اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

                         نیا پاکستان  "اورغیر ملکی سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹیں”||نعمان کلاسرا

ہمیں اپنی سفارتی معاملات میں بہتری لانی ہو گی پاکستان کو اب غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجاری شراکت داری کو امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے

نعمان کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ(ایف ڈی آئی ) یہ سرمایہ کاری کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں غیر ملکی سرمایہ کار اپنا پیسہ کسی دوسرے ملک میں کاروبار کی غرض سے لگاتے جس سے ملکی پیداوار اور ملکی معیشت میں اضاف ہونے کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے ۔ مجودہ حکموت (پی ٹی آئی) کا عزم تھا کہ وہ مالیاتی سال 2019 -20 میں سیاحتی و زرعی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافیہ کر کے 2.8 بلین ڈالر کی ایف ڈی آئی کا اضافہ کر لیں گے مزید برآں ایف ڈی آئی کے تحت مالیاتی سال 2022-23 میں اسکو 8.4 بلین ڈالر تک پہنچا دیں گے ۔ اگر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ڈوئینگ بزنس رپورٹ کو دیکھا جائے تو مالیاتی سال 2020-21 میں ایف ڈی آئی میں نسبتاً 30 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے، اور یہ 1.58 بلین ڈالر سے کم ہو کر 1.3 بلین ڈالر کی سطح پر آ گئ ہے ۔ اگر ہم بات کریں  "سی پیک” کی تو اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ابتدائی دور میں پاکستانی ایف ڈی آئی (جس میں چائنہ کا کافی ہاتھ رہا ہے) میں امریکہ ، برطانیہ اور باقی مغربی ممالک کوسرمایہ کاری میں پیچھے چھوڑ دیا لیکن 2021 کے ابتدائی دور میں چین سے ملنے والی ایف ڈی آئی میں بھی کافی کمی واقع ہوئی ہے ۔ چین سے ملنے والی ایف ڈی آئی میں جو کمی نوٹ کی گئ یے جو کہ  385.8 ملین ڈالر سے 385.9 ملین ڈالر تک آ گئ یے ۔ اسکے علاؤہ FATF کی کی کڑی پالیسیوں اور شرح سود میں اضافہ سے ،غیر ملکی تجارتی خساروں کی وجہ سے اور گرے لسٹ میں برقرار رہنے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں کافی کمی واقع ہوئی یے ۔

انکے علاؤہ اگر بنیادی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری میں حائل روکاوٹوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ملک میں موجود اکاؤنٹس اور مالیاتی خساروں اور ان پر ٹیکسوں کی آدائیگیوں کا غیر محفوظ طریقہ ، ناقص نظام ِ احتساب اور ملک میں ہونے والے دہشت گردومی کے واقعات نے برآمدات درآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انوسٹر یعنی سرمایہ دار کو اپنا پیسہ لگانے کے لئے ایک سازگار ماحول چاہئے ہوتا ہے اور کچھ کاروباری شرائط زیرِغور لائی جاتی ہیں مگر جب ملکی حالات ہی ایسے ہونگے کہ کل کلاں کیا ہو جائے حالات سازگار نہ ہوں اور  سرمایہ دار کا سارا سرمایہ ڈوب جائے تو ایسی صورت کوئی بھی سرمایہ دار ہمارے جیسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا ۔ آئی ایم ایف اور یونائٹڈ نیشنز کے فنڈ جاری کرنے والے اداروں کا ایک اصول ہوتا ہے کہ جیسے کسی متنازعہ سٹیٹ یا متنازعہ علاقہ کے لئے وہ ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کرتے جیسے ہمارے کچھ علاقے جیسے جموں و آزاد کشمیر، فاٹا مرجر سے پہلے والے علاقے گلگت بلتستان وغیرہ اسی طرح سرمایہ دار بھی ایسی جگہ سرمایہ داری نہیں کرتا جہاں حالات بدلتے رہتے ہوں اور کاروبار کے موزوں حالات میسر نا ہوں یعنی  کل کلاں کیا ہو جائے خدا جانے ، تو اس کے لئے ہمیں اپنے تمام اندورنی و بیرونی مسائل حل کرنے ہوں گے تاکہ بیرونی سرمایہ دار کو ملک میں سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول مہیا کیا جا سکے ۔ اسکے علاؤہ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملکی حالات کے بدلتے پتہ نہیں چلتا کب وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا جائے پتہ نہیں  ، آئے روز مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے واقعات رونما ہو رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں ایف ڈی این میں اضافی نا گزیر ہے ۔

ورلڈ بنک کی ڈوئنگ بزنس رپورٹ 2020 میں درج ہے پاکتستان سرمایہ کاری سے پیشگی ٹیکس کی ادائیگی اور 32 مختلف ٹیکسز کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ دوسرے ممالک التجا کرتے ہیں یہ رویوں کا فرق بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے اور انوسٹرکو اعتماد میں نہیں لے پاتا ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق  پاکستان ٹیکسوں پر التوا اور سرمایہ کارروں کو قرضوں پر سبسڈی بھی نہیں مہیا کرتا جس سے  سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اسی تناظر میں آئی ایم ایف سے بھاری بھرکم شرائط پر لئے گئے قرض اور بیل آؤٹ منصوبے کے تحت اٹھائے گئے کڑے اقدامات نے نا صرف کاروباری فضا کو بری طرح سے متاثر کیا ہے بلکہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ کا باعث بنے ہیں۔

مزید برآں جس طرح پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن سے فایدہ اٹھاتے ہوئے چین ، امریکہ اور یورپ نے  ہمارے تجارتی روٹس استعمال کئیے ہیں اس طرح ہم نے خود خاطرخواہ ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا ، البتہ گوادر پورٹ سے امید لگائی جا سکتی ہے ۔ چائنہ کا (OBOR) کے نام سے ایک منصوبہ ہے جسکو ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے سی پیک اس منصوبے کی ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو کہ پاکستان میں سے گزارہ جا رہا ہے ۔ چائنہ اس ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سے  پوری دنیا کو خود سے جوڑ رہا یے اور اپنے تجاری راستوں کو استوار کر رہا ہے تاکہ عالمی منڈیوں تک بآسانی رسائی ممکن بنائی جا سکے  اور اس پروجیکٹ کے ذریعے سے اپنی ایف ڈی آئی میں کئی گناہ اضافہ کر رہا ہے  ۔ مگر ہماری ناقص حکومتی پالیسیاں اور نا قص سفارتکاریاں ملکی معیشت اور امن امان کی صورت حال کو ایک بند گلی کی طرف دھکیل رہیں ہیں ۔ پوری دنیا اس وقت سنٹرل ایشاء تک رسائی کی تگ و دو میں لگی ہے تا کہ انکے گرم پانیوں تک پہنچا جا سکے جبکہ ہماری ایسی کوئی دلچسپی نہیں الٹا سفارتی اختلافات چل رہے ہیں ، یہ موجودہ  گورنمنٹ پوری طرح سے ناکام ثابت ہو رہی ہے جو کام پالیسی میکراور ڈپلومیٹس کا ہوتا ہے وہ کوئی اور کررہا ہے تو ایسے ماحول میں ترقی و خوشحالی کی امید لگانا محض دیوانے کے خواب جیسا ہو گا ۔

ہمیں اپنی سفارتی معاملات میں بہتری لانی ہو گی پاکستان کو اب غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجاری شراکت داری کو امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور اسکے لئے بھرپور سفارتکاری کے لئے کوشش کرنا ہو گی تا کہ ایف ڈی آئی میں اضافے کے لئے مواقع پیدا کیے جا سکیں ، پاکستان جو مشرقی ایشیا اور ابھرتی ہوئی افریقی معیشتوں کے ہمراہ معاشی سفارتکاری کو تیز کر سکتا ہے اور اسکے لئے پاکستانی سفارتکاروں اور ڈپلومیٹس کو بہت مثبت کردار ادا کرنا ہو گا اور اس موجودہ( پی ٹی آئی ) حکومت کو اپوزیشن فوبیا اور این آر او جیسے گھسے پٹے بیانیہ سے باہر نکل کر معاشی اور معاشرتی گراوٹ کو کنٹرول کر کے کم سے کم سطح تک لانا ہو گا ورنہ ہم ہمیشہ کی طرح درآمدات و برآمدات کے توازن کو برقرار نہیں رکھ پائیں گے مزید برآں کوڈ -19 نے عالمی معاشی نمو کو سست کر دیا ہے جس سے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔

پاکستان اگررچہ ورلڈ بنک 2020  کی ڈوئنگ بزنس رپورٹ کے مطابق 190 ممالک کی درجہ بندی میں سے 28 درجے بہتری کے بعد 134 ویں نمبر سے 108 ویں نمبر پر آ گیا ہے تاہم اسے ابھی بھی بہت سارے مسائل اور روکاوٹوں کو عبور کرنا یے ۔  پاکستان کو امن امان کی صورت حال کو بہتر کرنا ہو گا اور ایف ڈی آئی کو پلین فیلڈ مہیا کرنا ہو گی اور ٹیکسز اور سرمایہ کاری کے متعلق پالیسیوں کو مزید بہتر بنانا ہو گا ، موجودہ سرمایہ کاری کی شرائط میں نرمی لانا ہو گی تا کہ ایف ڈی آئی میں اضافے کے لئے انوسٹرز کو اعتماد میں لیا جا سکے تاکہ ملکی معیشت و پیداوار کو بڑھا کر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے اور پاکستان کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی صف میں شامل کیا جا سکے ۔

یہ بھی پڑھیں:

بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ

بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ

سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ

را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ

عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ

نعمان کلاسرا کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: