اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (آخری قسط)||عباس سیال

تمہارے اوپر چڑھی چاندی کی صوفیانہ قلعی کے نیچے بھی اگر کوئی کھرچ کر دیکھنے کی زحمت کرے تو بوجھ پائے کہ تمہاری تہہ کے نیچے کوئی اورجمنا بہہ رہی ہے

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

دِلّی میں آخری دن

دِلّی الوداع : صبح سویرے جب سورج کی اُجلی کرنیں میر و غالب اور داغ کے شہر کا مراقبہ کرنے میں منہمک تھیں، تب ہم نے بھی اُس سر زمین کو جھک کرسلام کیا اور اس نے دونوں بازو پھیلاکر ہمیں گلے سے لگایا۔آج میری دِلی سے روانگی تھی۔ اس شہر کو خدا حافظ کہنے سے پیشتر یہ نا انصافی ہوگی کہ میں اپنے اُن محسنوں کا شکریہ ادا نہ کروںکہ جن کی کاوشوں کے طفیل میرا سفر انتہائی کامیاب رہا تھا۔ سب سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان سیکنڈری سکول کے منیجر وِجے کمار تنیجا کہ جنہوں نے اپنی گاڑی سے مجھے ہر جگہ پہنچایا، خصوصاً بنوں اوربہاولپوری برادری سمیت ہر جگہ میرا تعارف کروایا، میرے کام کو سراہا بلکہ اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ میں دوبارہ دِلی آﺅں،یہ واقعی ان کی محبت کی دلیل تھی اور ان کی عنایات کاشکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ روشن ذہن ، مثبت فکر اورسیرو سیاحت کے شوقین، بے فکرے راجکمار ملک کہ جنہوں نے میرے قیام وطعام اور میری راحت کا خوب انتظام کیا تھا ۔ ایک اور سرائیکی گلیڈی ایٹر جگدیش چندر بترا کہ جنہیں قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ۔ کیا عجب درویش انسان ہیں کہ عین لڑائی کے وقت اپنی تلوار نیام میں رکھ دیتے ہیںاور بیٹھے بٹھائے چینل بدل کر کسی اور فریکونسی سے فیض یاب ہونے لگتے ہیں۔اپنی جڑوں کی تلاش میں نکلا ایک سوبر اور مخلص دوست مکیش اسیجا جو ناپ تول کر بولتاہے اور کیا خوب سرائیکی بولتا ہے۔ مکیش کی اماں جو صرف اس بات پرخفا تھیں کہ میں اپنا گھر ہوتے ہوئے ہوٹل میں کیوں ٹھہر اہوں اور مکیش کے والد منوہر اسیجا، انگریزی کے نامور فکشن رائٹر ، جو ڈیرہ کی مستند تاریخ پر گھنٹوں آپ کو لیکچر دے سکتے ہیں ۔دیوی دیال کھنیجو کی محبت اور عزت افزائی کا شکریہ جنہوں نے کلاچی اور ڈیرے وال ہندو برادری سے ملوایا۔

             دِلی میں اپنے ہفتہ بھر قیام کے دوران مجھے سرحد پار بیٹھے ڈیرے وال بزرگوں اور دوستوں سے بہت کچھ سیکھنے ، سمجھنے، پرکھنے اور کھوجنے کا موقع ملا مگر افسوس کہ میں دِلی کے چہرے پر پڑے پراسراریت کے پردے کو اُتارنے میں ناکام رہا ۔ دِلی کو جیسا میں دیکھنا چاہتا تھا شاید ویسا نہیں دیکھ پایا لیکن یہ بھی کیا کم تھا کہ دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔۔۔ ائیرپورٹ رُخ بھاگتی گاڑی کا شیشہ نیچا کئے دِلی پر الوداعی نگاہیں ڈالے میں اس سے محو کلام تھا۔

             دِلّی ! تم صدیوں پرانے برگد کا ایک ایسا گھنا درخت ہو جو دھوپ کو اپنی پشت پر بٹھائے مسلسل چھاﺅں اُگل رہا ہے اور جس کے کھوکھلے تنے میں بیٹھا ماضی کا قصہ گو بیتے وقت کی داستان سنا رہا ہے ، جسے راہ گیر لمحہ بھر کیلئے ٹھہر کر سنتے ہیں اور پھر اپنی دھن میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔تمہاری جھڑتی حویلیاں،بت کدے کی پتھریلی دیواروں پر کنداں ننگے بازوﺅں کو آپس میں جکڑے کسی راجے مہاراجے پر جھکی دیویاں اور داسیاں۔کسی کا سر قلم ، کسی کے پاﺅں غائب توکسی کے کولہے ندارد ۔۔رانوں سے رانیں چپکائے کھڑی کھنڈرنما عمارتیںاور ان سب کے سامنے زمین کا سینہ پھاڑے کھڑے کنکریٹ کے اونچے ستون ، ستونوں پر بچھی آہنی پٹڑیاں اور ان پٹڑیوں پر کسی سانپ کی مانند رینگتی، بل کھاتی میٹرو ٹرینیں۔دِلی تم واقعی ناقابل یقین، ناقابل اعتبار، ناقابل بھروسہ ہو۔ کسی گھُنی عورت کی طرح میلی چادر کے پلو میں اپنا بوڑھا چہرہ چھپائے ۔۔۔تم جیسی اوپر سے نظر آتی ہو، ویسی اندر سے ہو نہیں۔۔

دِلی شاہر نمونہ

 اندروں مٹی باروں چونا

            تمہارے اوپر چڑھی چاندی کی صوفیانہ قلعی کے نیچے بھی اگر کوئی کھرچ کر دیکھنے کی زحمت کرے تو بوجھ پائے کہ تمہاری تہہ کے نیچے کوئی اورجمنا بہہ رہی ہے ۔تمہاری بھول بھلیوں میں بھی ایک سحر ہے۔ نجانے مجھ جیسے کتنے سیاح روزانہ تجھے کھوجنے کی غرض سے یہاں آتے ہیں اور اوپری اوپر دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ کچھ سر پھرے ٹھہر کر تمہارے سینے پر پڑے ماضی کے پتھر کو ذرا سا کھسکا کر نیچے بھی جھا نکنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر کچھ بتائے بغیر چپ چاپ آگے نکل جاتے ہیں۔پورا سچ کوئی بھی نہیں بتاتا۔آخروجہ کیا ہے؟

دِلی! اگر زندگی نے مہلت دی تو تم سے ملنے دوبارہ آﺅں گا۔کسی گھوڑے پر بیٹھے شاہ سوار کی طرح فخر،تکبر، غرور،طاقت، سلطنت کو وسیع تر کرنے کی دھن، دولت کو ذخیرہ کرنے کا لالچ اور اپنے دھرم کو برتری دلانے کی خوش فہمیوں ،غلط فہمیوں اور احساس کمتریوں سے ماورا ءکسی ایسے عقیدت مند کی مانند جو پھولوں سے بھری چنگیر سر پر اٹھائے تمہاری خاک میں سوئے محبوبِ الٰہی کے در پر خاموشی سے کھڑا تمہارے درشن کا متمنی ہو ۔ تب تک کیلئے خدا حافظ۔

      الوداع اے دِلّی !… پھر ملیں گے گر خدا لایا

٭٭٭٭٭٭

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: