اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست ہر چیز پر مقدم ہے!||سارہ شمشاد

حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگادی ہے۔ اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997ء کے رول 11بی کے تحت تحریک لبیک پر پابندی لگائی ہے۔چند روز قبل بلوائیوں نے جس طرح نجی املاک کو نقصان پہنچایا اس سے حکومتی رٹ متاثر ہوئی
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگادی ہے۔ اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997ء کے رول 11بی کے تحت تحریک لبیک پر پابندی لگائی ہے۔چند روز قبل بلوائیوں نے جس طرح نجی املاک کو نقصان پہنچایا اس سے حکومتی رٹ متاثر ہوئی بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آئی کیونکہ جس انداز میں مشتعل مظاہرین اور بلوائیوں نے حکومت کو پہلے دو دن مفلوج کئے رکھا اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور پولیس والوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا اس کے باعث حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر تو سوال اٹھے ہی ہیں ساتھ ہی یہ بات بھی ذہنوں میں کلبلارہی ہے کہ کس طرح ایک منظم انداز میں ملک بھر میں احتجاجی مظاوروں کا پروگرام ترتیب دیا گیا مگر ہماری ایجنسیوں کو خبر تک نہ ہوئی۔ حکومت کی پہلے دوروز کی خاموشی اور بے بسی نے معاملات کو اس نہج تک پہنچادیا کہ ایک طرح سے پوری سٹیٹ یرغمال بن کر رہ گئی اور بلوائیوں کا جو دل چاہا انہوں نے کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے ایسے میں اس قسم کے افسوسناک اور شرمناک واقعات کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ وزیرداخلہ شیخ رشید کی مکمل طورپر ناکامی ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں تاہم جہاں تک تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا تعلق ہے تو عوام حکومت سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ فیض آباد کے دھرنے کے موقع پر جو معاہدہ تحریک لبیک کے ساتھ کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد تاحال کیونکر نہ ہوا اسی طرح جس طرح انہیں ہزار ہزار روپے دے کر گھروں کو رخصت کیا گیا تھا وہ معاملہ بھی جواب طلب تھا۔ اگر حکومت کو اس تنظیم کی سرگرمیوں پر اعتراض تھا اور وہ انہیں ریاست مخالف سمجھتی تھی پھر ان سے ماضی میں کئے جانے والے معاہدوں کی کیا ضرورت تھی۔اب شیخ رشید یہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک لبیک کی جانب سے جو مطالبات کئے جارہے تھے انہیں نرم انداز میں ترمیم کرکے مسودہ پیش کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا اور جو مطالبات ان کے ہیں کہا جارہا ہے کہ فرانس سمیت ریاست سے یورپی ممالک کے تمام سفیروں کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ایسے میں مذہبی حلقوں سمیت دیگر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خارجہ پالیسی کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ کسی کی پسند و ناپسند کے دائرے کے گرد گھومے۔ پاکستان ایک آزاد ایٹمی ریاست ہے اور اس نے تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے ہیں اس لئے کسی کی منشا یا خواہش پر حکومت خود کو سرنڈر نہیں کرسکتی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے عالمی سطح پر سرکاردوعالمؐ کی ناموس اطہر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں دوٹوک موقف اپنایا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود بعض حلقوں کی جانب سے ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سی ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے یہ کہہ کر قوم کو چونکادیا ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ پہلے ریاست بعد میں حکومت کا ہے۔ ادھر تحریک لبیک کے سندھ کے امیر نے بھی برملا کہا ہے کہ جو کچھ وطن عزیز میں پچھلے چند دنوں سے ہورہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ایسا قطعاً نہیں ہوناچاہیے تھا۔توڑپھوڑ مارپیٹ کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان چند دنوں میں وطن کو جانی نقصان کے علاوہ اربوں روپے کا مالی نقصان جو پہنچا ہے اس کی ایک غریب اور تباہ حال معیشت کیونکر متحمل ہوپائے گی۔ تحریک لبیک کی جانب سے جو فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا، ریاست اس کے اثرات کی قطعاً متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر پاکستان فرانس کے سفیر کو واپس بھیجتا ہے تو یورپی یونین میں جو 34ممالک شامل ہیں وہ بھی اپنے سفیروں کو واپس بلاسکتے ہیں یہی نہیں بلکہ ان ممالک میں جو لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں اور ملازمتیں کرکے بڑی تعداد میں زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے ہیں وہ آنا بھی بند ہوجائے گا۔اسی طرح پاکستان ان ممالک کا مقروض بھی ہے۔یاد رہے کہ یورپی یونین میں شامل ممالک میں سے اگر ایک ملک کوئی فیصلہ کرتا ہے تو دوسرے ممالک اس کو ویٹو کردیتے ہیں۔پاکستان میں پرتشدد مظاہروں کے بعد فرانس نے پاکستان میں موجود اپنے شہریوں اور مکینوں کو عارضی طورپر پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ مذہبی جماعت کا یہ طرزعمل پاکستان کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ میں حکومت کی ترجمان نہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس بہترین انداز میں وزیراعظم عمران خان نے گستاخانہ خاکوں سمیت امت مسلمہ کے دیگر مسائل کوعالمی سطح پر اٹھایاہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان اس اہم موڑ پر کسی قسم کے مس ایڈونچر کا شکار نہیں ہوسکتا کیونکہ پرتشدد مظاہروں اور بلووں سے ملک دشمن طاقتوں کے مقاصد کو تقویت پہنچی ہے اور ابھی یہ جو دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ کی رینکگٹ 192سے 107پر آئی ہے، اس درجہ بندی کو ریورس گیئر بھی لگ سکتا ہے۔ تحریک لبیک پر بحیثیت سیاسی جماعت لازم تھا کہ وہ اپنے عوامی نمائندوں کے ذریعے اسمبلیوں میں آواز بلند کرتی اور علمائے مشائخ کے ذریعے حکومت کو اس کے معاہدے کی پاسداری بارے یاد دلاتی۔ ادھر حکومت کو بھی تحریک لبیک سے معاہدہ کرتے وقت انتہائی محتاط رہنا چاہیے کہ انہوں نے یہ کیسے تسلیم کرلیا کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جائے گا۔ خاص طورپر اس وقت جب پاکستان اور امت مسلمہ کے پاس یورپی یونین جیسا کوئی پلیٹ فارم سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ اسلامی ممالک میں تو بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنے برادر اسلامی ملک کا ساتھ دینے کی بجائے مغربی ملک کا ساتھ دیتے ہیں اس لئے حکومت معاہدہ کرتے وقت عقل و دانش کا معاہدہ کرتے وقت مظاہرہ کرناچاہیے تھا اور اب جب تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے تو امن و امان کی صورتحال تاحال بعض علاقوں میں مخدوش ہے۔ ہائی ویز اور موٹر ویز پر احتجاجی دھرنا ابھی جاری ہے۔
پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے اس میں ہلکی سی غفلت لمحوں نے خطا کی، صدیوں نے سزا پائی پر بھی منتج ہوسکتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے تاثر کو جتنا جلد ہوسکے ختم کیا جائے۔ میں ان سطور کے ذریعے وطن عزیز کے بڑوں سے ایک درخواست ہاتھ جوڑ کر کروں گی کہ خدارا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ کسی بھی ایسے طرزعمل کی حمایت تو کجا اس کو پنپنے کا بھی موقع فراہم نہ کیا جائے جس سے وطن عزیز میں آگ پھیلنے کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔ ضیاء الحق کی باقیات کے بعد ایم کیو ایم، 9/11 کے بعد طالبان اور اب تحریک لبیک…کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں نے جس انداز میں قانون ہاتھ میں لیا اس سے پاکستان بارے بنانا ریپبلک کے تاثر نے جنم لیا۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے ایسے مناظر ہمارے لئے کسی خودکش حملے سے کم نہیں۔
آقائے دوجہاں سرور کونینؐ پر تو ہم سب قربان ہیں اور ہم سب دین مبین کے سپاہی ہیں۔ ہمارا دین تو امن سلامتی کا درس دیتا ہے اور تشدد، انتہا پسندی کا ہمارے دین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میرے دین میں تو ایک ناحق کا خون گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ میرے دین میں تو معافی، صلہ رحمی، اخلاص کی تعلیمات دی جاتی ہیں ، انتہا پسندی ہو یا عسکریت پسندی دونوں کی میرے دین میں کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست کو اس نازک موقع پر بڑے اور جرات مندانہ فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ کسی کو ریاست کیو ڈکٹیٹ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون کو اپنی عملداری کو ہر صورت یقینی بنانا چاہیے اور آئینی تقاضوں کے منافی ہر قسم کی سرگرمیوں کو سختی سے کچلنا چاہیے اور ساتھ ہی علمائے کرام کو بھی اس حساس مسئلے پر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے کیونکہ یہ وطن ہمارا ہے کہ، ہم ہیں پاسباں اس کے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: