اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سب اپنے اپنے داو پر ہیں||حیدر جاوید سید

دوسری رائے یہ ہے کہ صدر مملکت کسی تاخیر کے بغیر علماء اور مشائخ کا اجلاس بلائیں۔ سعد رضوی 20اپریل کی احتجاجی کال واپس لے چکے۔ دیھکنا یہ ہے کہ ان کی جماعت ان کی اپیل کو مانتی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو ہورہا ہے وہ دِکھ نہیں رہا جو دِکھ رہا ہے وہ ’’اصل‘‘ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی گھڑی دائیں جیب سے نکالی اور اسے چابی بھرنے کے بعد ارشاد فرمایا ’’اگر ملک میں پی ٹی ایم جیسی قوم پرست، انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم کام کرسکتی ہے تو ایک مذہبی جماعت ٹی ایل پی کو یہ حق کیوں نہیں؟‘‘
خیبر پختونخوا میں اپنے لئے طاقت کا بیس کیمپ مولانا جن علاقوں کو سمجھتے تھے اور ہیں پی ٹی ایم وہاں کھڑی ہے۔
پی ٹی ایم سے دھچکا اے این پی کو بھی لگا مگر وہ مولانا کی سطح تک نہیں گئے۔
رات گئے مولانا نے پھر کہا اگر ٹی ایل پی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرتی ہے تو ہم ساتھ جائیں گے۔ وقت اور مسائل انسان کو کیا سے کیا بنادیتے ہیں۔ عبرت پانے والوں کے لئے اس میں نشانیاں بہت ہیں۔
اس ساری کھیچل میں جو پچھلے چند دنوں سے جاری ہے کسی نے افغان صدر اشرف غنی کی بات سنی ہی نہیں۔
اشرف غنی کہتے ہیں
’’اب جب امریکہ افغانستان سے جارہا ہے تو پاکستان فیصلہ کرے وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن؟‘‘
فقیر راحموں کہتے ہیں 41سال کی افغان پالیسی پر دھمال ڈالنے کااس سے اچھا وقت ہو ہی نہیں سکتا۔
دل کرتا ہے کہ ’’لالے‘‘ کو فون کروں اور اسے سنائوں ’’مرے تھے جن کے لئے انہوں نے پوچھا ہے مرنے والا دوست ہے کہ دشمن؟‘‘
چلیں چھوڑیں ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں۔ لاہور میں یتیم خانہ پر ہفتہ بھر سے دھرنا چل رہا ہے۔ اتوار کا دن اہل لاہور کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ اب سوموار کی صبح ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ سعد رضوی سے اس کی جماعت کے لئے جو پیغام ہفتہ کی سپہر حاصل کیا گیا تھا وہ اتوار کی شام تک کس کی جیب میں پڑا رہا کیونکہ اگر یہ پیغام ہفتہ کو ہی ٹی ایل پی کے مرکز تک پہنچادیا جاتا تو عین ممکن ہے کہ اتوار کے ناخوشگوار واقعات ظہور پذیر نہ ہوتے۔
ہم تجربوں کی شوقین مخلوق ہیں۔ شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنانا تجربہ ہی تو ہے۔ داخلی سکیورٹی کی الف بے معلوم نہیں اسے بس بڑبولا ہے۔
جھوٹ اتنی صفائی سے بولتا ہے کہ سننے والا شرمندہ ہوجاتا ہے اور شیخ سمجھتا ہے کہ مجھے داد دے رہا ہے۔
جو معاملات مذاکرات سے حل ہوسکتے تھے وہ ناخوشگوار واقعات کو جنم دینے کا سبب کیوں بنے؟
جواب سادہ ہے (کیونکہ یہ مسئلہ فیثا غورث ہرگز نہیں) اور وہ یہ کہ جب جناب شیخ وزیر داخلہ بنائے گئے تھے تو ان کالموں میں عرض کیا تھا اب مسائل سدھرنے کی بجائے بگڑیں گے۔ خدشات پورے ہوئے۔
اب صورت یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں ایکا کرتی دیکھائی دے رہی ہیں مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے والی واسکٹ پہن اور گھڑی لگاچکے۔ قبلہ مفتی منیب الرحمن کے لئے اپنی سبکی کا بدلہ لینے کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نامی بیوہ نے بھی کلائیوں میں چوڑیاں پہن لی ہیں۔ لالہ سراج الحق پرواز کو پَر تول رہے ہیں۔
ان دیکھے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ کیا 1977ء جیسے حالات بننے جارہے ہیں؟
یہی اہم سوال ہے۔ تقسیم شدہ بلکہ مرحومہ و مغفورہ پی ڈی ایم کے لواحقین کدھر کھڑے ہوں گے یعنی نون لیگ کیا فیصلہ کرتی ہے تادم تحریر اس کے چند رہنماوں اور جذباتی کارکنوں کے سوا ساری قیادت نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا۔
مولانا کی طرح کھٹ سے اپنا وزن مذہبی کارڈ کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔
پیپلزپارٹی نے تو پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ عمران حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلیں گے نہ اتحادیوں کو کھیلنے دیں گے۔
مولانا کی اصل ناراضگی کا سبب یہی موقف ہے اسی لئے انہوں نے نون لیگ کا ذاتی ترجمان تک بننا گوارہ کرلیا تاکہ پیپلزپارٹی کو سبق سیکھاسکیں۔
اب حالت یہ ہے کہ ایم ایم اے کے تن مردہ میں روح پھونکنے کی کوشش میں ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ حکومت نے کچھ امور میں جلد بازی کی کچھ تحمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تھا شاید فوری فیصلے ان اطلاعات پر ہوئے کہ ٹی ایل پی کے مظاہروں کو چند کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ کارکنوں نے ہائی جیک کرلیا ہے۔
بہرطور جو ہوگیا سو ہوگیا۔ اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بہتری کیسے آئے گی۔
ایک رائے یہ ہے کہ وزیر داخلہ بدل کر دیکھ لیا جائے یہ ذمہ داری پرویز خٹک کو دی جائے، پرانے سیاسی کارکن ہیں ماردھاڑ سے زیادہ مذاکرات کا راستہ اپنانے پر یقین رکھتے ہیں۔
دوسری رائے یہ ہے کہ صدر مملکت کسی تاخیر کے بغیر علماء اور مشائخ کا اجلاس بلائیں۔ سعد رضوی 20اپریل کی احتجاجی کال واپس لے چکے۔ دیھکنا یہ ہے کہ ان کی جماعت ان کی اپیل کو مانتی ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ رات گئے ٹی ایل پی نے مغوی ڈی ایس پی سمیت 12پولیس اہلکار رہا کردیئے تھے۔ بہتر یہی ہوگا کہ ٹی ایل پی کے ہم مسلک جید علماء اور مشائخ کو زحمت دی جائے کہ وہ آگے بڑھ کر ان سے بات چیت کریں، درمیانی راستہ نکلوائیں۔ درمیانی راستہ نکلناچاہیے۔
اب چلتے چلتے دل پشوری کرلیجئے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے وزیر سینیٹر شبلی فراز کہتے ہیں ’’چاند دیکھنا اور عیدیں کروانا وزارت سائنس کا کام نہیں ہے‘‘ اچھا شاہ جی پھر اس وزارت نے بھنڈی توری کی اقسام بتانی ہیں؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: