مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں کئی خواب بار بار دیکھتا ہوں||مبشرعلی زیدی

شاہد حمید صاحب بک کارنر کے بانی تھے۔ کراچی اور لاہور تک میں کتابیں چھاپنا اور مطالعے کے شوقین لوگوں تک پہنچانا آسان نہیں۔ کُجا یہ کہ کوئی جہلم میں بیٹھا رہے، اچھی اچھی کتابیں چھاپے اور دنیا بھر میں اردو سے محبت کرنے والوں کو پہنچائے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کئی خواب بار بار دیکھتا ہوں۔ ان میں سے ایک خواب کتب خانہ صدیقیہ کا ہے۔
میرے بچپن میں خانیوال میں کتابوں کی دو بڑی دکانیں تھیں۔ کتب خانہ اشرفیہ اور کتب خانہ صدیقیہ۔ دونوں کے مالکان بھائی تھے۔ اشرفیہ پر کورس کی کتابیں اور اسٹیشنری ملتی تھی اور صدیقیہ پر اخبار، ناول اور رسالے۔
میں اپنا جیب خرچ جمع کرتا اور تین ساڑھے تین روپے ہوجاتے تو نڑی کی طرح کتب خانہ صدیقیہ پہنچتا۔
وہ سنگلاں والا چوک کے قریب چھوٹی سی دکان تھی۔ سامنے اخبار پڑے ہوتے، تار پر ڈائجسٹ لٹکے رہتے۔ لیکن میری دلچسپی دائیں طرف کے ایک خانے میں ہوتی جہاں جگنو، نونہال اور تعلیم تربیت رکھے ہوتے یا اشتیاق احمد کے ناول۔
کتب خانے کے مالک کاؤنٹر کے قریب بیٹھے رہتے تھے۔ مجھے ان کا چہرہ یاد نہیں۔ خواب میں بھی دھندلا رہتا ہے۔ بس کتابیں دکھائی دیتی ہیں۔ جب میں بہت سی کتابیں خرید لیتا ہوں تو آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس وقت خواب ٹوٹنے کی مایوسی نہ پوچھیں۔
کتابوں سے عشق مجھے کہاں کہاں لے گیا۔ کراچی میں فضلی، لبرٹی بکس اور ویلکم بک پورٹ، لاہور میں سنگ میل اور ریڈنگز، اسلام آباد میں سعید بک بینک، دبئی میں میگروڈی، نیویارک میں امیزون اور واشنگٹن میں بارنس اینڈ نوبل، پولیٹکس اینڈ پروز اور سیکنڈ اسٹوری بکس۔
لیکن خواب میں وہی خانیوال کا کتب خانہ آتا ہے۔
ایک جگہ نہ جانے کا دکھ ہے اور وہ ہے بک کارنر جہلم۔ 2017 میں لاہور اور اسلام آباد گیا تو گگن شاہد بھائی نے جہلم آنے کی دعوت دی۔ لیکن بچے ساتھ تھے اور وہ دورہ ان کے نام تھا۔
آج افسوس ہوتا ہے کہ جہلم کیوں نہ گیا۔ دکھ کا سبب شاہد حمید صاحب سے ملاقات سے محرومی ہے۔
شاہد حمید صاحب بک کارنر کے بانی تھے۔ کراچی اور لاہور تک میں کتابیں چھاپنا اور مطالعے کے شوقین لوگوں تک پہنچانا آسان نہیں۔ کُجا یہ کہ کوئی جہلم میں بیٹھا رہے، اچھی اچھی کتابیں چھاپے اور دنیا بھر میں اردو سے محبت کرنے والوں کو پہنچائے۔
اتفاق سے میں نے بھی چند کتابیں چھاپ رکھی ہیں۔ پہلی کتاب 1995 میں چھاپی۔ پھر ڈاکٹر آصف فرخی کے ادارے شہرزاد سے کتابیں چھپیں لیکن ان کا صرف نام ہوتا تھا۔ آصف بھائی کہتے کہ تم سارے کام جانتے ہو تو خود کرو۔
میں اپنی کتاب شائع ہونے کے شوق میں کام کرتا تھا لیکن پھر بھی دانتوں تلے پسینہ آجاتا۔ کمپوزنگ، حروف خوانی، اچھا کاغذ خریدنا، جاذب نظر سرورق بنوانا، بہتر جلدسازی اور پھر تقسیم کاری، یہ سب جاں گسل مرحلے ہیں۔
شاہد حمید صاحب کے ادارے بک کارنر نے کتابوں کو ایسے شوق اور دلچسپی سے چھاپا کہ میں لکھنے والے اور چھاپنے والے، دونوں حیثیتوں میں داد دینے پر مجبور ہوں۔ بلاشبہ بک کارنر کی کتابیں دوستوں کو فخر سے تحفے میں دی جاسکتی ہیں۔
گزشتہ دنوں شاہد حمید صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو دل غم میں ڈوب گیا۔
پھر عمر قریشی کا ڈان میں چھپا ہوا ایک کالم یاد آیا۔ انھوں نے لکھا کہ جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میں قبرستان سے سیدھا دفتر آیا تاکہ باپ کے کام کو جاری رکھ سکوں۔ اور یہی اس نقصان، اس خسارے کو کم کرنے کی بہترین کوشش ہے۔
مجھے شاہد حمید صاحب کے انتقال پر دکھ ہے لیکن یہ اطمینان بھی ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی ہے۔ بھائی گگن شاہد اور امر شاہد بے حد محنتی ہیں اور معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ وہ باپ کا مشن اسی طرح جاری رکھیں گے۔
جی ہاں، گزشتہ رات بھی میں نے خواب میں کتب خانہ ہی دیکھا۔ فرق یہ تھا کہ اس میں سجی تمام کتابیں بک کارنر جہلم کی تھیں اور کاؤنٹر کے قریب بیٹھے شخص کا چہرہ روشن تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: