اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مور بی بی ( بیگم نسیم ولی خان ) کا سفر حیات تمام ہوا||حیدر جاوید سید

بیگم نسیم ولی خان ایک سادہ، باوقار روایت پسند خاتون تھیں۔ باچا خان کی بہو اور عبدالولی خان کی اہلیہ سیاسی عمل میں اسی تعارف کے ذریعہ آئیں لیکن پھر انہوں نے اپنا مقام خود بنالیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرخپوش تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کی بہو اور مرحوم خان عبدالولی خان کی اہلیہ محترمہ بیگم نسیم ولی خان سفر حیات مکمل کرکے حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگئیں۔
بیگم صاحبہ جنہیں پشتون احترام سے مور بی بی (اماں جی) کے نام سے یاد کرتے تھے، عملی سیاست میں اس وقت آئیں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھجوائے گئے ریفرنس پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو درست قرار دیا۔
بیگم صاحبہ خان عبدالولی خان کی دوسری اہلیہ تھیں۔ پہلی اہلیہ اسفند یار ولی خان کی والدہ تھیں جن کے سانحہ ارتحال کے کچھ عرصہ بعد ولی خان نے ان سے شادی کی۔
بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگنے کے بعد قومی اسمبلی کے آزاد رکن سردار شیر باز خان مزاری نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے نام سے نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس سے نیپ کے سابقین کو سیاسی تحفظ ملا۔ این ڈی پی میں نیپ کے سابقین کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی شامل ہوئے ان نمایاں افراد میں پیپلزپارٹی کے سندھ سے رکن قومی اسمبلی حاکم علی زرداری (آصف زرداری کے والد) بھی شامل تھے
(حُسن اتفاق کہہ لیجئے کہ نیپ اور این ڈی پی ہماری اولین سیاسی محبت تھیں اور ہم ان دونوں جماعتوں کے باضابطہ رکن بھی رہے) حاکم علی زرداری نو تشکیلی شدہ این ڈی پی صوبہ سندھ کے چیف آرگنائزر بنائے گئے۔
تب ان سے سوال ہوا کہ وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بنے این ڈی پی میں شمولیت سے قبل قومی اسمبلی سے مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟
ان کا جواب تھا ولی خان کے خاندان سے ہمارے نصف صدی کے مراسم ہیں، مشکل وقت میں، میں اپنے دوست کے خاندان کے ساتھ کھڑا ہوں۔
بیگم نسیم ولی خان این ڈی پی کی سینئر نائب صدر منتخب ہوئیں۔ ابتدا میں نیپ کی باقیات این ڈی پی میں ہی شامل تھیں پھر کچھ لوگوں نے ایک کنونشن منعقد کرکے نیشنل پروگریسو پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنالی اس جماعت میں نیپ کا کمیونسٹ عنصر شامل تھا۔
بیگم نسیم ولی خان سردار شیر باز مزاری کے ہمراہ این ڈی پی کو منظم کرنے کیلئے ملک بھر میں سرگرم عمل ہوئیں اور کچھ ہی وقت میں این ڈی پی ایک ملک گیر جماعت کے طور پر ابھر کے سامنے آئی۔
این ڈی پی پہلے اپوزیشن اتحاد یو ڈی ایف میں شامل ہوئی اور پھر پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) میں۔
پی این اے نے 1977ء کے عام انتخابات کے لئے ملک گیر انتخابی مہم چلائی تو بیگم نسیم ولی خان انتخابی جلسوں میں سب سے زیادہ مقبول مقرر کے طور پر سامنے آئیں۔
سادہ انداز میں اپنی بات کہنے کا سلیقہ رکھنے والی بیگم نسیم ولی خان این ڈی پی کی سینئر نائب صدر ہونے کے باوجود اپنی جماعت کی سربراہ ہی سمجھی جاتی تھیں۔
قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک کے نتیجہ میں ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا اور یہ تیسرے فوجی آمر گیارہ برس سے کچھ اوپر ملک پر مسلط رہے۔
جنرل ضیاء نے حیدر آباد سازش کیس بند کرکے نیپ کے رہنمائوں کو رہا کیا، حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد خان عبدالولی خان نے پہلے احتساب اور پھر انتخابات کا نعرہ لگایا جس سے جنرل ضیا کو انتخابی وعدہ سے مکرنے کا موقع اور حوصلہ ملا۔
خان عبدالولی خان رہائی کے بعد سیاسی عمل میں سرگرم ہوئے تو بیگم نسیم ولی خان نے پھر سے خاتون خانہ کے فرائض سنبھال لئے۔
1980ء کی دہائی میں این ڈی پی سندھی عوامی تحریک اور چند چھوٹی جماعتوں کو ملاکر نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ترقی پسندوں کی یہ جماعت چند قدم چل کر بکھر گئی۔
پشتون قوم پرستوں نے اپنی جماعت کا نام عوامی نیشنل پارٹی رکھ لیا۔ (یاد رہے کہ حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد بھی نیپ کے رہنما دو حصوں میں تقسیم ہوئے پشتون اور پنجابی رہنما این ڈی پی میں گئے مگر بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔ سید محمد قسور گردیزی، محترمہ سیدہ عابدہ حسین ان کے ساتھ چلے گئے)
بیگم نسیم ولی خان اے این پی کے پلیٹ فارم سے سیاسی عمل میں شریک ہوئیں۔ ایک طویل عرصہ پارٹی کی صوبائی صدر رہیں پھر اپنے صاحبزادے سے اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے پارٹی کا الگ دھڑا بھی بنایا مگر اس دھڑے کو عوامی پذیرائی نہ مل سکی بعدازاں مشترکہ خاندانی دوستوں نے بیگم صاحبہ اور اسفندیار ولی خان میں صلح کروادی جس کے بعد انہوں نے اے این پی کا اپنا دھڑا تحلیل کردیا۔
بیگم نسیم ولی خان ایک طویل عرصہ سے صاحب فراش تھیں۔ پچھلے چند ماہ سے انہوں نے خاندان کے علاوہ دیگر لوگوں سے ملنا جلنا بھی بند کردیا تھا۔
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور اب رکن قومی اسمبلی امیر حیدر ہوتی ان کے بھتیجے ہیں۔
ایک طویل عرصہ پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل رہنے والی خاتون سیاستدان کے سانحہ ارتحال سے پشتون قوم پرستوں اور ملک بھر کے جمہوریت پسندوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
وہ پاکستانی سیاست کے کئی ادوار کی مجسم تاریخ تھیں۔
پی این اے کی احتجاجی تحریک میں نظر بندی کے دوران ایئر مارشل اصغر خان کی طرف سے مسلح افواج کے سربراہوں کو لکھے گئے خط کی انہوں نے بھی تائید کی البتہ بعدازاں انہوں نے اس تائید کی کھلے دل سے عوام سے معذرت کر لی یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا منہ بولتا ثبوت تھا کیونکہ اس ملک میں سیاستدان اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں نہ معذرت۔
پچھلے کچھ عرصہ سے وہ سیاسی طور پر فعال نہیں تھیں مگر پشتون سماج میں ان کے احترام میں کوئی کمی نہیں آئی ان کے سانحہ ارتحال سے پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا۔
بیگم نسیم ولی خان ایک سادہ، باوقار روایت پسند خاتون تھیں۔ باچا خان کی بہو اور عبدالولی خان کی اہلیہ سیاسی عمل میں اسی تعارف کے ذریعہ آئیں لیکن پھر انہوں نے اپنا مقام خود بنالیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: