عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جوں جوں تاج محل کے قریب ہوتے جا رہے تھے ،اردگردگہما گہمی بڑ ھتی جا رہی تھی۔ سڑک کنارے سائیکل رکشوںکی قطاریں،مشروبات کی ریڑھیاں اور دکانوں پر دھات، پلاسٹک اور سنگ مرمریں پتھروں سے بنے مختلف سائزوں کے تاج محل کے نمونے فروخت کیلئے رکھے ہوئے تھے ۔ سب کا یہی دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس بالکل ویسا اصلی سنگ مرمر کا ماڈل ہے جیسا سنگ مرمر تاج میں لگایاگیا تھا۔ بلب جلا کر دیکھ لیجئے،روشنی سنگ مرمر کے اندر سے منعکس ہو گی۔تاج محل کا ماڈل خریدنے کے بعد اس کے مینار الگ کرکے پیک کرنے کا اہتما م بھی موجود تھا۔حیرت انگیز طور پر سہ پہر کا وقت خوشگوار ہو چلا تھا۔ہمارے اردگرد سیاحوں کا ہجوم جس میں غیرملکی سیاحوں کے علاوہ ہندوستان کے کونے کونے سے آئے مختلف النسل لوگ شامل تھے، ایک بڑی تعداد میں سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات گروپوں کی شکل میں کھنچے چلے آرہے تھے۔تاج محل کے مشرقی جانب بنے داخلی دروازے پر پہنچ کر ہم نے اپنے ٹکٹ دکھائے اور لائن میں کھڑے ہوگئے۔ہماری باری پر مکمل جامہ تلاشی لی گئی اور سکینر ز لگے دروازے سے گزار اگیا۔سیکورٹی اتنی سخت تھی کہ کیمرے کے بیگ تک کھول کر چیک کیے گئے اور پھر مکمل تسلی کر لینے کے بعد ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی۔
غیر ملکی سیاحوں کی ٹولیاں، میرے جیسی دیسی شکل و شباہت کے گروہ۔۔۔ بنارسی ساڑھیوں میں لپٹی، شوخ رنگوں کی شلواریں پہنے متوسط طبقے کی مہیلائیں اور ٹولیوں کے تعاقب میں تاج محل کی مختلف زاویوں سے کھنچی رنگین تصویری البم اٹھائے بھاگتے دوڑتے فوٹوگرافر۔میڈم لُک دِس فوٹو شاٹ۔۔دِس اِز تاج محل۔۔ جیول آف دا مسلم آرٹ، بلٹ بائی شاہجہان،اے گریٹ لو اسٹوری۔۔واﺅ بیوٹی فل۔۔ مشرق و مغرب کے ماہرین فن جس عجوبے کو دیکھتے ہی دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں،کچھ لمحوں بعد تصور کی آنکھ سے نکل کر حقیقت کا روپ دھارنے والا تھا ۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کیا خوب کہا تھا کہ: ”تاج محل کے حوالے سے انسانی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔انسانی آبادی کا ایک وہ حصہ کہ جس نے تاج محل ابھی تک دیکھا ہی نہیں اور دوسرا وہ کہ جس نے اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھاہے“ ،گویا اب ہم بھی انسانی آبادی کے اُس حصے میں شامل ہونے والے تھے کہ جنہوں نے تاج محل دیکھ رکھا ہے۔ اپنے ساتھ چلتے گائیڈ بشیر خان سے پوچھ لیا ۔تاج محل کہاں رہ گیا ؟۔بھائی میاںتھوڑا صبرکیجئے ۔یہ تاج محل ہے ،اتنی جلدی خود کو ظاہر نہیں کرے گا۔ پہلے اپنا آپ منوائے گاپھر تمہیں جلوہ دکھائے گا۔داخلی دروازے سے گزرنے کے بعد دونوں جانب سنتھے کی باڑ اور خوشنما پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے جبکہ دائیں جانب چند قدموں کی دوری پر سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ مرکزی دروازہ آنکھوں کے سامنے تھا۔دریائے جمنا کے مغربی کنارے بنے بلندوبالامرکزی دروازے نے واقعی مبہوت کرکے رکھ دیا تھا۔ سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ مرکزی دروازے کے نقش و نگار اور اس پر کندہ بیل بوٹے واقعی لاجواب تھے ۔ دروازے کے سبزی مائل آہنی گیٹ کے اندر داخل ہو کر جیسے ہی گیٹ سے باہر نکلے تو دور سے ایک سفید و بے داغ قسم کی دلکش اورپرشکوہ عمارت نظروں کے سامنے تیر تی دکھائی د ی ۔ مرکزی دروازے پر کھڑا ہر شخص اپنے دل کی کھڑ کی کھولے تاج محل کا دیدار کررہا تھا ۔
اِک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اندر کا ماحول واقعی افسانوی بلکہ رومانوی تھا۔مرکزی دروازے اور تاج محل کے درمیان تاحدِ نگاہ پھیلا سبزہ،خوشنما بیل بوٹے ، درختوں کی قطاریںاور باغ کے اندر لگے فوارے کے سامنے خوبصورت سنگ سرخ سے بنا بنچ جس پر بیٹھے پریمی جوڑے باری باری تصویریں کھنچوارہے تھے ۔ہر عمر اور ہر ذوق کے افراد اپنے اپنے چاہنے والے کے پہلو میں بیٹھے تاج محل کو پس منظر میں رکھ کر اپنی زندگی کے یادگار لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر رہے تھے ۔کسی نے انگلی سے پورا تاج محل اٹھا رکھا تھا تو کوئی اسے ہتھیلی پر لئے کھڑا تھا ۔کوئی کبوتروں کی طرح غٹر غوں میں مصروف تو کوئی سنہری بالوں والی حسینہ اپنے پارٹنر کے کندھے پر مومی سر رکھے سیلفی لینے میں منہمک ۔ دِلوں کے سرمئی بادلوں پر اڑتے پریمی پنچھی تاج محل کے سامنے اپنی اپنی محبتوں کا اقرار کرتے پھر رہے تھے ۔ہیل کی کھٹ کھٹ میں سلیو لیس شرٹ میں چھپی کوئی سنڈریلا،ستاروں سی جھلملاتی نائیلون ساڑھی کا پلو شانے پر اٹکائے بھیگی زلفوں میں ناریل کی سوندھی خوشبو رچائے کوئی رادھا، پیراہن کی سلوٹوں میں بدن کی لوچ جگائے ،ہونٹ نیم وا کیے اپنی مخروطی انگلیوں کا چھجا بنائے تاج محل کے ملکوتی حسن میںکھوئی کوئی گل بکاﺅلی اور اپنے راجہ کے پہلو میں سمٹی بیٹھی کجراری آنکھوں والی کوئی رات کی رانی ۔ دس منٹوں تک تاج محل مجھے اور میں تاج محل کو کھڑے تکتا رہا ۔ واقعی تاج محل اپنے حسن کو اتنی جلدی ظاہرنہیں کرتا،پہلے اپنا آپ خوب منواتا ہے۔ ہمت کرتے ہوئے مرکزی دروازے میں جیسے ہی قدم رکھا،بھیڑ میں اپنی انفرادیت گنوا بیٹھا ۔ گورے چٹے سیاحوں کے گرد گھومتے پھرتے گائیڈ اور فوٹو گرافرز ۔تاج محل کے پروفیشنل فوٹوگرافروں نے ایک ایسا زاویہ تلا ش کر لیا ہے کہ جہاں پر کھڑ ے ہو کر تصویر اتروانے و الا تاج محل کے گنبد کو ہاتھ میں تھامے نظر آتا ہے یاپھر ایسے گمان ہوتاہے جیسے اُس نے پورے مقبرے کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر اٹھا رکھا ہے۔اپناکیمرہ ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کے ہاتھوں میں تھما کر اُس سے فرمائش کی کہ میری کچھ تصاویر کھینچ دے ۔ فوٹوگرافر نے تاج محل کو پس منظر میں رکھ کر مجھے آگے کھڑ اکیا اور آناً فاناً تین چار مختلف زاویوں سے کچھ یادگاری تصاویر بناکر کیمرہ مجھے واپس لوٹا دیا ۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر