اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسدالملت ،دودو سومرو ، روپا ماڑی اور راجپوت ||رانا محبوب اختر

بدین سے سیرانی روڈ کے راستے کوئی 50 کلومیٹر جنوب کی طرف رن آف کچھ میں اسد الملت، دودو سومرو شہید کا مزار ہے۔ جگہ کا نام روپا ماڑی ہے۔یہاں روپا رانی کا محل تھا

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدین سے سیرانی روڈ کے راستے کوئی 50 کلومیٹر جنوب کی طرف رن آف کچھ میں اسد الملت، دودو سومرو شہید کا مزار ہے۔ جگہ کا نام روپا ماڑی ہے۔یہاں روپا رانی کا محل تھا۔ اس دشت میں اک شہر تھا، جو تاریخ کی آوارگی کی نظر ہوا ۔مزار کے گرد بہت سی ٹھیکریاں بکھری ہوئی ہیں۔ ریت کے کچھ ڈھیر ہیں۔مقبرے کے احاطے کا فرش ماڈرن سفید اور سرمئی پتھر کا ہے۔سامنے ایک سفید گنبد پوش کمرہ ہے۔گنبد کا رنگ سبز ہے۔گنبد کے نیچے ایک لکڑی کی canopy ہے اور لکڑی کی چھتری کے نیچے ایک سورما سوتا ہے۔ یاتری نے فاتحہ کو ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں بند ہو گئیں تو خیال روشنی کی رفتار سے سندھ کی تاریخ کے سفر پہ رواں ہوا ۔موئن جو دڑو کی سمبارا اور شو ، بدھ اور جین، داہر اور قاسم ، دودو اور خلجی تک سندھ وادی دل بن کر دھڑکتی تھی ۔سورما کے مزار سے کچھ دور مٹی کا ایک بڑا ڈھیر ہے۔قیاس ہے کہ یہ دودو کا محل ہوگا۔ مٹی کا دوسرا ڈھیر چنیسر کی آرامگاہ بتائی جاتی ہے۔کچھ نوجوان بارش کے بعد ریت سے سونے کے ذرات ڈھونڈتے ہیں۔روپا ماڑی کی بربادی کے بعد سونا جیسے گل کر مٹی میں مل گیا ہو اور بارش اسے اچھال دیتی ہو۔آسمان سے پانی اور زمین سے سونا، زمین یہاں آسمان سے اچھی تھی!
سومرا خاندان ایک طویل عرصہ سندھ پر حکمران رہا۔ سمرا ساتھا کی نسل سے ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق کے خیال میں ساتھا کا مطلب ساتھ، قوم یا قبیلہ ہے۔سمہ کے ساتھ بھی ساتھا ہے۔ بہاولپور کے نزدیک سمہ قبیلہ رہتا ہوگا۔ وہاں سمہ سٹہ نام کا ریلوے سٹیشن ہے۔ غالب قیاس یہ ہے کہ ساتھا، ستھیا سے ہے جو راجپوتوں کا پہلا وطن تھا ۔راجپوتوں کے سگھڑ، چارن اور "مراثی” ، گورے جیمز ٹاڈ سورج ونشی ، چندر ونشی اور یادو راجپوتوں کا ذکر مہابھارت اور رامائن سے لاتے ہیں۔ان کا راجپوتی کرسی نامہ ، جیمز جونز سے زیادہ معتبر ہے ۔ٹاڈ روای ہیں کہ مہا بھارت اور رامائن کے رام ، سورج ونشی اور کرشن، چندر ونشی تھے۔ وہ دیوتا بننے سے پہلے راجپوت تھے ۔ 33کروڑ دیوتا یہاں !آدمی دیوتا بناتا تھا ۔ زندگی کو "تمام دکھ” کہنے والے شاکیہ منی اور ریگستان کو راگستان بنانے والی میرا بھی راجپوت تھیں ۔ تو بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دینے والا رانا سنگرام سنگھ ، اپنے شریر پر 80 زخموں، ایک ٹانگ، بازو اور آنکھ کھو کر بھی وہ بہادر ہے جو ہارے ہوئے لشکر میں تھا ۔ سندھ کے تھر کا ڈھاٹ، پرمار (پنوار)راجپوتوں کاراج گڑھ تھا۔ان کی پینتیس شاخیں ہیں۔جن میں سوڈھا، امر اور سومرو شامل ہیں۔ سوڈھا کو سکندر کے مورخوں نے سوگدی لکھا ہے۔ روایت ہے کہ راجپوتوں کے ستھیا، ساکا یا ہن آغاز اور اول وطن کی بات کولونیل مورخوں کی شرارت ہے ۔ وہ راجپوتوں کے غیرملکی اصل سے اپنے حملے کا تاریخی جواز ڈھونڈتے تھے۔مورخ جے نارائن کا خیال ہے کہ جو برہمن حکمران بن جاتے وہ راجپوت کہلاتے تھے کہ پنڈت اور پادری تو بادشاہ کا آلہ کار ہوتے ہیں اور تلوار، زنار سے افضل ہے۔ چھٹی سے بارہویں صدی کی راجپوت سلطنتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور راجپوت راجباڑے تو1947تک قائم رہے!ابوالفضل کے مطابق سومرا خاندان کے 36 حکمران تھے۔ان کا اقتدار ساڑھے تین سو سے پانچ سو سال بتایا جاتا ہے۔تاریخ میں چار دودو ہیں۔وہ بہادری اور زورآوری کی وجہ سے دودا کہلاتے تھے۔اسد الملت سلطان دودو شہید تیرھویں صدی کے آخر کے بادشاہ تھے۔ سندھی میں دودا ، پہلوان یا زور آور آدمی کو کہتے ہیں۔سرائیکی میں کبڈی کی طرح کا ایک کھیل دودا کہلاتا ہے۔ڈاکٹر مہر عبدالحق نے” تھل”میں لکھا ہے کہ دودو اور چنیسر میں جاں نشینی کے جھگڑے کے دوران دودو کیچ مکران گئے اور رند قبیلے کے سردار شہک خان رند کے مہمان ہوئے ۔سردار نے اپنی بیٹی بی بی مزہ سے رائے دودو کا نکاح کرایا ۔بی بی سے دودو کے بیٹے کا نام گورش خان تھا ۔ گورش خان سے گورچانی قبیلہ ہے۔ میر چاکر خان رند ، دودو سومرو کا سالا ہے۔ یارِمن ریاض خان نے دودو سومرو اور میر چاکر خان کے زمانے کا فرق نمایاں کیا ہے ۔تو یہ کوئی اوردودو سومرو تھے یا تاریخی روایت ضعیف ہے؟ سوال موجود ہے !
ان مباحث کو چھوڑ کر ہم دودو کے قصے کی طرف پلٹتے ہیں۔ سومرا بادشاہ بھونگر کی دو شادیاں تھیں۔ ایک بیوی لوہاری اور دوسری راجپوت تھیں ۔پہلی بیوی سے کمال الدین چنیسر اور بلقیس بھاگی یا بھاگل پیدا ہوئے اور دوسری سے دودو سومرو تھے۔بھاگی، بھاگ سے ہے۔وہ حسین تھیں ۔ باپ کی وفات پر قبیلے کے بزرگوں نے نجیب الطرفین دودو کو بادشاہ بنا دیا ۔ ناراض ہو کر چنیسر دلی گیا اور علاء الدین خلجی سے دودو کو ہٹانے کے لئے مدد مانگی اور بدلے میں اپنی بہن بھاگی دینے کا وعدہ کیا۔1298 میں ظفر خان کی قیادت میں خلجی فوج سندھ آئی ۔جنگ ہوئی اور دودو شہید ہوگئے۔بھاگی سمیت خواتین جام ابڑو کی”آم شام”میں چلی گئیں۔جام ابڑو، سمہ تھے۔ ظفر خان نے ابڑو کے قلعے کو فتح کرنے کی کوشش کی تو یہ ترک اور راجپوت چپقلش بن گئی۔ چنیسر اپنے قبیلے سے آ ملا اور بھاگی بھی سپاہی کا لباس پہن کر دشمن سے نبرد آزما ہوئی۔سلطان کی فوج نے ابڑو کے قلعے کا محاصرہ کیا اور شکست کے خوف سے سندھ کے بہادروں نے جوہر کی روایت کے مطابق قلعے کو آگ لگا دی ۔ایک روایت یہ ہے کہ زمین نے شق ہو کر قلعے اور پہاڑ کو نگل لیا تھا۔محمد حسین جائیسی کا قصہ بھی خلجی کے خلجان اور پدماوتی کے جوہر سے روشن ہے۔فلم "پدماوت”کی نمائش پر کہانی کے مستند ہونے پر سوال اٹھے تھے! مگر کہانی کا DNA تاریخ سے مختلف ہوتا ہے۔تاریخ بادشاہ کی کہانی ہے اور کہانی عوامی تاریخ ہے۔کہانی ہمارا بیانیہ ہے اور یہ بیانیہ ہماری تاریخ ہے۔اجتماعی حافظہ تاریخ کی تشکیلِ نو کرتا ہے۔ ہمارے حافظے میں ایک کڑیل جوان اسد ابڑو تھا۔طرحدار ،وجیہہ اور دراز قد آدمی جو اپنی کشادہ آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا تھا۔پھر وہ بے وفا ہو کر اک اور دیس منتقل ہو گیا مگر خادم حسین سومرو سے ہر ملاقات میں اسد ابڑو ملنے کو آ جاتا ہے!
دودو سومرو اور خلجی کی جنگ کے بارے میں تاریخی شہادت یہ ہے خلجی کا جرنیل ظفر خاں منگولوں سے لڑائی کے لئے سندھ آیا تھا اور دودوخلجی جنگ کہانی یا apocryphaہے۔ مگر یہ اساطیری یدھ سندھ کے ڈی این اے کا حصہ ہے! اس کہانی میں ایک قصہ جھکرو کا ہے۔ چنیسر کا بہادر بیٹا جو دودو کے ساتھ تھا۔وہ سندھ کا شہیدِوفا ہے ۔شاہ بھٹائی نے کہا کہ مٹی ہی اتنی تھی جس سے جھکرو بنایا گیا۔لیلا چنیسر کے قصے کی لیلا بھٹائی بادشاہ کی ست سورمیون میں ہے۔سومرا عہد سندھی زبان کی ترقی، بہادری، برداشت ، جمہوری رویوں ، رومانوی قصوں اور لوک ادب کے حوالے سے یادگار ہے( شاہ لطیف کے حوالے سے ست سورمیون کا ذکر آئے گا)
بارش تھوڑی دیر کے لئے رکی اور جوں ہی ہم گاڑی میں بیٹھے پھر شروع ہو گئی تھی ۔ہم صحرا عبور کر کے آئے تھے۔اب نمک کے میدان میں کھڑے تھے۔ مزار سے ذرا دور سمندر تھا۔نپولین نے لیبیا کے صحرا سے گزرتے ہوئے کہا تھا” سمندر کی سب سے زیادہ مشابہت صحرا سے ہے”!ہم وہاں تھے جہاں نمک کا رن، صحرا کا سراب اور سمندر کی وسعت یکجا تھے۔تثلیث سے طلسم تھا۔یہ شاعرانہ مابعد الطبیعات کی کائنات تھی۔عالم تمام خیالات کے حلقے میں تھا۔ دودو کے مزار پر پہلی بار بائبل میں عیسی علیہ السلام کے ” پہاڑ پر وعظ ” میں ” salt of the earth” کے معنی سمجھ ائے تھے۔ناصرت کے یسوع نے مچھیروں، گڈریوں اور مزدوروں کو زمین کا نمک کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ عام لوگ جو اپنے کام سے معتبر ہیں ۔ سانول، سلونے، مٹھڑے لوگ جن سے زندگی کا اعتبارہے۔ جو کبھی دودو تو کبھی رانجھا، سسی اور ہیر ہیں:
تھل چترانگ اندر میں سسی
بیلے بیٹیں ہیر
گجرات میں میں نمک کو میتھو یا مٹھو کہتے ہیں۔سندھی، سرائیکی اور پنجابی میں پیاروں کو مٹھا کہتے ہیں۔راجپوت سمراٹ، دودو ہماری لوک کہانی کا مٹھا ہے۔ ست گرہ میں دفن چاکر خان رند اور روپا ماڑی میں سویا دودو سومرو زمین کا نمک ہیں۔کہانی میں سامراجی علاء الدین خلجی مر گیا ہے۔ دودو سومرو زندہ ہے۔ تاریخ کی خطائیں ،دودو کی بہادری اور ریباریوں کی وفا کے سامنے ڈھیر ہیں۔ مچھیروں، گڈریوں ، چارنوں، سگھڑوں ، مراثیوں اور کبیشروں نے دودو کو امرت پلایا ہے۔مقامی سورما کہانی کے طلسم سے زندہ ہے۔سامراجی بادشاہ مر گیا ہے!
واپسی کا سفر مشکل تھا۔ بارش تیز ہو گئی تھی۔ روپا ماڑی سے بدین اور بدین سے حیدرآباد تک بارش ساتھ تھی ۔ رات اور بارش نے مل کر سڑک کے ساتھ چلتے سندھ کے منظروں کو چھپا لیا تھا ۔بجلی چمکتی تو بادل کبھی دودو اور کبھی جھکرو کا روپ دھار لیتے تھے۔سندھ یاترا حقیقت سے زیادہ خواب بن گئی تھی!
اے گردشِ زمیں مجھے آنکھوں میں اپنی دیکھ
میں ہوں، مگر یہ خواب نہیں میرے بے ثبات

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

رانا محبوب اختر کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: