مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک مشاہدہ ||وقاص بلوچ

یوں نشاةِ ثانیہ کے بعد برطانیہ میں جہاں چوسر اور ملٹن جیسے شعرا پیدا ہو رہے تھے وہاں بیکن، ہابز، لاک، گلیلیو اور نیوٹن جیسے سائنس دان اور فلسفی بھی پیدا ہونے لگے۔ ج

وقاص بلوچ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹامس کارلائل نے اپنے ایک انشائیہ میں کہا تھا کہ تاریخ بڑے آدمیوں کی سوانح ہے۔ یونان میں نشاة ثانیہ سے پہلے بڑے ناموں میں سے افلاطون، ارسطو، سقراط، کے ساتھ ساتھ ہومر اور ورجل جیسے شعرا بھی تھے۔ لیکن ترکوں اور عثمانیوں کے حملوں کے بعد یونان جو علوم کا مرکز تھا، جہاں علوم کو سازگار ماحول میسر تھا وہاں بربریت سے پھوٹ پڑ گئ۔ یونانی وہاں سے ہجرت کر کے فرانس، اٹلی، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔ اپنے ساتھ ہی سقراط ، ڈیموکریٹس ، ہیراقلیطس ، افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفیوں، سائنس دانوں کے تجربات ، علوم بھی ساتھ لاۓ۔

یوں نشاةِ ثانیہ کے بعد برطانیہ میں جہاں چوسر اور ملٹن جیسے شعرا پیدا ہو رہے تھے وہاں بیکن، ہابز، لاک، گلیلیو اور نیوٹن جیسے سائنس دان اور فلسفی بھی پیدا ہونے لگے۔ جان ملٹن اور چوسر کے ہاتھ میں جذباتیت کی باگ تھی تو گلیلیو اور نیوٹن عقل اور منطق کے بیٹے تھے۔ اس دور میں انسانی ارتقا کو ہر دو عناصر یعنی جذباتیت اور عقل دونوں برابر درکار تھے۔ وقت بڑھتا گیا شاعر اور سائنس دان متوازی پیدا ہوتے رہے۔ ورڈزورتھ اور کیٹس جیسے شعرا پیدا ہوۓ وہاں ڈاروِن اور مارکس (سماجی سائنس دان) جیسے سائنس دان بھی پیدا ہوۓ۔ ابھی تک انسان کو سوچ کی پروان کے لیے دونوں مرکبات برابر درکار تھے۔ اس لیے یہ سب اس وقت کے تقریباً بڑے آدمی کہلاۓ۔

پھر جدید دور شروع ہو جاتا ہے۔ اب انسان کو پتہ چل گیا ہے کہ حقیقی دنیا کسی شاعر کی تخیلاتی دنیا سے زیادہ اہم اور زیادہ مختلف ہے۔ یہ ریشنل دور تھا۔ یہاں دنیا دو عظیم جنگوں سے نبرد آزما ہو رہی تھی۔ یہاں جنگوں کے زخم قصیدوں سے مندمل نہیں ہونے تھے۔ یہاں انسان اتنا باشعور ہو چکا تھا، اسے معلوم ہو گیا تھا تخیل کی لطافت سے نہیں عقل کی کارکردگی سے منزلیں طے ہو سکتی ہیں۔ سفر بھی ملکوں شہروں کا نہیں، سیاروں کا تھا۔ یہاں بڑا آدمی صرف وہ ہونا تھا جس نے انسان کو اس منڈلاتی اِبتلا سے نکالنا تھا۔ سو یہاں ٹی ایس ایلیٹ سے زیادہ آئن سٹائن کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اب کائنات کی حرکات و سکنات معلوم کرنی تھیں سو یہاں رابرٹ فروسٹ سے زیادہ سٹیفن ہاکنگ چاہیے تھا۔ یہاں اندھیرا سہتی دنیا کو روشنی چاہیے تھی سو لینگسٹن ہیوز سے زیادہ ایڈیسن کی مانگ تھی۔ یہاں دنیا کے سماجی معاملات بھی نمٹانے تھے سو برٹرینڈ رسل، نوم چومسکی جیسے مفکر، سارتر اور سیمون ڈی بووار جیسے نظریہ دان جان ایشبری، مایا اینجلو، ایلن جنزبرگ جیسے شعرا سے بڑا مقام رکھتے ہیں۔
یہی نہیں تاریخ خود پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ اب ان لوگوں کو از سر نو پڑھا جا رہا ہے جن کے سَر شاعری کا بوجھ نہیں ہے۔ اس وقت دنیا کے جن دس سرِفہرست لوگوں سے یونیورسٹیز کے مقالوں اور تحقیقات سے سب سے زیادہ استفادہ کیا جا رہا ہے ان میں صرف ایک شاعر (وہ بھی دراصل ڈرامٹسٹ ہے) شیکسپئر ہے۔ اب تہذیب کو شاعری تک محدود نہیں کرنا ہو گا۔ جہاں صرف شاعروں کی بے لگام لفاظی تہذیب اور کلچر ہے اور سائنس کے حاصلات کلچر کا حصہ نہیں ہیں، وہاں کی تہذیب اور کلچر کو پسماندہ کہا جاۓ گا۔ وہاں کی تہذیب پر ترس کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

لون دا جیون گھر نیٹو سینسیبلٹی ہے۔۔۔کاشف بلوچ

رفعت عباس دا ناول لون دا جیون گھر۔۔۔ نذیر لغاری

ڈیلی سویل بیٹھک: لون دا جیون گھر۔۔ناول رفعت عباس ۔۔ پہلی دری

سرائیکی مقامیت کی سوجھ بوجھ اور لون دا نمک گھر ۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: