اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ

کاٹھ کا پتلا یعنی سلیکٹدڈ کچھ بھی کہتا پھرے اسے اب کوئی سنجیدہ نہیں لیتا، وہ تو شروع سے ہی اتنا غیر سنجیدہ تھا لیکن قربان جائیں باجوہ کمپنی اور اس کے ججز پہ جنھوں نے مہا جھوٹے، منافق، خائن اور حتٰکہ ایسا انسان جو اپنی بیٹی کو نہیں اپنا سکا،

طیب بلوچ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاٹھ کا پتلا یعنی سلیکٹدڈ کچھ بھی کہتا پھرے اسے اب کوئی سنجیدہ نہیں لیتا، وہ تو شروع سے ہی اتنا غیر سنجیدہ تھا لیکن قربان جائیں باجوہ کمپنی اور اس کے ججز پہ جنھوں نے مہا جھوٹے، منافق، خائن اور حتٰکہ ایسا انسان جو اپنی بیٹی کو نہیں اپنا سکا، اسے عدالت میں اِقرار جرم اور جعلی رسیدوں کے باوجود صادق و امین بنا کے ایسا اپنایا کہ عوامی مینڈیٹ چوری کر کے ملک پر مسلط کر دیا اور نتیجتاً پوری قوم باجوائی عذاب کی لپیٹ میں آ گئی۔

این آر او نہیں دوں گا، اگر این آر او دیا تو یہ ملک سے غداری ہو گی کی گردان الاپنے والا خود اپنے زیر سایہ چینی و آٹا چوروں، بجلی، پٹرول و گیس مافیاز کو این آر او دے کر زندگی بچانے والی ادویات پہ بھی کمشن کے چکر میں تقریبا آٹھ سو فیصد مہنگائی کر بیٹھا۔ پیزے والے باجوے کی کرپشن کو تحفظ دینے اور بھارت کے مودی کے جاسوس کو سہولیات دینے کے لیے راتوں رات آرڈیننس لے آیا۔

تعویذوں کا بھی ایک حد تک اثر ہوتا ہے۔ جادو ٹونہ سے نظر بندی تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے تو اب خود خان سمجھ گیا اور اب جادو ٹونے والی اپنی اعلانیہ تیسری بیوی کے ساتھ بیٹھ کر صوفی یونس ایمرے کا ڈرامہ دیکھتا ہے۔ جادو ٹونے بے اثر کیا ہونا شروع ہوئے، خان صاحب نے بھی یونس ایمرے کی طرح بہت جلد امور سلطنت سے کنارہ کشی کر کے “روحانیات” کی دنیا میں غرق ہو جائیں گے۔

دراصل عمران خان نے اس وقت ہی خود کو زندہ درگور کر دیا تھا جب اس نے اپنا اصولی نظریہ دفنا کر اسٹیبلشمنٹ کا کاٹھ کا پتلا بننا قبول کیا۔ کبھی پڑھا تھا کہ نظریہ کے بغیر انسان حیوان سے بھی بدتر ہے۔ خان صاحب اچھے خاصے ویژنری قسم کے انسان دِکھتے تھے لیکن کاٹھ کا پتلا بننے کے بعد ڈنکی راجہ کہلاۓ کیونکہ وہ اپنے ہی نظریے سے انکاری ہو گئے اس لیے حیوانوں کے گدھے کے قبیل میں شامل ہو گئے۔

ویسے باجوائی اسٹیبلشمنٹ بھی کمال ہے۔ یوں تو وہ گھوڑوں کی سواری کرتی ہے لیکن پہلی دفعہ اس نے اپنے لیے گدھے کا انتخاب کیا۔ اب گدھے کی سواری سے تو پھر ہڈی گُڈی تو درد کرے گی۔ اب باجوائی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پانچ سال تک مسلسل سواری کرنا درد سر بن گیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ گدھے کی سواری گھوڑے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور وہ کہاوت بھی سب نے سنی ہو گی کہ گدھے کو گدھا ہی کھجاتا ہے۔

پاکستان میں ہوا بھی بالکل ایسے۔ اسٹیبلشمنٹ مہربان کیا ہوئی گدھا خود کو پہلوان سمجھ بیٹھا۔ پھر اسی پہلوان نے دوسرے گدھے کو توسیع دے کر کھجایا۔ جب سے امور پاکستان پر ان گدھوں کو قبضہ ہے، ہر ذی شعور پاکستانی آپ کو یہ کہتا ملتا ہے کہ اگر گدھے سے ہل چلتے تو بیل نہ بساۓ جاتے۔

اب بے چارے عوام کیا کریں کہ گدھوں سے ہل تو چل نہیں سکے اور ظلم یہ کہ محمکہ زراعت بھی ان بیلوں کی بجائے ان گدھوں کا ہمنوا ہے تاہم بڑھتی بھوک، غربت اور مہنگائی کے جن کے ہاتھوں عوام کی آۓ روز درگت نے ریاست کے اوپر والی ریاست کے ٹھیکیداروں کو بھی ایسا بے نقاب کیا ہے کہ وہ اب اپنے لیے این آر او ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی کاوشوں سے بننے والی پی ڈی ایم نے اُوپری ریاست کے ان ٹھیکیداروں اور نئے پاکستان کے مستری باجوہ کو بند گلی میں ایسا دھکیلا ہے کہ اب ان کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ پہلے پہل تو انہوں نے اپوزیشن کو خوب لتاڑا۔ نیب اور عدلیہ کو ہمنوا بنا کر پولیٹکل انجیئرئنگ کے ذریعے کیسز بنا کر اپوزیشن کو بلیک میل کرتے رہے تاکہ امور ریاست اپنی من مانی سے چلائے جا سکیں اور پھر اپوزیشن پر جعلی کیسز کا شکنجہ کستے ہوۓ کبھی باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کرائی اور کبھی پارلمینٹ کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔

سیاسی مخالفین کا ڈر خود ملک پر مسلط باجوائی رجیم نے ختم کیا ہے۔ سیاسی قائدین کے خلاف جعلی کیسز کے سلسلے نے جیل کی صعوبتوں کا ڈر ختم کر دیا۔ پہلے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف سیاسی انتقام کے لیے کیسز بناتے تھے لیکن اب کی بار یہ ذمہ داری عدلیہ میں بیٹھے بوٹ چاٹ ججز اور نیب نے ادا کی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی جو کیسز بناۓ وہ الٹا ان میں پٹ گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف الیکشن 2018 سے قبل اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی بنک اکاؤنٹس کے جعلی کیسز بنا کر نیب کو ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

زرداری کے خلاف کیسز اس لیے بنے کیونکہ اُنہوں نے باجوہ کے ماتحت جرنیلوں کو باجوائی فارمولے کے تحت حکومت سازی کے لیے سمجھوتہ کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس لیے تو نیب نے چھ ماہ سے زائد ان کو غیر قانونی حراست میں رکھ کر ان کو جان سے مارنے کی ہر ممکن کوشش کی اور حتٰکہ ان کی موت کی خبریں بھی اپنے میڈیائی بھونپوں کے ذریعے چلوائیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما پانامہ سکینڈل کی پکڑ میں اپنی حکومت کے دوران ہی آ گئے لیکن ان کی بھی بدقسمتی کہ ان کے خلاف کیسز بھی سپریم کورٹ میں موجود چند ججز نے بنا کے نیب کو بھجواۓ۔ نوازشریف بھی اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کے کبھی چابی والے کھلونے رہے ہیں لیکن جب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بیٹ پر ناچ سے انکار کیا تو وہ بھی ملعون ہوئے اور پھر بھارتی ایجنٹ، غدار سے لے کر سیکورٹی رسک قرار دیے گئے۔ خیر مدعا یہ ہے کہ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ان کے رہنما جیل کی صعوبتیں برداشت کر چکے۔ لہذا اب مزید پولیٹکل انجیئرئنگ ان کے خلاف کارگر نہیں اور نہ اب یہ باجوائی ہائبرڈ رجیم کے لافیر سے مزید دبنے والے ہیں۔

پی ڈی ایم نے مشترکہ حکمت عملی میں عمران خان کی بجائے اس کو لانے والوں کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ ابھی تک تو پی ڈی ایم کو توڑنے اور اس کو دباؤ میں لانے کا ہر حربہ ناکام گیا ہے۔ ہائبرڈ رجیم نے ہائبرڈ وار (ففتھ جنریشن جنگ) کے پیچھے بھی چھپنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن عوام جان گئے ہیں۔ دراصل ملک پر یہ ہائبرڈ وار اس مسلط رجیم نے ہی نافذ کر رکھی ہے۔ پتلی در پتلی تماشہ بپا ہے۔ عمران نیازی باجوے کی کٹھ پتلی ہے تو باجوہ پینٹاگون کی اشاروں کا محتاج ہے۔

اس لیے کشمیر پہ ایسی سودی بازی کی کہ عوام کو تقریر اور گانوں میں الجھایا اور عملی طور پر کشمیر دے کر اسی بھارت سے کرتار پور کوریڈور کھیلنا شروع کر دیا۔ پاکستان کی تلخ تاریخ تو یہ ہے کہ جس کو یہ غدار کہتے ہیں وہ اصل محب وطن تھے اور غداری کے فتوے باٹنے والوں نے ملک بھی توڑا، دریا بھی بیچے اور آئین سے بھی غداری کی۔

آئین سے غداری سے یاد آیا کہ اپنی پاک فوج کا ہر جوان فوج کا حصہ بنتے وقت حلف اٹھاتا ہے کہ وہ ریاست اور اس کے آئین سے وفادار رہے گا اور کبھی خود کو سیاست میں ملوث نہیں کرے گا اور نہ سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنے گا۔ سیاست میں گھس بیٹھیے جنریلوں کو حلف یاد کرانے کی پاداش میں ویسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی بھگت رہے ہیں۔ باجوہ اور فیض کے سیاسی کردار خود ان کے اپنے حلف کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

پاکستان میں اگرچہ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی قانون کا شکنجہ تو موجود ہے۔ کوئی بھی جسٹس سیٹھ وقار جیسا باہمت جج حلف کی خلاف ورزی پر سیاست میں مداخلت کرنے والے جنریلوں کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دے کر پھانسی کا حکم دے سکتا ہے۔ قانون کی سنگین غداری سے متعلق لٹکتی تلوار سیاست زدہ جنریلوں کے لیے سر درد ہے، تبھی تو یہ اٹھارویں ترمیم کے پیچھے پڑے ہیں تاکہ اس تلوار کو ہی پگھلا کر اس کی زنجیر سے جمہوریت کو ہمشیہ کے لیے جنریلوں کی زنجیریں پہنا کر باندھی بنا لیں۔

پی ڈی ایم جب سے اٹھارویں ترمیم کی محافظ بنی اور جنریلوں کے سیاسی کردار کے خلاف بند باندھنے کے لیے متحرک ہوئی تو اپنے باجوہ کو بھی جان کے لالے پڑ گئے تبھی تو وہ اپوزیشن سے این آر او لینے کے لیے سرگرداں ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ اس کے لیے انہوں نے آصف علی زرداری سے متعدد مرتبہ رابطے کی کوششیں کی ہیں لیکن تاہم ابھی تک انہیں تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔

آصف علی زرداری جن کو باجوائی ہائبرڈ رجیم نے نیب کے ذریعے مارنے کی ہر ممکن کوشش کی، انہوں نے سیاسی رابطوں کو تیز کر دیا ہے۔ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان سے وہ مکمل رابطے میں ہیں اور ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم میں اعتماد برقرار رہے اور مل کر باجوائی رجیم کے پیدا کردہ بحرانوں سے ملک کو بچانے کے لیے میثاق جمہوریت طرز کا کوئی قابل قبول حل نکالا جا سکے۔

لیکن سب سے اہم بات استعفوں کی ہے اگر پی ڈی ایم استعفوں کی طرف جاتی ہے تو یہ صورت حال سلیکٹرز کے لیے انتہائی پریشان کن ہو گی کیونکہ استعفوں کے بعد لامحالہ نئے انتخاب کی طرف جانا پڑے گا اور نئے انتخاب اس وقت تک شفاف نہیں ہو سکیں گے جب تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض اپنے عہدوں پر موجود ہیں کیونکہ یہی وہ کرادر ہیں جن پر الیکشن چوری کا الزام ہے۔ اس لیے شفاف الیکشن کے لیے ان کا گھر جانا ضروری ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے باجوہ صاحب اپوزیشن کے اجتماعی استعفوں سے پریشان ہیں، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے ہرکاروں کو متحرک کر رکھا ہے تاکہ استعفوں کے علاؤہ کوئی اور آپشن پی ڈی ایم لاۓ۔

آصف علی زرداری کو مفاہمتی پالیسی اختیار کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی شہباز شریف کے ساتھ ساتھ شاہد خاقان عباسی پر بھی ڈورے ڈالے گئے تاکہ ان ہاؤس تبدیلی لائی جا سکے۔ بہر حال سیاسی شطرنج میں کوئی چال حتمی نہیں۔ اس وجہ سے کچھ میڈیائی بھونپوں کے ذریعے صدارتی نظام لانے کے لیے بھی راۓ عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ یہاں تک بھی خیال گردانی کر رہے ہیں کہ اگر استعفے دیئے جاتے ہیں تو پھر سلیکٹرز گھر جانے کی بجائے اس لولے لنگڑے نظام کو کہیں گھر بھیج کر خود قابض نہ ہو بیٹھیں۔

یہ بھی پڑھیں:بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ

بہرحال پی ڈی ایم کو ان تمام خدشات کو دیکھنا ہو گا۔ اس موجودہ سیاسی بحران میں سابق صدر آصف علی زرداری کا سیاسی تدبر اور حکمت عملی ہی اس ملک کو بحرانوں سے بچا سکتے ہیں۔ تبھی تو آصف علی زرداری ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان بھی ثابت قدم رہیں اور مثیاق جمہوریت طرز کا ایک نیا سوشل کنڑیکٹ لایا جا سکے۔ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ آصف علی زرداری اور نہ ہی پی ڈی ایم اب سلیکٹرز اور سلیکٹدڈ کو کوئی این آر او دے گی۔

%d bloggers like this: