اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی مقامیت کی سوجھ بوجھ اور لون دا نمک گھر ۔۔۔عامر حسینی

رفعت عباس کا خطہ صدیوں سے مغلوب و مفتوح ھے اس لیے ان کے نزدیک عرب، افغان، منگول، پرتگالی اور انگریز سب استعمار کے روپ ھیں، جنھوں نے اس خطے کی مقامی شناخت کو اپنے اپنے بیانیوں سے مسخ کرنے کی کوشش کی ھے۔”لون دا جیون گھر”اس شناخت کو واگزار کرانے کی ایک کوشش ہے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا دروازہ
نئے پھاٹک سے ایک لوکل بس میں بیٹھا۔ یہ بس بچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں سے سے بھری ہوئی تھی ۔ سڑک کے دونوں طرف زمانہ چل رہا تھا اور جگہ جگہ جیون دھارا بہتا جاتا تھا۔ پرانے قلعے کی چاڑی کے نزدیک اتر گیا ۔ دوپہر کے دو بجے تھے اور موسم بہار کی پہلی سیڑھی چڑھ رہا تھا- درختوں کے آخری پتے سڑکوں پہ اڑتے پھررہے تھے۔ قلعے کی دیوار کے نیچے اس بوڑھے شہر کے تمام زمانوں کے کبوتر اکٹھے تھے اور کسی قصّے میں سے دانا پانی ان کو پہنچا تھا۔
(جیون کا نمک گھر – ناول رفعت عباس دسمبر 2020)
رفعت عباس سے ملنے سے پہلے میں ان کی نظموں کی کتاب ” بھوندی بھوئیں تے(گھومتی زمین پر) سے آشنا ہوا تھا۔ اور پھر حفیظ خان کی کتاب سے ان کی شاعری سے تفصیلی تعارف حاصل ہوا۔ اور پھر حفیظ خان کے توسط سے میں رفعت عباس سے ملا ۔ اور انہی کے توسط سے میں مرحوم شمیم عارف قریشی سے ملا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب پیر مظفر بخاری کے گھر خورشید کالونی میں ان سے قریب قریب ہر روز ہی ملاقات ہونے لگی اور ان کے ہاں جو بیٹھک جمتی اس میں سب سے آخر میں رفعت عباس کو میں اور مظفر بخاری ان کے گھر واقع پرانے شجاع آباد چھوڑنے جایا کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک طویل وقفہ درمیان میں آیا- ایسا وقفہ کہ جب ہم دوبارہ کیفے ٹائمز ابدالی روڈ پر ملے تو شمیم عارف قریشی مکلاوہ دے چکے تھے۔ اور وہیں رفعت صاحب نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ وہ ان دنوں ناول لکھ رہے ہیں اور شاید اس موقعہ پر انہوں نے مجھ سے "لینڈ اسکیپ” بارے بھی سوالات کیے تھے اور یہ بھی پوچھا تھا کہ اگر آپ نے لینڈ اسکیپ جس بارے ناول لکھ رہے ہوں، اسے اس زمانے میں نہ دیکھی ہو جس کا زکر آپ کے ناول میں نہ ہو تو اسے آپ کیسے بیان کرتے ہو؟ یہ سوال کرتے وقت شاید علی اکبر ناطق بھی موجود تھے اور انہوں نے اور میں نے بیک وقت یہ کہا تھا کہ گزرے زمانوں کے لینڈ اسکیپ کو فنتاسی کے زریعے بھرا جاسکتا ہے۔ رفعت نے اس موقعہ پر ایک دم سے پوچھا کہ اگر اس زمانے کی لینڈ اسکیپ آپ کے خوابوں میں آجائے اور وہ خواب آپ کو یاد ہوں تو؟ یہ سن کر میں تو پھڑک ہی گیا تھا۔ رفعت عباس نے اپنے پہلے ناول میں گزرے زمانوں کی لینڈاسکیپ کو اپنے خوابوں کے زریعے سے ہی بیان کیا ہے۔
ہماری یہ ملاقات گزشتہ موسم گرما میں ہوئی تھی اور پھر ان کی مجھے کوئی خیر خبر نہ ملی – میں نے سوچا کہ وہ ناول لکھنے میں مصروف ہوں گے اور اس لیے ان کو ڈسٹرب نہ ہی جائے تو اچھا ہوگا- پورا موسم گرما گزر گیا اور پھر موسم سرما آگیا- دسمبر کے دوسرے ہفتے ان کا فون آیا اور کہنے لگے کہ "ملاقات ہونی چاہئیے میں اپنا ناول آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں” اور پھر اسی ہفتے میں ان کے گھر پہنچا۔ دن ڈھل چکا تھا اور مغرب کی ازان ہورہی تھی جب میں پرانا شجاع آباد روڈ پہنچا تو وہ اپنی گلی سے کچھ دور بنے یو ٹرن کے پاس ہمیں لینے آئے کھڑے تھے۔ میرے ساتھ راشد رحمانی صاحب تھے۔ ہم دونوں کو وہ لیکر گھر پہنچے اور ایک کمرے میں لے آئے جو ان کا بیڈ روم اور اسٹڈی روم دونوں تھا۔ یہاں وہ بیڈ پہ بیٹھ گئے اور میں ان کے پاس کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ہم نے کچھ دیر باتیں کیں، میں نے ان کو عباس زیدی کا ناول "کفار مکّہ” پیش کیا اور ساتھ ہی عباس زیدی کے بارے میں بتایا بھی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے اپنا ناول "جیون دا لون گھر” دیا اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیڈ کی سائیڈ دراز سے ایک اور کاپی نکالی اور کہنے لگے،”میں اس کتاب کے اوپر لائن ٹو لائن اس کا اردو ترجمہ کررہا ہوں- عکس پبلیکیشنز والے اس کو چھاپنا چاہتے ہیں” میں نے ان کو مشورہ دیا کہ اپنے کمپوزر سے کہیں اس کا ایک پرنٹ نکال کر آپ کو دے جس میں سطروں کے درمیان کافی سپیس ہو اور آپ آسانی سے اردو ترجمہ کرتے جائیں۔ ان کو تجویز پسند آئی اور یوں ہماری ملاقات اختتام کو پہنچی اور وہ ہمیں چھوڑنے کے لیے سڑک تک آئے۔
میں گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا تھا اور میں نے "جیون دا لون گھر” ناول پڑھنا شروع کردیا۔ "مامے دا ہوٹل” قادر پور راواں تک میں نے دو باب پڑھ لیے تھے۔ اور میں رفعت عباس کی کتھا کو نثر میں بیان کرنے کی مہارت کا قائل ہوچکا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے طویل کتھا پہلی بار لکھی ہو۔ ان کی کتاب "پروبھرے ہک شہر چوں” طویل نظم ہے لیکن اصل میں یہ منظوم کتھا ہے۔ اب کی بار انہوں نے قصّہ نثر میں لکھا تھا اور اس مہارت سے لکھا تھا کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔
کتاب کی شروعات "پہلا دروازہ/پہلی دری” سے ہوئی اور اس کا ترجمہ میں شروع میں دے چکا۔ اس کے ناول ڈرامائی انداز میں شروع ہوتا ہے:
ایک روز لونکا چلا گیا-
یہ لونی شہر تھا۔ اس شہر میں خدا تھا، جنگ تھی نہ موت تھی ۔ یہاں تو ہر کوئی ایک عام آدمی تھا ۔ لونکا بھی عام آدمی تھا جو لوگوں کے ساتھ اکٹھے رہتا تھا۔ وہ لوگوں کے لیے پانی کے کھوہ کھدوایا کرتا اور سبزیاں بوایا کرتا تھا ۔ وہ گلیوں کا اسکیل سیدھا کرتا اور پانی کی نکاسی کی نالیاں نکلوایا کرتا تھا۔ اس نے شبد، کاغذ اور ناٹک گھر بنائے اور پہلا کھیل /پلے ایکٹ لکھا بھی۔
ناٹک اس شہر کا "نروار/فیصلہ گھر” تھا اور سارے دھیان/ خیال "کھیل/ پلے ایکٹ” کے اندر سے چلاکرتے تھے – ناٹک کھیل میں سارا لونی اکٹھا ہوا کرتا تھا۔ اس ناٹک سے لونی کی تقدیر نمودار ہوا کرتی اور ہر چھوٹا بڑا کام کھیل میں مانے گئے اور مسترد کیے گئے عمل کے اندر سے گزرتا تھا۔ اس ناٹک سے آگے دیکھنا بھی نروار کے اندر ہی بندھا ہوا تھا اور ان کو ناٹک کے سب زمانوں کے اندر ایک باری کا حق تھا کہ کسی بھی کھیل کو تین دن کے اندر اندر دوبار رچانے کا کہہ ڈالیں۔ یہ ناٹک گھر لونی شہر کے بیچ میں ایک چوک بن گیا تھا جہاں سے شہر کی ساری سڑکیں نکلتی تھیں۔ یہیں سے سڑکیں بیاہی جاتی تھیں اور گلیوں کا جنم ہوا کرتا تھا۔ گلیوں کے اندر گھر تھے جو لونی کے انٹرپرائز/بزنس وینچر اور جیون کاری سے نکلے تھے۔ نئے نئے پرندے اور جانور اور ون پھل پھول رہے تھے۔ اب پہلی بہار، پہلی سبزی اور پہلے ون کا کھیل کھیلا جاچکا تھا۔ پہلی بہار کا نام نیلی ، سبزی کھمبی اور ون کا نام نیم تھا۔ نیلی لونی کے گھروں کی دیوار، چھتوں اور نیم کے درختوں پہ بیٹھتی تھی۔ گھمبیاں سڑک کے ساتھ ساتھ دیکھی جاتی تھیں۔ یہ سارا کام لونی کی ہوت کے اندر پہلے "کھیل/ پلے ایکٹ” بنتا اور پھر زندگی بن جاتا تھا۔ سڑکیں،گلیاں۔ بازار کی کچھائی ، گھروں کی رنگائی اور دروازوں اور سنگلی کی اکرائی نترتی آتی تھی۔ شہر کے باہر ندی کا بند گر گیا تھا اور مچھلیاں اور کشتیاں رنگی گئی تھیں –شیشے اور بادلوں کا کام ڈھل گیا تھا اور کاروبار و بیوپار کا چہرہ نکل آیا تھا۔
یہ بادل اور بارشوں کے گھٹے لونی کے انٹرپرائز کا بڑا حصّہ تھے۔ بادل لونی کی چھتوں ، گلیوں ، سڑکوں سے نیچے تک اتڑ آتے تھے۔ لونی کے باسی ان بادلوں کی پرتیں بناتے اور گھٹوں میں ان کو باندھ رکھتے تھے۔ ان کے پاس یہی ایک ایڈوانس مہارت تھی جس کے زریعے وہ گھٹوں میں بادلوں اور بارشوں کی سنبھال کرسکتے تھے۔ یہ کام بہت ہی محنت اور پیار سے کیا جاتا تھا اور ہر کوئی اپنی چھت، اپنے صحن اور دروازے کے آگےرسی سے باندھ اس کی سنبھال کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بادل رات لونی میں اترتے اور اگلے روز سو جاتے تھے۔ آگے بازار میں ان کی بڑی کھپت تھی اور لونی کے باسیوں کی اس پہ خوب گزر بسر ہوتی تھی ۔ لونی میں بیوپاری اترتے اور وہ ان بادلوں کے گھٹے بغیر بارش والے شہروں اور ملکوں تک لیجاتے۔ یہ بارشوں کے گھٹے عورتوں ، جانوروں، رپڑ اور تھل تک پہنچتے اور حیاتی کو رنگ دیتے تھے۔۔۔۔۔
نمک کے شہر میں شیشے کے کارخانے چلتے تھے۔ ان کارخانوں میں بھٹیوں میں یہ شہر اپنی طرز کے خاب ڈھالتا تھا۔
نسرا کا ہاتھ خوابوں تک پہنچتا تھا
وہ لونکا کو اپنے تے لونی کے باسیوں کے خوابوں میں تلاش کرنا چاہتی تھی۔ اسے خوابوں کے اندر اتر جانے اور خوابوں کے اندر انٹرپرائزر لونکا کی پرچھائیں نظر آتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی خواب کے اندر لوگوں کو جنگ یا موت سے باہر نکال سکتی تھی ۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس ناول کے چند اقتباس پیش کرنے کے بعد اپنے اردو پڑھنے والے کو کون سا جملہ لکھ کر دوں کہ ان کو پتا چلے کہ رفعت عباس کل تک اپنی شاعری میں جو کہہ رہے وہ فکشن کے راستے کیا کہہ رہے ہیں اور وہ اپنے قاری تک کون سی سوجھ بوجھ پہنچانا چاہتے ہیں۔ مجھے ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر اور معروف صداکار فخر بلوچ کے بیٹے کاشف بلوچ نے راہ سجھا دی۔
“Life-house of the Salt” is sensibility of the Saraiki Natives. Native does not see his/her land through the colonial lenses but he/she sees his/her land through his own lenses. Native’s tale starts from his/her old Chak/Village/Basti through his/her own original sensibility not through colonial sensibility.
لون دا جیون گھر سرائیکی مقامیوں کی سوجھ بوجھ ہے۔ مقامی اپنی وسوں کو نوآبادیاتی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو اپنی وسوں کو خود اپنی نظر سے دیکھتا ہے۔ مقامی کی کہانی اس کے اپنے قدیم چک، گاؤں یا بستی سے خود اس کی اپنی اصلی سوجھ بوجھ سے شروع ہوتی ہے ناکہ نوآبادیاتی سوجھ بوجھ سے۔
رفعت عباس سرائیکی خطے کے فکشن نگاروں میں شاید پہلے فکشن نگار نے جس نے اپنے پہلے ناول میں سرائیکی مقامیت کی بازیافت، مقامی شناخت کی بحالی اور مقامی آدمی کی نوآبادیاتی غلامی سے نجات کا راستا دکھایا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا سرائیکی فکشن ان کے نقش قدم پر چلتا ہے؟
ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے بالکل درست لکھا ہے:
رفعت کے نزدیک انگریزی نو آبادیات، مذھبی جارحیت، فوجی آمریت اور جاگیردارانہ جمہوریت ،سب استعمار کی شکلیں ھیں۔رفعت عباس کا خطہ صدیوں سے مغلوب و مفتوح ھے اس لیے ان کے نزدیک عرب، افغان، منگول، پرتگالی اور انگریز سب استعمار کے روپ ھیں، جنھوں نے اس خطے کی مقامی شناخت کو اپنے اپنے بیانیوں سے مسخ کرنے کی کوشش کی ھے۔”لون دا جیون گھر”اس شناخت کو واگزار کرانے کی ایک کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: