اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط27)||عباس سیال

شاید میں اُسی زندان کے سامنے کھڑا تھاجس کے اندر وقت کے شہنشاہ نے دم توڑا تھا اور اس کا جسدِ خاکی اس کی بیٹی جہاں آراءکی مدد سے قلعے سے اتار کر صحن میں رکھا گیا تھ

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

            کیا ستم ظریفی اور کیسا المیہ کہ ا قتدار کی خاطر حکمران اپنی سگی اولاد کو مار دیتے ، اپنے باپ کو قید کرلیتے اور بھائیوں کو قتل کروادیاکرتے تھے ۔موریا خاندان کا عظیم حکمران اشوک سمراٹ جو کٹر بدھ مت کا پجاری تھا اس نے اپنے ننانوے بھائیوں کو قتل کیا تھا اور برہمنوں کے سر کاٹے تھے۔ مغلوں کی تاریخ بھی خون میں لتھڑی پڑی ہے۔بابر کے بیٹے ہمایوں نے اقتدار کی خاطر اپنے بھائیوں کامرا ن اور عسکری کو قتل کروایا۔ شہزادہ نورالدین جہانگیر المعر وف شہزادہ سلیم نے اقتدار کی خاطر اپنے باپ( جلال الدین اکبر) کے خلا ف مسلح بغاوت کی ،نورجہان کے خاوند کو قتل کروایا اور اپنے سگے بیٹے فرخ سیر کی آنکھوں میں سلائیاں پھروائیں۔ شاہجہان نے اپنے بھائی شہریار کی آنکھوں میں سلائیاں پھروائیں اور اپنی بیٹی جہاں آراءکے عاشق کو ابلتے کڑھاﺅ میں زندہ اُبال کر مروا دیاجبکہ اورنگزیب نے اگلے پچھلے سارے حساب برابر کر دئیے تھے۔

            شاہ جہان نے جب اورنگزیب کو نظر انداز کرکے دارہ شکوہ کو نامزد کیا تو اورنگزیب بھڑک اٹھا اور اپنی بہادری اور عسکری قوت سے خود کو تخت کا اصل وارث ثابت کرنے کیلئے اپنے باپ شاہجہا ن کو معزول کرکے آگرہ قلعہ میں قید کردیا تھا۔اس نے اپنی بڑی بہن اور دارا شکوہ کی ہم خیال جہاں آرا ءکو بھی باپ کے ساتھ قید کر لیا تھا ۔ اپنے بھائی شجاع کو ملک بدر کروایا دوسرے بھائی مراد بخش کو دھوکا دہی سے دربار میں بلوا کر تہہ خانے میں قید کرواکر اندھا کروایا جبکہ اپنے سب سے بڑے دشمن دارا شکوہ کا سر کاٹ کر طشتری میں سجا کر اپنے باپ شاہجہان کو آگرہ کے قلعے میں بھجوایا تھا۔ شاید انہی خوبیوں اور خامیوں کے باعث تاریخ بابر کوفاﺅ نڈر آف دا مغل ایمپائر ، اکبر دا گریٹ رُولر (عظیم حکمران)، جہانگیر دا ڈرِنکر(شرابی)، شاہ جہاں دا بلڈر(ماہر تعمیرات) ، اورنگزیب دا فناٹک (جنونی)جیسے ناموں سے یاد کرتی ہے۔

            گائیڈ بشیر خان کے مطابق جب شہزادے اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر وقت کے شہنشاہ شاہجہان کو قید کیا جانے لگا تو پریمی شہنشاہ نے اپنی خواہش کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا تھا:ہمیں ایسے زندان میں رکھا جائے جس کا روزن تاج محل کے رُخ کھلتا ہو ۔ بشیر خان نے جس روزن کی طرف اشارہ کیا اس کا در اگرچہ بند تھا لیکن ساتھ ہی بنے کٹہرے کے اندر لگی جالی میں اپنے کیمرے کا عدسہ داخل کرکے فل زوم کرنے کی کوشش کی تو انسانی آنکھ سے دھندلا دکھائی دیا جا نے والا تاج محل کیمرے کی آنکھ سے واضح ہوتا چلا گیا۔ غالباً یہی وہ مقام ہو گا جہاں سے قیدی بادشاہ تاج محل کے عقبی حصے کا نظارہ کیا کرتا ہو گا۔ جمنا ندی کے پار وقت کے دھندلکوں اور فیکٹریوں کے زہریلے دھو ¶ں سے لڑتا آج کا تاج محل کیا قیدی بادشاہ کو بھی یونہی دھندلا نظر آتا ہو گا؟۔کیمرے کا عدسہ ایڈجسٹ کرتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے بشیر خان سے پوچھا۔مگر اُن کے پاس میرے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔

            شاید میں اُسی زندان کے سامنے کھڑا تھاجس کے اندر وقت کے شہنشاہ نے دم توڑا تھا اور اس کا جسدِ خاکی اس کی بیٹی جہاں آراءکی مدد سے قلعے سے اتار کر صحن میں رکھا گیا تھا،جسے غسل دینے کے بعدجمنا پار لا کر اس کی تخلیق کردہ جنت میں اس کی بیوی ممتاز کے پہلو میں رکھ دیا گیا تھا۔کہتے ہیں کہ اورنگزیب اگر اپنے بھائیو ں کو قتل کرکے اپنے باپ شاہجہان کو آگرہ قلعے میں قید نہ کرتا تو شاہجہان نے سنگ مرمر سے بنے تاج کے عین سامنے سنگ سیاہ سے اسی طرز کا ایک اور محل تعمیر کروانے کا ارادہ کر لیا تھا،جس کا نقشہ تیار ہو چکا تھا اور بنیادیں بھی کھودی جا چکی تھیں، لیکن شاہجہان کی اس خواہش کے بیچ زندان کا روزن حائل ہو گیا تھا اور جمنا کی نمدار ہوا میں شہنشاہ کی خواہشوں کا تاج محل بھیگنے لگا تھا ۔

            آگرہ قلعے کی سیڑھیاں اترتے وقت میں نے بشیر خان سے پوچھا۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ شاہجہان کو تاج محل کے مستری( عیسیٰ خان )کی آہ لگ گئی ہو؟۔ بشیر خان نے دیوان خاص کی طرف منہ کرتے ہوئے ہلکی سی مسکان بھری اور کہا۔ میں روزانہ سینکڑوں سیاحوں کو دلی سے آگرہ لاتا ہوں اور مجھے اس کام میں پندرہ سال ہونے والے ہیں لیکن آج تک کسی نے مجھ سے ایسا سوال نہیں پوچھا ۔ واقعی ایسا ممکن ہے کیونکہ عیسیٰ آفندی بھی ایک جنونی شخص تھا جو جمنا ندی کے اردگرد کی زمین کو سونگھ سونگھ کر اس سے باتیں کیاکرتا اور کان لگا کر زمین کی سرگوشیاں سنا کرتا تھا۔عیسیٰ آفندی کیا کہا کرتا تھا؟۔بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ کہا کرتا تھا ۔اے زمین اپنا من کھول کرمجھے بتا کہ تیرے اوپر کو ن سی عمارت تعمیر کروں؟ بشیر خان کیا زمین اُسے جواب دیتی تھی؟ بشیر خان ساتھ کھڑے سا ¶تھ انڈین جوڑے کی ننھی بچی بنسی کے سانولے گالوں کو ہلکا سا چھوتے ہوئے بولا۔ ہاں ہاں بالکل۔ جب تک زمین کا جواب نہ ملا عیسیٰ نے محل تعمیر کرنے کی حامی نہ بھری اور جب جواب مل گیا تو دربار میں حاضر ہوا اورہاتھ باندھ کربولا ۔ بادشاہ سلامت مکران سے سفید سنگ مرمر لایا جائے۔شہنشاہ پریشان کہ اتنی دور سے پتھر کیسے لایا جا ئے ؟ بادشاہ کے جواب میں عیسیٰ خان پھر سے بولا۔ مکران کے پتھر تاج محل کے روپ میں ڈھلنے کیلئے صدیوں سے آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ ہم میں سے کون خوش نصیب آگرہ کے تاج کی زینت بنے گا ، آپ بے فکر ہو جائیے اورصرف ہاں کر دیجئے۔

            بشیرخان ہمارے سکالرز اورتاریخ دان واقعی زیادتی کرتے ہیں جب تاج محل کو ایک شہنشاہ کی محبت اور پیار کی نشانی سے تعبیر کرتے ہیں میری نظر میں تاج محل عیسیٰ آفندی کا جنون تھا ۔ ہاں واقعی یہ عیسیٰ کا جنون تھا جو تاج کے سانچے میں ڈھلا ۔ شاید عیسیٰ آفندی کا جنون یا پھر شاید شہزادی جہاں آراءاور عیسیٰ کی آپس میں بیس سالہ پوشیدہ محبت کا ثمر۔بشیر خان نے شرارت سے آنکھ ماری اور آگرہ قلعے کی سیڑھیاں اتر کر سیاحوں کی بھیڑ میں کہیں گم ہو گئے مگر جاتے جاتے میری سوچ کو نئے زاویے عطا کر گئے۔قلعے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کیمرے کاعدسہ صاف کرتے ہوئے میں اپنے آپ سے مخاطب تھا ۔۔ ہوں ۔۔۔ تاں میں وی آکھاں کہ شاہجہان نے تاج محل دے مستری دے ہتھ کیوں کپ سٹے ہین ؟ ۔ اچھا تاں اے معاملہ ہئی۔ ایندا مطلب تھیا کہ تاج محل عیسیٰ دی جنونی محبت دا تحفہ ہئی جہاں آراءکیتے ۔جیکوںسرکاری مورخ بادشاہ دی محبت دی نشانی آکھدن ،اصل معاملہ اے ہئی ۔۔۔(تبھی تو میں کہوں کہ شاہجہان نے تاج محل کے معمار کے ہاتھ کیوں کاٹ دئیے تھے؟ اچھا تو یہ معاملہ تھا۔اس کا مطلب ہے کہ تاج محل عیسیٰ کی جنونی محبت کا تحفہ ہے شہزادی جہاں آراءکیلئے۔سرکاری مورخ جسے شہنشاہ کی محبت کی نشانی سے تعبیر کہتے ہیں ، اصل معاملہ اور تھا) ۔

جاری ہے۔۔۔۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: