اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فقیر راحموں کا فرمائشی کالم||حیدر جاوید سید

فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ یار شاہ جی بڑے کھٹور آدمی ہو64برس کا ساتھ ہے دیکھ کیسے کیسے آڑے وقت میں ہم تمہارے ساتھ رہے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ یار شاہ جی بڑے کھٹور آدمی ہو64برس کا ساتھ ہے دیکھ کیسے کیسے آڑے وقت میں ہم تمہارے ساتھ رہے
اُس وقت بھی جب جنرل ضیاء کے دور میں لوگ تمہارا نام سُن کر کہہ دیتے تھے۔
”نہیں صاحب ہم تو اس نام کے آدمی کو بالکل بھی نہیں جانتے”۔ہم نے ساتھ نہیں چھوڑا،
عرض کیا حضور پھنسوایا بھی آپ نے تھا کس نے کہا تھا کہ مجھے”سٹار ڈسٹ” کا وہ شمارہ دیں جس میں بھارتی پنجابی فلموں کے معاون اداکار رحمن کی کہانی لکھی تھی۔
آپ وہ بھارتی میگز ین اگر نہ دیتے تو نہ ہم کچھ لکھتے نہ معاملہ بگڑ تا۔
ہنس کر کہنے لگے شاہ جی جب تم مجھ سے ملے تھے بگڑے بگڑائے ہی تھے اسی لئے تو نبھ گئی۔
ساعت بھر کے لئے رُکے اور پھر کہنے لگے”حُسن جاناں کے جلوے آدمی کو اندر سے نکال کر زندگی کے صحرا میں لا گھوماتے ہیں”۔بندہ وہی خوش قسمت ہوتا ہے جسے یار سمجھ میں آجائے اور یہ بھی کہ یار چاہتا کیا ہے
ان کی بات کاٹتے ہوئے عرض کیا اب آپ اپنے مطالعہ سے مرعوب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔خیر چھوڑیئے یہ فقیر راحموں اور ہماری نوک جھونک چلتی رہتی ہے
چند گھنٹے قبل ہماری لائبریری میں چند دوست اکٹھے ہوئے خوب گپ شپ ہوئی دوستوں کے کچھ سوالوں کے جواب میں ہم نے اپنی رائے عرض کی تو بولے۔شاہ جی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ ساری باتیں تمہیں یہ فقیر بتاتا ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں ہماری اس ساری جانکاری کے پیچھے آپ ہیں لیکن اس اعتراف کا فائدہ کیا ہوگا؟
بولے حقدار کو حق مل جائے گا بس۔اب خود سوچیئے کہ اس ملک میں پچھلے تہتر برسوں سے حقدار کو کبھی حق ملا؟
ہم تو زکوٰة اور خمس تک کسی حق دار کو دینے کی بجائے انہیں دیتے ہیں جومعاشرے کی تقسیم اور اس میں شدت پسندی کے بڑھاوے کے ذمہ دار ہیں۔
رمضان المبارک کے آغاز پر ہم سے انہوں(فقیر راحموں) نے پوچھا یار شاہ جی۔زکوٰة کس کو دوں۔عرض کیا اپنے چاراور مستحق تلاش کرنے کی بجائے اولین ترجیح خاندان میں موجود مستحقین کو دیجئے۔
یہ مروت میں نہیں کہا نہ کسی کی ناراضگی میں سچ یہی ہے کہ ہماری زکوٰة وعطیات کی اولین مستحق وہی ہیں جو ہمارے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بعد گلی محلے کے مستحق افراد”حق”حقداروں کو ہی ملنا چاہئے۔
کچھ دیر قبل میرے ایک عزیز نے سوال کیا۔
یہ راشن تقسیم کرنے کا جنون صرف رمضان المبارک میں ہی پیدار کیوں ہوتا ہے باقی کے گیارہ ماہ کے دوران ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہمارے چار اور ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے؟۔
مختصراً ان کی خدمت میں عرض کیا شاید رمضان المبارک کی نیکیوں کا ثواب زیادہ ہوتا ہوگا۔
بعد میں کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ اس عزیز کا سوال تو زندگی کی تلخ ترین حقیقت چھپائے ہوئے تھا۔ہم میں سے جو صاحبان استطاعت ہیں انہیں بھی اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں دونوں کو مل کر سوچنا چاہئے کہ مستحقین صرف ایک ماہ کے لئے تو پیدا نہیں ہوتے یہ ہمارے اردگرد موجود ہیں۔
فقیر راحموں کے پوچھنے پر جب پوری بات بتائی تو کہنے لگے شاہ جی ایثار کا مطلب بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔
حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو کہنے لگے۔شاہ جی اگر آپ کے پاس ایک وقت کے کھانے میں دو روٹیاں ہوں اور سوالی دروازے پر صدالگائے تو کیا کروگے؟۔
عرض کیا ایک روٹی اسے دے دوں گا جواب ملا یہ اپنے حصے میں سے نصف کی قربانی ہے۔
ایثار یہ ہے کہ ایک وقت بھوکا رہ لو دونوں روٹیاں سوالی کو دے دو تاکہ وہ پیٹ بھر کے کھالے۔
آپ تو دوسرے وقت میں کھاہی لوگے توفیق بھی ہے دو کی جگہ تین روٹی بنوا کر کھالوگے سوالی کو دوسرے وقت میں کوئی دے یا نہیں۔
پھر بولے اگر ہمارے لوگ ایثار کرنے لگیں تو ڈھیروں کام ہوسکتے ہیں مثلاً جن بچوں اور عزیزوں کو خدمت خلق کا شوق ہے وہ ایثار کرنے والوں کے تعاون سے محدود پیمانے ایسے چھوٹے چھوٹے کام شروع کریں جن میں پانچ سات یا آٹھ دس آدمی کام کر سکتے ہوں ایسے کاموں میں ملازمت کے لئے اولین ترجیح ہی ان لوگوں کو دی جائے جو مجبور ہیں اور ہاتھ پھیلا نہیں سکتے۔
حکومت جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (احساس پروگرام ہم نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا) جی نام کچھ بھی رکھ لیں اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے
یہ پروگرام لگ بھگ بارہ سال قبل شروع ہوا تھا اب تک کئی کھرب روپے ضرورت مندوں کو دیئے گئے اصولی طورپر حکومت وہ پچھلی حکومتیں ہوں یا موجودہ انہیں چاہئے تھا کہ ایک قانون بنائے کہ اس پروگرام کے تحت مثال کے طور پر سال میں40ارب روپے تقسیم کرنے ہیں تو20ارب روپے کی چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائی جائیں ریڈی میڈ گارمنٹس جوتے بنانے اور دوسری ضروری استعمال کی اشیاء کی
اگر یہ ایک صنعت50کروڑ کی بھی لگتی تو سو چو12برسوں میں ملک بھر میں40صنعتیں سال کے حساب سے اب تک کتنی صنعتیں لگ چکی ہوتیں
اورکتنے لوگوں کو باعزت روزگار مل سکتا تھا ایک کمانے والے کے ساتھ اگر اوسطاً5افراد بھی ہوں تو حساب خود کر لو کہ کتنے ہزار خاندان غربت کی لکیر سے اوپر اُٹھ سکتے تھے۔
بات تو فقیر راحموں کی سچ ہے لیکن اہل اقتدار اس نہج پر سوچیں گے کیوں؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: