عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر لودھی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اُس کا بسایا شہر آگے چل کر مغلیہ جاہ وجلال کی علامت بنے گا اور تاج محل کی مناسبت سے شہرت کی بلندیوں کو چھوئے گا۔ پانی پت کی پہلی جنگ 1526ءمیں جب ظہیرالدین بابر نے سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر یہ شہرفتح کیا تو یہاں پر گل افشاں نامی ایرانی طرز کا ایک خوبصورت باغ بنوایا۔بابر اس باغ میں آرام کرنے کی غرض سے اکثر آیا کرتا تھا۔بابر کے بعد ا س کے پوتے جلال الدین محمد اکبرنے اس شہر کو خصوصی اہمیت دی اور یہاں ایک عظیم الشان قلعہ تعمیر کروا کر شہرکا نام اکبر آباد رکھا ۔اکبر نے ا س کے قریب فتح پور سیکری میں ایک فوجی چھاﺅنی بھی تعمیر کروائی اور اپنی وفات تک وہ اکبر آباد میں قیام پزیر رہا،ا س کے بعد مغل اعظم فلم کے رومینٹک ہیرو اور انار کلی کے عاشق شہزادہ سلیم(جہانگیر) کا دور آیا ۔ جہانگیر وادی کشمیر کے حسن کا شیدائی تھا اسی لئے وہ آگرہ پر زیادہ توجہ نہ دے سکامگر اُس کے بیٹے شاہجہان نے تاج محل بنو اکر اس شہر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہجہا ن کے عہد تک اکبر آباد یعنی آگرہ ہی مغل حکمرانوں کا پایہ تخت چلا آرہا تھا تھا،تاہم 1648ءمیں شاہجہان نے دارالخلافے کو آگرہ سے دلی منتقل کیا اور دلی کو شہاہجہان آباد کا نام دیا۔شاہجہان کے دور میںاگرچہ پایہ تخت دلی منتقل ہو گیا ،مگر تاج محل کی بدولت آگرہ کو جو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی وہ آج بھی برقرار ہے۔اورنگزیب کے بعد جب مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا توجاٹوں اور مرہٹو ں کے ہاتھوں اس شہر پر بھی مشکل حالات آئے مگر اس کی یادگاریں یہ آزمائش بھی خوش اسلوبی سے جھیل گئیں۔ 1857ءکی جنگِ آزادی میں آگرہ ایک اہم جنگی محاذ تھا۔
قلعہ آگرہ کی سیر : آگرہ میں ہماری پہلی منزل آگرہ کا قلعہ تھا جسے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1565ءمیں بنوایاتھا ۔آگرہ کا قلعہ دلی کے لال قلعہ سے بھی زیادہ قدیم ہے کیونکہ دلی سے پہلے آگرہ شہر مغلوں کا دارلخلافہ تھا۔ اکبر نے فوجی مقاصد اور دفاعی حکمت عملی کے تحت اپنے پایہ تخت اکبر آباد(آگرہ) میں قائم اس قلعے کو سنگِ سرخ سے تعمیر کروایا تھا ۔قلعے کی مشرقی جانب بہتے دریائے جمنا کا رُخ موڑ کر اسے مشرقی دیوار کے قریب کر دیا گیا تھا جبکہ باقی تین اطراف گہری خندقیں کھود کر قلعے کو مکمل طور پر محفوظ بنا دیا گیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ خندقوں کی کھائیوں کو پانی سے بھر کراُ س کے اندر خونخوار مگرمچھ چھوڑدئیے گئے تھے تاکہ دشمن خندق کو پار کرنے کی جرا ¿ت نہ کر سکے۔قلعے میں داخلے کیلئے خندق کے اوپر ایک کلدار عارضی پل تعمیر کیا گیا تھا جسے بوقت ضرورت ( حملے کے دوران) اٹھایا جا سکتا تھا۔
قلعے میں داخلے کیلئے دو گیٹ بنائے گئے تھے ، مغربی جانب دلی گیٹ اور جنوبی طرف کا اَمر سنگھ گیٹ جس کا پرانا نام اکبر گیٹ تھا مگر انگریز دور میں امر سنگھ راٹھور راجپوت کے نام پر اسے اکبر سے بدل کر امر سنگھ کر دیا گیا۔اکبر نے قلعے کے اندر ایک عالیشان مسجد، مصاحبین کیلئے حجرے بنوائے جبکہ جہانگیر نے اپنے دور میں اپنا رہائشی کمرہ،انگوری باغ،شیش محل ، جہانگیری حوض ، شاہی خواتین کیلئے مینا بازار اوراِندر سنگھ گیٹ کا اضافہ کیاتھا۔قلعے کے باہرسڑک پر لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملا۔ہر قسم کے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا رش اور سڑک پر بے ترتیب سی ٹریفک دیکھ کر واقعی الجھن سی ہونے لگی تھی۔ہمارے گائیڈ نے سب سیاحوںکو قلعے کے سامنے اکھٹا کرکے ٹکٹیں بانٹیں اور کسی پائپ پائپر کی طرح سیاحوں کو اپنے پیچھے لے کر آگے چل پڑے ۔ مکمل جامہ تلاشی کے بعد ہم جنوبی سمت والے آ ہنی گیٹ کی طرف بنے ریمپ کے ذریعے قلعے کے اندر د اخل ہوگئے۔
آگرہ قلعے کی چوڑی اور کشادہ فصیلیں ہمارے سواگت کیلئے تیار کھڑی تھیں۔شروع میںسنگ سرخ سے مزین جہانگیری محل پر نظر پڑی جس کے بائیں جانب اکبری محل واقع تھا۔جہانگیری محل کے ساتھ بنے ایک حوض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ یہ حوض شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ مہر النسائ( نورجہان) کیلئے خصوصی طور پر بنوایا تھا۔
طویل راہداریوں سے گزر کر آگے خوبصورت لکڑی سے مزین ایک بڑے ہال کا گمان ہوا۔یہ دیوانِ عام تھا۔سارے گائیڈ ٹولیوں میں اپنے اپنے سیاحوں کو لے کر خوبصورت کاریگری کے شاہکار( دیوانِ عام) کے بارے میں بتا رہے تھے ۔ایک نوجوان گائیڈ چند غیر ملکی سیاحوں کو اکھٹا کئے انگریزی میں بتا رہا تھا۔یہ دیوانِ عام ہے اور اس کے جھروکے پر ایک مرصع تخت رکھا گیا تھا جس کے دونوں اطراف مور بنے ہوئے تھے اور اُس تخت پر بیٹھ کر شاہجہان دربار لگایا کرتا تھا جہاں عوامی نوعیت کے مقدمات سنے جاتے تھے جبکہ جھروکے کی د ونوں جانب بنی کھڑکیوں میں شاہی مستورات شہنشاہ کا خطاب سنا کرتی تھیں۔دیوان عام سے دائیں طرف محل ِخاص واقع ہے جو شاہجہان نے اپنی د وبیٹیوں کیلئے تعمیر کروایا تھا۔سفید ماربل سے بنے محل خاص کی چھت سنہری رنگت کی ہے جس کے ایک طرف انگوری باغ اور دوسری جانب دریائے جمنا واقع ہے۔انگوری باغ شاہی خاندان کی مستورات کے ذاتی استعمال کیلئے مختص تھا،جس کیلئے کابل سے انگور کی خصوصی بیلیں لاکر یہاں اُن کی پیوند کاری کی گئی تھی۔ کہاجاتا ہے کہ جہانگیر اِسی انگوری باغ کے انگوروں کی شراب کشید کرکے پیا کرتا تھا۔جہانگیر ہر قسم کے نشے کا رسیا اورہر دم مست رہنے والا بادشاہ تھا۔شراب اورحسن اُس کی کمزوری تھی اور اُس کی ملکہ نورجہان بادشاہ کی کمزوری سے واقف تھی اسی لئے وہ جہانگیر کو نشے اور افیون میں دُھت رکھ کر مملکت کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے چکی تھی ۔خان صاحب نورجہان کے بارے میں کچھ بتائیے،وہ کیسی ملکہ تھی؟۔خان صاحب ایک جگہ پر رُکے اور تفصیل سے بتانے لگے۔نورجہان کا اصل نام مہرالنساءبیگم تھا جو جہانگیر کے وزیر شیر افگن کی بیوی تھی مگر جب جہانگیر نے اُسے دیکھا تو اُس کے حسن پر فریفتہ ہو گیا اور اُسے پانے کیلئے شیر افگن کو بے دردی سے قتل کروا دیا۔ مہرالنساءعدت پوری کرنے کے بعد جہانگیر کے حرم کی زینت بنادی گئی بلکہ بادشاہ نے اسے اپنی ملکہ خاص بنا کرنورجہان کے خطاب سے نوازا۔مگر۔۔۔ نورجہان کوتاریخ اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتی بلکہ اسے ایک خودسر، شاطر، غاصب اور مکار عورت کے طور پر جانا جاتاہے اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ نورجہان ہر کام مکمل منصوبہ بندی سے کرنے کی عادی تھی۔سب سے پہلے اُس نے جہانگیر کو نشے میں غرق کروا کراَمورِ سلطنت اپنے ہاتھوں میں لئے اورپھر مستقبل کے ولی عہد شہزادہ خرم( شاہجہان) کو راستے سے ہٹانے کا سوچنے لگی ۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ