اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط25)||عباس سیال

آگرہ قلعے کی چوڑی اور کشادہ فصیلیں ہمارے سواگت کیلئے تیار کھڑی تھیں۔شروع میںسنگ سرخ سے مزین جہانگیری محل پر نظر پڑی جس کے بائیں جانب اکبری محل واقع تھا۔

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

            سکندر لودھی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اُس کا بسایا شہر آگے چل کر مغلیہ جاہ وجلال کی علامت بنے گا اور تاج محل کی مناسبت سے شہرت کی بلندیوں کو چھوئے گا۔ پانی پت کی پہلی جنگ 1526ءمیں جب ظہیرالدین بابر نے سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر یہ شہرفتح کیا تو یہاں پر گل افشاں نامی ایرانی طرز کا ایک خوبصورت باغ بنوایا۔بابر اس باغ میں آرام کرنے کی غرض سے اکثر آیا کرتا تھا۔بابر کے بعد ا س کے پوتے جلال الدین محمد اکبرنے اس شہر کو خصوصی اہمیت دی اور یہاں ایک عظیم الشان قلعہ تعمیر کروا کر شہرکا نام اکبر آباد رکھا ۔اکبر نے ا س کے قریب فتح پور سیکری میں ایک فوجی چھاﺅنی بھی تعمیر کروائی اور اپنی وفات تک وہ اکبر آباد میں قیام پزیر رہا،ا س کے بعد مغل اعظم فلم کے رومینٹک ہیرو اور انار کلی کے عاشق شہزادہ سلیم(جہانگیر) کا دور آیا ۔ جہانگیر وادی کشمیر کے حسن کا شیدائی تھا اسی لئے وہ آگرہ پر زیادہ توجہ نہ دے سکامگر اُس کے بیٹے شاہجہان نے تاج محل بنو اکر اس شہر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہجہا ن کے عہد تک اکبر آباد یعنی آگرہ ہی مغل حکمرانوں کا پایہ تخت چلا آرہا تھا تھا،تاہم 1648ءمیں شاہجہان نے دارالخلافے کو آگرہ سے دلی منتقل کیا اور دلی کو شہاہجہان آباد کا نام دیا۔شاہجہان کے دور میںاگرچہ پایہ تخت دلی منتقل ہو گیا ،مگر تاج محل کی بدولت آگرہ کو جو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی وہ آج بھی برقرار ہے۔اورنگزیب کے بعد جب مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا توجاٹوں اور مرہٹو ں کے ہاتھوں اس شہر پر بھی مشکل حالات آئے مگر اس کی یادگاریں یہ آزمائش بھی خوش اسلوبی سے جھیل گئیں۔ 1857ءکی جنگِ آزادی میں آگرہ ایک اہم جنگی محاذ تھا۔

قلعہ آگرہ کی سیر : آگرہ میں ہماری پہلی منزل آگرہ کا قلعہ تھا جسے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1565ءمیں بنوایاتھا ۔آگرہ کا قلعہ دلی کے لال قلعہ سے بھی زیادہ قدیم ہے کیونکہ دلی سے پہلے آگرہ شہر مغلوں کا دارلخلافہ تھا۔ اکبر نے فوجی مقاصد اور دفاعی حکمت عملی کے تحت اپنے پایہ تخت اکبر آباد(آگرہ) میں قائم اس قلعے کو سنگِ سرخ سے تعمیر کروایا تھا ۔قلعے کی مشرقی جانب بہتے دریائے جمنا کا رُخ موڑ کر اسے مشرقی دیوار کے قریب کر دیا گیا تھا جبکہ باقی تین اطراف گہری خندقیں کھود کر قلعے کو مکمل طور پر محفوظ بنا دیا گیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ خندقوں کی کھائیوں کو پانی سے بھر کراُ س کے اندر خونخوار مگرمچھ چھوڑدئیے گئے تھے تاکہ دشمن خندق کو پار کرنے کی جرا ¿ت نہ کر سکے۔قلعے میں داخلے کیلئے خندق کے اوپر ایک کلدار عارضی پل تعمیر کیا گیا تھا جسے بوقت ضرورت ( حملے کے دوران) اٹھایا جا سکتا تھا۔

            قلعے میں داخلے کیلئے دو گیٹ بنائے گئے تھے ، مغربی جانب دلی گیٹ اور جنوبی طرف کا اَمر سنگھ گیٹ جس کا پرانا نام اکبر گیٹ تھا مگر انگریز دور میں امر سنگھ راٹھور راجپوت کے نام پر اسے اکبر سے بدل کر امر سنگھ کر دیا گیا۔اکبر نے قلعے کے اندر ایک عالیشان مسجد، مصاحبین کیلئے حجرے بنوائے جبکہ جہانگیر نے اپنے دور میں اپنا رہائشی کمرہ،انگوری باغ،شیش محل ، جہانگیری حوض ، شاہی خواتین کیلئے مینا بازار اوراِندر سنگھ گیٹ کا اضافہ کیاتھا۔قلعے کے باہرسڑک پر لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملا۔ہر قسم کے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا رش اور سڑک پر بے ترتیب سی ٹریفک دیکھ کر واقعی الجھن سی ہونے لگی تھی۔ہمارے گائیڈ نے سب سیاحوںکو قلعے کے سامنے اکھٹا کرکے ٹکٹیں بانٹیں اور کسی پائپ پائپر کی طرح سیاحوں کو اپنے پیچھے لے کر آگے چل پڑے ۔ مکمل جامہ تلاشی کے بعد ہم جنوبی سمت والے آ ہنی گیٹ کی طرف بنے ریمپ کے ذریعے قلعے کے اندر د اخل ہوگئے۔

            آگرہ قلعے کی چوڑی اور کشادہ فصیلیں ہمارے سواگت کیلئے تیار کھڑی تھیں۔شروع میںسنگ سرخ سے مزین جہانگیری محل پر نظر پڑی جس کے بائیں جانب اکبری محل واقع تھا۔جہانگیری محل کے ساتھ بنے ایک حوض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ یہ حوض شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ مہر النسائ( نورجہان) کیلئے خصوصی طور پر بنوایا تھا۔

             طویل راہداریوں سے گزر کر آگے خوبصورت لکڑی سے مزین ایک بڑے ہال کا گمان ہوا۔یہ دیوانِ عام تھا۔سارے گائیڈ ٹولیوں میں اپنے اپنے سیاحوں کو لے کر خوبصورت کاریگری کے شاہکار( دیوانِ عام) کے بارے میں بتا رہے تھے ۔ایک نوجوان گائیڈ چند غیر ملکی سیاحوں کو اکھٹا کئے انگریزی میں بتا رہا تھا۔یہ دیوانِ عام ہے اور اس کے جھروکے پر ایک مرصع تخت رکھا گیا تھا جس کے دونوں اطراف مور بنے ہوئے تھے اور اُس تخت پر بیٹھ کر شاہجہان دربار لگایا کرتا تھا جہاں عوامی نوعیت کے مقدمات سنے جاتے تھے جبکہ جھروکے کی  د ونوں جانب بنی کھڑکیوں میں شاہی مستورات شہنشاہ کا خطاب سنا کرتی تھیں۔دیوان عام سے دائیں طرف محل ِخاص واقع ہے جو شاہجہان نے اپنی د وبیٹیوں کیلئے تعمیر کروایا تھا۔سفید ماربل سے بنے محل خاص کی چھت سنہری رنگت کی ہے جس کے ایک طرف انگوری باغ اور دوسری جانب دریائے جمنا واقع ہے۔انگوری باغ شاہی خاندان کی مستورات کے ذاتی استعمال کیلئے مختص تھا،جس کیلئے کابل سے انگور کی خصوصی بیلیں لاکر یہاں اُن کی پیوند کاری کی گئی تھی۔ کہاجاتا ہے کہ جہانگیر اِسی انگوری باغ کے انگوروں کی شراب کشید کرکے پیا کرتا تھا۔جہانگیر ہر قسم کے نشے کا رسیا اورہر دم مست رہنے والا بادشاہ تھا۔شراب اورحسن اُس کی کمزوری تھی اور اُس کی ملکہ نورجہان بادشاہ کی کمزوری سے واقف تھی اسی لئے وہ جہانگیر کو نشے اور افیون میں دُھت رکھ کر مملکت کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے چکی تھی ۔خان صاحب نورجہان کے بارے میں کچھ بتائیے،وہ کیسی ملکہ تھی؟۔خان صاحب ایک جگہ پر رُکے اور تفصیل سے بتانے لگے۔نورجہان کا اصل نام مہرالنساءبیگم تھا جو جہانگیر کے وزیر شیر افگن کی بیوی تھی مگر جب جہانگیر نے اُسے دیکھا تو اُس کے حسن پر فریفتہ ہو گیا اور اُسے پانے کیلئے شیر افگن کو بے دردی سے قتل کروا دیا۔ مہرالنساءعدت پوری کرنے کے بعد جہانگیر کے حرم کی زینت بنادی گئی بلکہ بادشاہ نے اسے اپنی ملکہ خاص بنا کرنورجہان کے خطاب سے نوازا۔مگر۔۔۔ نورجہان کوتاریخ اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتی بلکہ اسے ایک خودسر، شاطر، غاصب اور مکار عورت کے طور پر جانا جاتاہے اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ نورجہان ہر کام مکمل منصوبہ بندی سے کرنے کی عادی تھی۔سب سے پہلے اُس نے جہانگیر کو نشے میں غرق کروا کراَمورِ سلطنت اپنے ہاتھوں میں لئے اورپھر مستقبل کے ولی عہد شہزادہ خرم( شاہجہان) کو راستے سے ہٹانے کا سوچنے لگی ۔

جاری ہے۔۔۔۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: