اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ ہو کیا رہا ہے بھائیو؟||حیدر جاوید سید

مخدوم جاوید ہاشمی نے گزشتہ روز ملتان میں اپنی اقامت گاہ پر سیاسی عمل میں غیرسیاسی قوتوں کی مداخلت اور من پسند اقدامات سے پیدا شدہ صورتحال پر اخبار نویسوں کے سامنے اپنا تجزیہ اور رائے تفصیل کیساتھ بیان کی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخدوم جاوید ہاشمی نے گزشتہ روز ملتان میں اپنی اقامت گاہ پر سیاسی عمل میں غیرسیاسی قوتوں کی مداخلت اور من پسند اقدامات سے پیدا شدہ صورتحال پر اخبار نویسوں کے سامنے اپنا تجزیہ اور رائے تفصیل کیساتھ بیان کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ”غیرسیاسی قوتوں کے تجربوں اور چار مارشل لاؤں نے اس ملک کو مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ مزید تجربوں کی بجائے عوام کو ان کا حق حکمرانی واپس لوٹا دیا جائے”۔ جاوید ہاشمی کی اس گفتگو کے ٹھیک دو گھنٹے بعد نون لیگ کے میڈیا سیل نے بیان جاری کیا کہ ”ہاشمی صاحب کے خیالات ان کی ذاتی رائے ہے، مسلم لیگ ن ملک کے تمام اداروں کا احترام کرتی ہے”۔ ( ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ نون لیگ نے ایسا کچھ نہیں کہا )
منگل کو ہی سندھ کے سابق گورنر اور نواز شریف ومحترمہ مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا ”ہماری جی ایچ کیو سے کوئی لڑائی تھی نہ ہے ہماری صلح ہے، کچھ باتوں پر تحفظات ہیں یہ دور ہوتے ہی صلح کا اعلان کر دیا جائے گا”
” فکری” طور پر مریم نواز کے قریب سمجھے جانے والے صحافی طلعت حسین کا ایک مضمون سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر بدھ کی صبح نمودار ہوا۔ طلعت کہتے ہیں
” نون لیگ میں مزاحمتی گروپ کی قیادت مریم نواز کر رہی ہیں اور مفاہمتی گروپ کی میاں شہباز شریف”۔ ان کے مضمون کو عام فہم انداز میں بھی پڑھا جائے تو یہ امر دوچند ہوتا ہے کہ معاملات مفاہمت کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن، اس لیکن میں سے جو بات اس طالب علم کو سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ
”مفاہمت طاقت کے اصل مرکز سے ہوئی ہے حکمران قیادت اسے ماننے کو تیار نہیں”
طلعت حسین کے مضمون اور وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان ”جب تک زندہ ہوں شریف برادران کو نہیں چھوڑوں گا”۔ کو ملا کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں کو ملا کر پڑھ لیجئے، سارا کھیل سمجھ میں آجائے گا لیکن جذباتی لوگوں کو کون سمجھائے جو انقلاب کی آس میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر دوسروں کو طعنہ دیتے ہیں اور لاہور کی حدود میں داخل ہونے والے ہر ”جہاز” کی طرف اُمید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ اس جہاز کے لینڈ کرتے ہی انقلاب برآمد ہوگا۔
سوشل میڈیا پر پچھلے کئی ہفتوں سے متوالوں اور جیالوں کے درمیان جنگ جاری ہے، طرفین کی توپیں گولے داغ رہی ہیں، نون لیگ کے میڈیا سیل سے منسلک ایک نوجوان نے دو تین دن قبل بھٹو صاحب اور موجودہ دور کی مماثلتیں تلاش کرکے ایک مضمون پھڑکا دیا۔
ان کالموں میں ہمیشہ عرض کیا کہ صحافی اسی معاشرے میں بستے ہیں موسم، اُتار چڑھاؤ اور حالات کو دوسروں کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ دستیاب مذہبی وسیاسی جماعتوں کیلئے ان میں ہمدردی پائی جاتی ہے اور یہ کوئی برائی نہیں پسند وناپسند ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔
معاملہ مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب کوئی صحافی کہلانے والا شخص کسی ایک جماعت کی محبت یا حق نمک کی ادائیگی میں تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردے۔
تاریخ مسخ کرنے کو صحافت نہیں بلکہ منشی گیری کہتے ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جب پچھلی چار میں سے کم ازکم تین حکومتوں میں وزیر رہنے والا کوئی شخص اب بھی وزیر ہو اور وہ کسی دن جوش جذبات میں فرمانے لگے پچھلی حکومتوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔
کاش ایسے موقع پر کوئی دل جلا اُٹھ کر وزیر صاحب سے سوال کرے۔ ”بندہ پرور ان پچھلی حکومتوں میں بھی آپ وزیر باتدبیر ہوا کرتے تھے۔ ملک کو تباہ کرنے اور لوٹنے کے جرم میں تو آپ بھی شریک رہے؟ "
افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں، اس تحریر نویس نے عملی صحافت کے ابتدائی دنوں میں ایک تجربہ کیا تھا۔
تفصیل اس تجربے کی یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سید عبداللہ شاہ سندھ کے وزیرقانون ہوا کرتے تھے۔ (سید عبداللہ شاہ بعد میں سندھ کے وزیراعلی بھی رہے اور موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے والد ہیں) انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کراچی کے مسائل پر حکومتی مؤقف بیان کیا۔
میں ان دنوں ٹرینی رپورٹر تھا، میں نے ان سے سوال کیا شاہ جی اس معاملے پر چند دن قبل آپ نے سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کچھ اور کہا تھا اب کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ سچ کیا ہے اسمبلی والی تقریر یا یہ بیان جو ابھی دیا گیا؟
دوسرے صحافیوں نے غصہ سے میری طرف دیکھا، بدمزگی پیدا ہوئی کچھ تلخی بھی، خیر ہم جب دفتر پہنچے تو اس سے قبل ہی تنازعے کی بازگشت دفتر پہنچ چکی تھی۔
نتیجتاً 20 یا 25 دن کی ٹرینی رپورٹری کا سلسلہ ختم ہوا اور ہمیں ادارتی صفحہ پر بھیج دیا گیا، پھر ادارتی صفحہ کے ہی ہو کر رہ گئے ہم۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ذاتی جذبات کو مار کر ہی منصب کے تقاضے پورے ہوتے ہیں، صحافی کا کام لڑنا جھگڑنا یا میڈیا منیجری ہرگز نہیں۔
ہمارے کچھ دوستوں نے اصرار کیا کہ بھٹو اور موجودہ دور کی مماثلت پر لکھی گئی تحریر کا جواب دیا جانا چاہئے۔ بات ان کی درست ہے لیکن یہ کام بلاول ہاؤس کی روٹیاں توڑنے اور تنخواہیں لینے والے میڈیا سیل کو کرنا چاہئے۔
آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ آپ کی زکواة، صدقات، عطیات اور فطرانہ کے سب سے زیادہ حقدار آپ کے خاندان قبیلے میں موجود مستحقین ہیں، براہ کرم ان کا خیال کیجئے، یہی آپ کی اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: