مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سمے وِی رَنگ پَرنگے ھَن ۔۔۔ قسط 1||گلزار احمد

پھر ہمیں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے وطن ڈیرہ کی یاد میں اپنی ڈیرہ کی ثقافت کو ادھر بھی محفوظ رکھا۔نیو دہلی بھارت میں باقائدہ ایک کالونی ڈیرہ وال نگر کے نام سے بسا لی ۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسمعیل خان کی ثقافت ھزاروں سال پروان چڑھتی رہی ۔ رحمان ڈھیری جو پہلے رام ڈھیری کہلاتی تھی چار پانچ ھزار سال پہلے ایک ترقی یافتہ شھر تھا۔ پھرچھ سات سو سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان شھر کی بنیاد دریا کنارے سے چھ سات کلومیٹر مشرق پڑی لیکن وہ شھر دو سو سال پہلے ایک بڑے سیلاب میں دریا برد ھو گیا تو نیا شھر موجودہ جگہ پر 1825ء میں آباد ہوا۔
پرانے برباد شدہ شھر سے لوگ کچھ لا تو نہ سکے مگر ثقافت کے رنگ تو لوگوں کے دلوں میں ھوتے ہیں وہ ساتھ لاۓ اور پھر یہاں نیا سفر شروع ھوا ۔اس سفر میں مسلمان۔ہندو ۔سکھ ۔عیسائی سب برابر رنگ بھرتے رھے۔میلے ٹھیلے گیت ڈانس شادی خوشی کی رسمیں تعلیم سوشل ویلفیر کے خوبصورت رنگ چھپ گئے۔
پھر 1947 میں پارٹیشن کا موڑ آگیا۔ چونکہ ڈیرہ پاکستان کا حصہ بن گیا اس لئے ہندوٶں کو گھربار چھوڑ کے بھارت جانا پڑا ۔ اب ڈیرہ وال ہندو اپنے مکانات ۔جائیدادیں ۔دکانیں اور اثاثے چھوڑ کر چلے تو گئے لیکن ڈیرہ کی ثقافت اور سرائیکی زبان تو کوئی نہیں چھین سکتا تھا وہ ساتھ لے گئے۔
پھر ہمیں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے وطن ڈیرہ کی یاد میں اپنی ڈیرہ کی ثقافت کو ادھر بھی محفوظ رکھا۔نیو دہلی بھارت میں باقائدہ ایک کالونی ڈیرہ وال نگر کے نام سے بسا لی ۔
چلو وطن کا نام ہر روز سن کر دل کو چین نصیب ھو گا۔ ڈیرہ وال نگر دہلی کے ڈیرہ وال ہندو زیادہ طور سروس کرتے ہیں اور کچھ کاروبار۔آپس میں سرائیکی زبان بولتے ہیں۔کچھ ڈیرہ وال ہندووں کی چاندنی چوک دہلی میں خشک میوہ کی دکانیں ہیں۔ کچھ ڈیرہ کے لوگ اپنے بھاٹیہ نام کے ساتھ صورت انڈیا میں بڑے بڑے کاروبار اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے مالک ہیں ڈیرہ اسماعیل خان کا بھاٹیہ بازار شاید ان ڈیرہ وال ہندووں کے نام سے ھے۔
ڈیرہ کی یاد میں شاعری۔ وہاں کے ہندووں نے نظمیں اور نثر میں ادب تخلیق کیا اور اب تک سرائیکی کلچر کو تھاما ھوا ھے ۔یہ تو ایک درد کی کہانی ھے جو پرانی نسل کی رگوں میں گھومتی رہتی ھے نئی نسل اس درد سے آشنا نہیں ۔
جاری ہے

%d bloggers like this: