اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کابل گرلز اسکول دھماکہ||عامر حسینی

دشت برچی کابل کے علاقے میں ایک ہل ٹاپ پہ ہزارہ برادری نے دہشت گردی کا نشانہ بن جانے والوں ی تدفین کے لیے الگ سے قبرستان بنایا ہوا جسے "شہدا قبرستان" کہا جاتا ہے۔ وہاں پہ بنی قبروں پہ باقاعدہ کتبے اور مقتولین کی تفصیلات بھی درج ہیں جبکہ سرخ اور سیاہ رنگ کے علم بھی لٹکے ہوئے ہیں-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کابل گرلز اسکول دھماکہ: جاں بحق ہونے والوں کی شہدا قبرستان دہشت برچی میں تدفین کردی گئی

 

 

رپورٹ عامر حسینی

 

 

تدفین کے وقت رقت آمیز مناظر،50 سے زائد ہزارہ کمیونٹی کے شہیدوں کی تدفین تابوتوں میں کی گئی

 

 

Figure 1دشت برچی میں ہزارہ برادری کے مقتولوں کی تدفین کے لیے قبروں کی تیاری کا عمل

 

 

سید الشہداء ہائی اسکول دشت برچی کابل افغانستان کے گیٹ کےسامنے ہونے والےتین دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تدفین ہزارہ کمیونٹی کے پہاڑ کے دامن میں بنے قبرستان میں کردی گئی۔ مقتولین کی لاشوں کو تابوتوں میں بند کرکے دفنایا گیا۔ زیادہ تر تابوت سید الشہدا ہائی اسکول کی سیکنڈ شفٹ میں پڑھنے والی ہزارہ برادری کی لڑکیوں کے تھے۔ تدفین کے وقت شدید رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔

 

دشت برچی کابل کے علاقے میں ایک ہل ٹاپ پہ ہزارہ برادری نے دہشت گردی کا نشانہ بن جانے والوں ی تدفین کے لیے الگ سے قبرستان بنایا ہوا جسے "شہدا قبرستان” کہا جاتا ہے۔ وہاں پہ بنی قبروں پہ باقاعدہ کتبے اور مقتولین کی تفصیلات بھی درج ہیں جبکہ سرخ اور سیاہ رنگ کے علم بھی لٹکے ہوئے ہیں-

 

کابل کے مغرب میں واقع دشت برچی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پہ ہزارہ کمیونٹی کی اکثریت رہتی ہے اور یہ مذہب کے اعتبار سے شیعہ اثنا عشری ہیں۔

 

دشت برچی میں واقع سید الشہدا اسکول کے سامنے کار بم دھماکے ساتھ دو اور دھماکے اس وقت ہوئے تھے جب اسکول میں تعلیم پذیر لڑکیاں دوسری شفٹ میں پڑھنے کے بعد چھٹی کرکے گھر جانے کے لیے اسکول سے نکل رہی تھیں۔ اس موقعہ پہ 50 سے زائد ہلاکتیں اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے- مرنے اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ اسکول کی طالبات شامل ہیں۔

 

 

دھماکے کی ذمہ داری تین روز گزرنے کے بعد بھی افغانستان ميں سرگرم کسی عسکریت پسند گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ افغان حکومت نے اس دھماکے کی ذمہ داری افغان طالبان پہ ڈالی ہے لیکن تحریک طالبان افغانستان نے اس واقعے میں اپنے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ان کا گروپ لڑکیوں کے اسکول پر حملے میں ملوث نہیں ہے۔ اور ایک دوسرے ٹوئٹ میں انھوں نے کہا کہ افغانستان میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان نے امکان ظاہر کیا کہ اس دہشت گردی میں داعش افغانستان ملوث ہوسکتی ہے جسے افغان انٹیلی جنس اداروں کی سرپرستی اورحمایت حاصل ہے۔

 

گزشتہ تین سالوں میں کابل میں ہونے والے ایسے بم دھماکے جن کا ہدف کابل کے سویلین شہری تھے کی اکثر ذمہ داری داعش افغانستان نے قبول کی ہے اور ان میں سے اکثر بم دھماکے دشت برچی میں آباد ہزارہ برادری کے اسکول، ہسپتال، جم سنٹر، ان ڈور کھیل کے مراکز، کوچنگ سنٹر، امام بارگاہیں، مساجد اور مدرسے رہے ہیں اور افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کو منضبط کرنے والی ویب پورٹل کے مطابق تین سالوں میں 50 سے زائد بڑی دہشت گردی کی وارداتوں کا ہدف کابل میں دشت برچی میں قیام پذیر ہزارہ برادری ہی رہی ہے۔

 

 

کابل میں مقیم ہزارہ برادری کے افراد کی اکثریت کو نہ تو تحریک طالبان افغانستان پہ اعتماد ہے اور نہ ہی انھیں امریکی حمایت یافتہ موجود افغان حکومت پہ اعتماد ہے۔ ان کی برادری کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری افغان حکومت اور افغان طالبان کی باہمی لڑائی میں سینڈوچ کے طور پہ استعمال ہورہے ہیں۔ افغان حکومت کی نظر میں ہزارہ برادری پہ حملوں کے ذمہ دار افغان طالبان ہیں جبکہ افغان طالبان اس کی ذمہ داری داعش افغانستان پہ ڈالتے ہیں جن میں شامل ہونے والے عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد کا تعلق افغان طالبان سے منحرف ہوجانے والوں میں سے ہے۔ جبکہ اس میں ازبک، پاکستان کی کالعدم عسکریت پسند تنظیموں سے بھی بنتا ہے۔

داعش افغانستان پہ اکثر و بیشتر یہ الزام بھی عائد ہوتا رہا ہے کہ اس تنظیم میں افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں، سی آئی اے اور را کے حمایت یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ افغان طالبان سے منحرف ہونے والے افغان طالبان سرکردہ رہنما اور پیدل لڑاکوں کو امریکہ نے افغان طالبان کو کمزور کرنے کے لیے لاجسٹک اور مالی امداد فراہم کی تھی جبکہ افغان انٹیلی جنس نے ان کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اقدام کے لیے حمایت فراہم کی اگرچہ افغان حکومت اس سے انکار کرتی آئی ہے۔

 

گزشتہ دنوں امیریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ نے اپنےبیان میں کہا تھا کہ امریکی افواج کا افغانستان میں انخلا ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ایسی خبریں موصول ہورہی ہیں افغان طالبان سے منحرف عسکریت پسند، پاکستان سے فرار ہوکر آنے والے تحریک طالبان پاکستان اور اس کے دیگر دھڑوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند و لشکر جھنگوی کے دھڑوں سے عسکریت پسند باہم اکٹھے ہورہے ہیں اور داعش افغانستان اور القاعدہ برصغیر میں زیادہ تر عسکریت پسندوں کا تعلق انہی سے ہے۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سے جہاں امارت اسلامیہ طالبان افغانستان، افغانستان کی ہزارہ شیعہ آبادی کو سخت خطرات لاحق ہیں وہیں یہ یہ عسکریت پسند پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کے لیے سخت خطرات کا سبب بنیں گے۔

 

خود پاکستان کے ساابق قبائلی علاقوں جو اب باقاعدہ صوبہ خیبرپختون خوا کا حصّہ ہیں میں تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ منظم ہونے اور دہشت گردی کی کاروائیاں شروع کرنے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ جبکہ بلوچستان ميں داعش و القاعدہ برصغیر کے فعال ہونے اور ان کے خاموش سیل ہونے کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔

 

 

عامر حسینی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی حصّے میں مقیم صحافی، تجزیہ کار اور مصنف ہیں

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: