرز پورے ہیں کسی کے تعاون کی ضرورت نہیں۔
فیصل واؤڈا نے اعلان کیا پنجاب میں حکومت گرائی گئی تو قومی اسمبلی توڑدیں گے۔
سیاست کے میدان میں گرماگرمی ہے، ترین گروپ کے بعد پنجاب میں 15ارکان کا نیاگروپ سامنے آگیا ہے، اس گروپ کو ”وسیم اختر پلس” وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے شکایات ہیں۔
اُدھر پی ڈی ایم کے متعدد رہنما پیپلزپارٹی پر گرج برس رہے ہیں۔ شہباز شریف نے اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں کو عشائیہ دیا۔ مریم نواز نے کہا شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں ان کی دعوت کا پی ڈی ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے مولانا فضل الرحمن اپنی گالی واپس لیں اور معذرت کریں۔
شاہد خاقان عباسی مرچیں چبا رہے ہیں۔
ایک تاثر یہ ہے کہ شہباز شریف پی ڈی ایم میں پی پی پی اور اے این پی کی واپسی چاہتے ہیں مگر نون لیگ کا مریم گروپ مخالف ہے۔ کیا واقعی چچا اور بھتیجی کی سیاسی اُڑان الگ ہے؟
اس سوال کا جواب نوازشریف کے بیان میں موجود ہے۔ بدھ کو لندن سے جاری کئے جانے والے بیان میں انہوں نے کہا پی پی پی معذرت کے بغیر پی ڈی ایم میں واپس نہیں آسکتی۔
پی ڈی ایم پہلا اتحاد ہے جسے بنانے والی پارٹی (پیپلزپارٹی) کو اتحاد سے نکالنے پر خود پی ڈی ایم کی آٹھ جماعتیں متفق ہیں؟ مجھے لگتا ہے آئندہ سیاست پنجاب گروپ اور سندھ پختونخوا گروپ کی ہوگی۔ بلوچ قوم پرست پنجاب کیساتھ کھڑے ہوں گے، اے این پی سندھ کیساتھ، آفتاب شیرپاؤ اگلے چند دنوں میں فیصلہ کریں گے وہ دونوں میں سے کس گروپ کیساتھ کھڑے ہوں۔
فی الوقت وہ نوازشریف اور فضل الرحمن کو سمجھانے میں مصروف ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کو تقسیم کرنے والے بیانات سے گریز کیا جائے۔ ان کے مشورے پر کوئی کان دھرے اور عمل کرے گا یہ بذات خود سوال ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل باردیگر یہ عرض کئے دیتا ہوں جناب شاہد خاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمن ”کسی” کو یقین دہانی کروا چکے تھے کہ پی ڈی ایم مارچ میں اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے گا۔ پیپلزپارٹی نے مستعفی ہونے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ استعفے دینے کا فیصلہ ہوا ہی نہیں تھا تو عمل کیوں کریں۔
مارچ میں ہی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ نون لیگ نے پارٹی کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سے استعفے طلب کئے، قومی اسمبلی کے 27 اور پنجاب اسمبلی کے 35ارکان نے پارٹی قیادت کو استعفے نہیں بھجوائے تھے۔
نون لیگ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ارکان نے استعفے دینے سے انکار نہیں کیا بلکہ قیادت اور ارکان کے درمیان رابطہ تاخیر سے ہوا، سر تسلیم خم ان کی جماعت ہے ان کا مؤقف ہی درست ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نے واقعی اپوزیشن سے غداری کی اور اسٹیبلشمنٹ سے ”مل” گئی ہے تو باقی ماندہ پی ڈی ایم نے اسمبلیوں سے استعفے دیکر احتجاجی تحریک شروع کیوں نہیں کی؟
اصولی طور پر تو ایسا ہوا جانا چاہئے تھا۔
فقیر راحموں کہتے ہیں استعفوں کا میلہ سندھ اسمبلی ”چرانے” کیلئے لگایا گیا تھا۔ یہ طے ہوگیا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی استعفے دینے والی تحریک میں شامل ہوتی ہے تو پھر احتجاجی تحریک کا راستہ روکنے کیلئے ایمرجنسی نافذ کر دی جائے اس کی آڑ میں ضمنی الیکشن ہوں اور 18ویں ترمیم کے کریاکرم کی آخری رسومات ادا کرلی جائیں کیونکہ سینیٹ میں حمایت کی یقین دہانی کروا دی گئی تھی۔
معاملات اس طور آگے نہیں بڑھے جیسا سوچا گیا، ساعت بھر کیلئے رُک کر ایک بار پھر اس امر کی طرف توجہ دلا دوں، فروری، مارچ اور بعد ازاں بھی ان کالموں میں عرض کرتا آرہا ہوں، اپوزیشن اتحاد فطری یا غیرفطری نہیں ہوتے بلکہ یہ وقتی مفادات پر بنتے ہیں۔
اتحاد میں شامل ہر جماعت اپنا نفع نقصان دیکھتی ہے، پی ڈی ایم میں نفع نقصان پر غور کرنے کا زیادہ حق نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو ہے۔ ان دونوں میں اولیت پی پی پی کو حاصل ہے کیونکہ اس کی سندھ میں حکومت ہے۔
پی پی پی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ ہم نے دو وجوہات پر لانگ مارچ سے قبل استعفے دینے سے انکار کیا تھا، اولاً یہ کہ پی ڈی ایم نے استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا پھر اچانک لانگ مارچ سے قبل استعفوں کا شور کیوں مچایا گیا۔
ثانیاً یہ کہ یہ طے ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ یا ان کے رابطہ کاروں سے کوئی بھی جماعت پی ڈی ایم کو اعتماد میں لئے بغیر ملاقات نہیں کرے گی، جب طے شدہ اصول نظرانداز ہوا، اس وقت مولانا فضل الرحمن خاموش رہے، اُلٹا انہوں نے پی پی پی اور بلاول کو گالی دیدی۔
ان دو نکات پر جو بالائی سطور میں عرض کئے ہیں غور کیجئے۔ صاف سیدھے لفظوں میں یہ کہ جو اتحاد حکومت گرانے کیلئے بنا تھا اب اس کے رہنما سوکنوں کی طرح ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ قومی اسمبلی توڑنے کی دھمکی بلاوجہ ہرگز نہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، یہ کچھ کیا ہے اس کے بارے میں فواد چودھری سے پوچھ لیجئے یا پھر۔۔
خیر چھوڑیں، باقی باتیں اگلے کالم میں کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: