عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دِلّی میں ساتواں دن
صبح ناشتہ کرنے کے بعد کمرے کی چابی پالے رام کے حوالے کرتے ہوئے جب باہر گلی پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ میونسپل کمیٹی کے چند ارکان دو کتوں کو کسی ٹرالے میں لوڈ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پالے رام ! دِلی والوں کے پاس آوارہ کتوں کا کوئی اوپائے (حل) ہے کیا؟۔صاحب جی دِلی میں کتوں کی بھرمار ہو چکی ہے اور یہ ہمارے لئے دردِسر بنے ہوئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ انہیں دوسرے دیشوں میں بھیج دیا جائے، کوئی سنکھیا کھلانے کا کہتا ہے مگر سرکار سمیت جنتا اِن کتوں کے آگے بے بس ہو چکی ہے۔پالے رام کے سامنے گزشتہ رات کا قصہ چھیڑنے کی بجائے میں خاموشی سے باہر نکل آیا۔
سمیر چاندنہ سے ملاقات: وِجے کمار تنیجا کے گھر سے ناشتہ کرنے کے بعد ہم بہاولپور بھون دیکھنے کیلئے گاڑی کے اندر بیٹھ گئے ۔گاڑی کا اِنجن اسٹارٹ کرتے وقت انکل نے میٹر پر نظر ڈالی توپٹرول والی سوئی نچلے درجے کو چھو رہی تھی۔ایسا کرتے ہیں سب سے پہلے پٹرول ڈلوا لیتے ہیں پھر شیونگر جاکر بہاولپور بھون دیکھنے چلیں گے ۔کوئی دس منٹ کی مسافت کے بعد انہوں نے پُوسا روڈ پر واقع پُوسا ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سامنے بنے ایک شاندار پٹرول پمپ کے آگے گاڑی روکی، انجن آف کیا اور باہر نکل کر گاڑی کی چابی قریب کھڑے لڑکے کے حوالے کرنے کے بعد بتانے لگے کہ یہ مغربی دہلی کا مشہور و معروف پٹرول پمپ ہے جو ایک ڈیرے وال کی ملکیت ہے۔ دیوالی کی مناسبت سے پٹرول پمپ کو رنگین لائٹوں سے سجایا گیا تھا اور قریبی رکھے کسی اسپیکر سے بھجن گانا بھی چل رہا تھا ۔ پٹرول پمپ کے داخلی دروازے پر پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک پینتالیس سالہ شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے ۔” یار تیڈی قسمت چنگی ہے،پٹرول پمپ دا مالک سامنڑے کھڑے، آ تیکوں اُوندے نال ملواواں“۔ ہم جلدی سے اُس شخص کے پاس جا پہنچے۔ سب سے پہلے دونوں حضرات کے بیچ دیوالی کا مبارکبادی سیشن چلا پھر انکل وجے نے پٹرول پمپ کے مالک سے میرا مختصر تعارف کروایا۔اس شخص کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں واقعی ڈیرہ اسماعیل خان سے آیا ہوں؟انہوں نے قریب کھڑے ایک کسٹمر کو جلدی سے فارغ کیا، آفس کے اندر بیٹھے لڑکے کو آواز دی کہ وہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں باہر لے کر آئے ۔ہم دونوں نے کھانے پینے سے معذرت کرلی کیونکہ گرم چائے کا ذائقہ ابھی تک زبان پر محسوس ہو رہا تھا۔
سمیر چاندنہ صاف لہجے میں چہک چہک کر سرائیکی بول رہے تھے، میرا نام سمیر چاندنہ، پِتا چمن لال چاندنہ، دادا جسونت لال چاندنہ، پردادا دُکھ بھنجن چاندنہ وغیرہ ۔میرے پُرکھوں کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل ٹانک سے ہے۔ تقسیم ہند سے کافی عرصہ قبل میرے پرداد ا دُکھ بھنجن رام چاندنہ ٹانک چھوڑ کر ڈیرہ اسماعیل خان چلے آئے تھے اور وہیں پر انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تھا،جہاں پر ایک سوڈا واٹر فیکٹری کھولنے کے ساتھ ساتھ دو پٹرول پمپ بھی کھولے تھے ۔ دونوں پٹرول پمپوں کے نام دُکھ بھنجن چاندنہ پٹرول پمپ تھے۔مجھے اتنا پتہ نہیں مگر پِتا بتاتے تھے کہ ڈیرہ میں ہمارا ایک پٹرول پمپ بیرون پاوندہ گیٹ ،دوسرا توپانوالہ گیٹ کے قریب کہیں واقع تھا اور یہ ڈیرہ شہر کے مشہور پٹرول پمپ تھے ، مجھے اس سے زیادہ کچھ پتہ نہیں کیونکہ میری پیدائش دِلی کی ہے اور میں تقسیم کے بعد پیدا ہوا ، سرائیکی گھر سے سیکھی اور گھر والوں کی زبانی کچھ کچھ ڈیرہ اسماعیل خان کے بارے میں پتہ چلا ۔دُکھ بھنجن رام کے گزر جانے کے بعد میرے دادا جسونت رام چاندنہ نے دونوں پٹرول پمپ اور سوڈا واٹر کے کارخانے کو خود سنبھالا اور اِس موقع پرمیرے پتا چمن لال چاندنہ نے بھی میرے دادا کا بھرپور ساتھ دیا۔
دُ کھ بھنجن نام سنتے ہی میں نے سمیر کو درمیان میں ٹوکا اور بتایا کہ دُکھ بھنجن نام مجھے کچھ سنا سا لگتا ہے،شاید میں نے یہ نام ڈیرہ کی تاریخ میں کہیں پڑھا تھا مگر مجھے پوری طرح یاد نہیں آرہا تھا۔سمیر نے کچھ ان الفاظ میں میری رہنمائی کی کہ آپ نے بالکل صحیح سنا کیونکہ میرے پردادا ڈیرہ شہرکی جانی مانی شخصیت تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور مصنف ماسٹر جسونت رام ایلاوادی جنہوں نے ڈیرہ کی تاریخ پر ایک بھرپور کتاب ”ہمارا ڈیرہ اسماعیل خان، تصویرِ آشیانہ“ لکھی تھی، اُنہوں نے اُس کتاب میں میرے پردادا (دُکھ بھنجن رام چاندنہ) کے دونوں پٹرول پمپوں اور سوڈا واٹر فیکٹری کا ذکر بھی کیا ہے۔ جسونت ایلا وادی میری بُوا کے سسر بھی تھے۔میں نے ایک بار پھر سمیر کو بتایا کہ تقسیم سے قبل سوڈا واٹر فیکٹریوں کے حوالے سے ہمارے شہرمیں کوئی آٹھ دس کے قریب فیکٹریاں تھیںجن میں سے ایک دو توپانوالہ گیٹ کے قریب ،ایک رام بازار ، ایک کلاں بازار، دو بھاٹیہ بازار، دو چھوٹا بازار اور ایک فیکٹری شاید مسلم بازار میں قائم تھی، صرف مسلم بازار والی فیکٹری کا مالک مسلمان تھا باقی سب ہندوﺅں کی ملکیت تھیں، شاید انہیں میں سے ایک تمہارے دادا کی بھی ہو۔ سمیر کے ذہن میں اپنے دادا کی فیکٹری کا نام نہیں آ رہا تھا ۔
تقسیم کا ذکر چھڑتے ہی انہوں نے بتایا کہ ہمارے پُرکھوں نے ڈیرہ میں اپنی جائیدادیں پٹرول پمپس اور چلتے کاروبار وہیں چھوڑے اور وہ سب خالی ہاتھ ہجرت کرکے ہندوستان کے شہر ڈیرہ دون آگئے۔ہجرت کے بعدپہلا پٹرول پمپ ہمارے خاندان نے ڈیرہ دون میں کھولا اور پھر خاندان کے کچھ افراد دِلی آبسے ، جس پٹرول پمپ پر آج ہم کھڑے باتیں کر رہے ہیں اسے 1964ءمیں کھولا گیا تھا اور یہ پٹرول پمپ اپنی کامیابی کی گولڈن جوبلی منا چکا ہے، جس کا شمار دلی کے مشہور پٹرول پمپوں میں کیا جاتا ہے اور میں خود اِسے بہترین طریقے سے چلا رہا ہوں۔
سمیر نے آخر میں کچھ ان الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا:”یقین کرو میڈا ہاں دا کلیجہ ٹھر ویندے جیہڑے ویلے میں آپڑے پُرکھاں دے شاہرڈیرہ اسماعیل خان کول آئے کیں بندے کوں ملداں“۔ہم نے سمیر چاندنہ سے ہاتھ ملا کر اجازت طلب کی اور اپنی گاڑی کا رُخ بہاولپور بھون کی جانب کر دیا۔ پُو سا روڈ سے اِندر پوری کالونی سے باہر گزرتے ہوئے ہم شیو نگر کی طرف روانہ تھے،تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ہم ایک تین منزلہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے ۔
٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر